9 مئی اور 26 نومبر کے مقدمات عدالت میں زیر سماعت ہونے کیوجہ سے جوڈیشل کمیشن نہیں بن سکتا، اعجاز الحق
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن کا ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ تحریک انصاف کا مذاکرات ختم کرنے کا فیصلہ حیران کن اور افسوسناک ہے، مجھے سمجھ نہیں آئی کہ پی ٹی آئی کے فیصلے کی کیا وجہ تھی۔ اسلام ٹائمز۔ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اعجاز الحق نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کا مذاکرات ختم کرنے کا فیصلہ حیران کن اور افسوسناک ہے، کمیٹی میں واضح کہا گیا تھا کہ 7 ورکنگ دنوں میں جواب دیا جائے گا، مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اس فیصلے کی کیا وجہ تھی۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اعجاز الحق نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک انصاف کا مذاکرات ختم کرنے کا فیصلہ حیران کن اور افسوسناک ہے، مجھے سمجھ نہیں آئی کہ پی ٹی آئی کے فیصلے کی کیا وجہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی ہر معاملے میں تھوڑی بے صبری جماعت ہے، کمیٹی میں واضح کہا گیا تھا کہ 7 ورکنگ ڈیز میں جواب دیا جائے گا۔ پی ٹی آئی ہر معاملے میں تیزی کرتی ہے۔ اعجاز الحق نے کہا کہ کمیٹی بنانے میں بھی تیزی اور ختم کرنے میں بھی تیز ہوتی ہے۔
مذاکرات ختم کرنے کے فیصلے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مجھے مذاکرات ختم کرنے پر دکھ ہوا، میں امید نہیں کر رہا تھا کہ پی ٹی آئی مذاکرات ختم کر دے گی، مجھے سمجھ نہیں آیا کہ کسی نے کیا بتا دیا، جو ایسا فیصلہ کیا۔ رکن حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے کہا کہ میری بڑی خواہش تھی کہ مذاکرات آگے بڑھیں، بڑی محنت اور سنجیدگی کے ساتھ یہ پراسس لے کر چل رہے تھے۔ ہم تو سخت محنت کر رہے تھے کہ تمام قانونی پہلو دیکھ کر اپنا جواب تیار کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ایشو یہ بھی تھا کہ کیا زیر سماعت کیسز پر کوئی جوڈیشل بن سکتا ہے؟ 9 مئی اور 26 اکتوبر واقعات معاملے پر عدالتوں میں اب بھی کیسز چل رہے ہیں، 26 اکتوبر واقعات میں 17 لوگوں کیخلاف کیسز چل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایگزیکٹو آرڈر سے تو کچھ نہیں ہوسکتا، جمہوری حکومتیں ایسا نہیں کرسکتیں، وکلا نے بتایا ہوگا کہ جب کیسز چل رہے ہیں تو جوڈیشل کمیشن بنانا قانونی طور پر ممکن نہ ہو۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مذاکرات ختم کرنے مذاکراتی کمیٹی مجھے سمجھ نہیں مذاکرات ختم کر کہ پی ٹی آئی اعجاز الحق نے کہا کہ چل رہے تھا کہ
پڑھیں:
جسٹس طارق محمود جہانگیری کا جوڈیشل ورک سے روکنے کا آرڈر چیلنج کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 ستمبر2025ء ) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے جوڈیشل ورک سے روکنے کا آرڈر سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اطلاعات کے مطابق جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جانب سے انہیں جوڈیشل ورک سے روکنے کا اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان کے ڈویژن بنچ کا آرڈر سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اس حوالے سے تحریری عدالتی فیصلہ جاری ہونے پر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی۔ قبل ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی جہاں چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان نے کیس سماعت کی، اس موقع پر وکلاء کی کثیر تعداد کمرہ عدالت پہنچی، ڈسٹرکٹ بار اور ہائیکورٹ بار کی کابینہ بھی کمرہ عدالت میں موجود رہی، شیر افضل مروت بھی کمرہ عدالت پہنچے، تاہم جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف درخواست گزار میاں داؤد آج پیش بھی نہیں ہوئے اور التواء کی استدعا کی گئی لیکن پھر بھی جج کو کام سے روک دیا گیا۔(جاری ہے)
دوران سماعت وکیل راجہ علیم عباسی نے دلائل دیئے کہ ’ہماری صرف گزارش ہے کہ یہ خطرناک ٹرینڈ ہے اگر یہ ٹرینڈ بنے گا تو خطرناک ٹرینڈ ہے، سپریم کورٹ کے دو فیصلے موجود ہیں، اس درخواست پر اعتراض برقرار رہنے چاہئیں‘، عدالت نے استفسار کیا کہ ’کیا آپ اس کیس میں فریق ہیں؟‘، وکیل اسلام آباد بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ ’ہم قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، بار ایسوسی ایشنز سٹیک ہولڈرز ہیں‘۔ چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے ریمارکس دیئے کہ ’حق سماعت کسی کا بھی رائٹ ہے ہم نے آفس اعتراضات کو دیکھنا ہے، عدالت کے سامنے ایک اہم سوال ہے جس کو دیکھنا ہے، اگر معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ہو تو کیا ہائی کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے؟‘، بعد ازاں سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک عدالت نے کیس ملتوی کردیا، سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ آنے تک کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا رہے گا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے سینئر قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان اور اشتر علی اوصاف عدالتی معاون مقرر کردیا۔