ٹی وی اور سوشل میڈیا تقویٰ ،علم کے بجائے طاقت ،دولت کو پروان چڑھایا
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
کر اچی ( رپورٹ \محمد علی فاروق ) ٹی وی اور سوشل میڈیا نے تقویٰ، علم کے بجائے طاقت ، دولت کو پروان چڑھایا‘ سیاستدان علم سے عاری نظر آتے ہیں اقتدار پر مفاد پرستوں کے قابض ہونے سے اسلامی اقدار شدید متاثر ہوئیں‘ حصول علم کو بھی حصول دولت کا ذریعہ بنا لیا گیا‘ دنیا کے لیے آخرت قربان کر دی گئی‘ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوں کو تقویٰ اور علم کے حصول کا ذریعہ بنایا۔ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی کی ڈائریکٹر امور خارجہ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی ، کئی کتابوںکے مصنف اور تجزیہ کارپروفیسر ڈاکٹر محمد عارف صدیقی اور فروغ اسلام فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر مولاناعطا اللہ عبدالرؤف نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’معاشرے میں تقویٰ اور علم کی فضیلت کے بجائے دولت کو کیوں اہمیت حاصل ہوگئی ہے؟‘‘ سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر رمضان کے روزے اس ہی لیے فرض کیے ہیں تاکہ تقویٰ اور علم کے حصول کا ذریعہ بن سکے‘ روزے اللہ تعالیٰ کی کبرائی اور قرآن کریم کے علم کے اظہار کے تشکر کا ذریعہ ہیں ‘رمضان خاص طور پر مسلمانوں کی زندگی میں تبدیلی لاتا ہے اور تبدیلی ہمیشہ اچھے مقاصد کے لیے ہونی چاہیے‘ حالیہ دور میں انسانیت پر ایسے زوال رونما ہو رہے ہیں جو اچھی اقدار افکار کو رفتہ رفتہ تبدیل کرتے جا رہے ہیں‘ طاقت اور دولت کی وجہ سے انسانیت کے اعلیٰ اقدار کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے‘ پوری دنیا میں فسادی تہذیبیں اور ممالک کو بظاہر لگتا ہے کہ انہیں دیگر ممالک پر فضیلت اور اہمیت حاصل ہے انہیں لگتا ہے کہ پوری دنیا میں انہیں کا ڈنکا بج رہا ہے‘ ایسی صورت حال ہمارے معاشرے اور پوری دنیا میں ہر جانب ہے‘ وہی لوگ نظر آتے ہیں جو طاقت اور دولت کے بل بوتے پر بھروسہ کرتے ہیں مگر ہر کمال کو زوال ہے ہم اگر گزشتہ تہذیبوں پر نظر ڈالیں تو ایسی کئی بڑی بڑی تہذیبیں نظر آئیںگی مگر اب ان کا نام ونشان بھی باقی نہیں ہے‘ خود قرآن اس پر گوا ہ ہے کہ ان لوگوں کے پاس آج کے مقابلے میں بہت زیادہ طاقت و دولت تھی ان کی معیشت بہت مضبوط تھی مگر جب اللہ تعالیٰ کا حکم آگیا تو وہ تہذیبیں تباہ وبرباد ہوگیں‘ ان تہذیبوں کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ وہ آج کی دنیا سے کہیں زیادہ طاقت اور شان شوکت کی مالک تھیں‘ وہ لوگ پہاڑوں کو موم کی طرح تراش دیتے تھے‘ احرام مصر بھی ان ہی تہذیبوں میں سے ایک تہذیب کا شاہکار ہے‘ بڑے بڑے بادشاہوں کے مزار ویران پڑے ہیں لیکن جو اللہ کے دوست (ولی) ہیں ان کی قبریں آباد ہیں جن لوگوں نے اس دنیا میں خیر پھیلایا ان کے پاس نہ طاقت تھی‘ نہ ہی دولت تھی مگر ان لوگوں نے انسانوں کے دلوں پر حکومت کی اور آج بھی ایسے لوگوں کا نام باقی ہے اور ان کا نام عزت و تکریم کے ساتھ لیا جاتا ہے‘ آج کی دنیا کو یہی لگتا ہے کہ ہمارا معیار طاقت و دولت ہے مگر ہمارا معیار یہ نہیں ہے، معاشرہ جلد ہی فرعون ، نمرود، قارون اور ہامان جیسے حکمرانوں کو بھول جاتے ہیں لیکن پیغمبروں، رسولوں ، ان کی تصدیق کرنے والے صحابہ کرام، اللہ تعالیٰ کے نیک اور عبادت گزار لو گوں کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے انسانوں کے دلوں اور دماغ کو مسخر کیا تھا۔ محمد عارف صدیقی نے کہا کہ ٹی وی اور سوشل میڈیا نے ہماری معاشرتی اقدار، رویوں اور ترجیحات پر نمایاں اثر ڈالا ہے‘ انہوں نے الفاظ کے معنیٰ بدل ڈالے اور یہ سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا‘ آپ یہی دیکھ لیجئے کہ کچھ عرصے قبل تک جہاد کو فرض سمجھنے والے آج اسے فساد کا نام دینے لگے ہیں‘ بالکل اسی طرح کچھ عرصہ قبل تک ایمان اور تقویٰ کو دولت سمجھا جا تا تھا‘ ایسے محاورے موجود تھے کہ فلاں شخص ایمان کی دولت سے مالا مال ہے، متقی شخص کو سمجھا جاتا تھا کہ وہ غنی ہے کیونکہ وہ دنیوی بے جا ضروریات سے بے نیاز نظر آتا تھا جو اسے غنی ظاہر کرتا تھا‘ اسی طرح علم کی دولت کے بارے میں ضرب الامثال پڑھیں اور کہانیاں پڑھیں‘ محاورے پڑھیں مگر آہستہ آہستہ جب معاشرتی اقدار میں تبدیلی آئی تو لوگوں کی ترجیحات بدل گئیں وہ مادی آسائشات اور دنیوی ضروریات کے حصول کو مطمع نظر جاننے لگ گئے‘ ان کی ترجیحات میں دائمی سکون اور آرام کے بجائے وقتی اور دنیوی سکون آرام اور آسائشات شامل ہو گئیں‘ انہوں نے دنیا کے لیے آخرت کو قربان کر دیا‘ نمود و نمائش اور دکھاوے کے دور میں باطن کے بجائے ظاہر کو سب کچھ جانا جانے لگا‘ ظاہر کی آرائش اور زیبائش پر توجہ دی گئی جبکہ باطن کو نظر انداز کر دیا گیا‘ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہوا کہ حصول علم کو بھی حصول دولت کا ذریعہ جان کر حاصل کرنے کی کوشش کی گئی‘ نتیجتاً علم بھی اپنی برکات کھو بیٹھا‘ تقویٰ کو رضائے الٰہی کے بجائے دنیوی مقام اور دنیوی بزرگی حاصل کرنے کا ذریعہ جانا گیا یعنی اکثریت نے اسے بھی منافقت کے ساتھ اختیار کیا اور اس سب کا نتیجہ ہم نے معاشرتی بگاڑ، نفسا نفسی اور اخلاقی اقدار کے زوال کی صورت میں دیکھا‘ دوسری طرف اگر آپ آج بھی ان سچے اور کھرے لوگوں سے ملیں جو حقیقی تقویٰ اور علم کی دولت سے مالا مال ہیں یا اس کے حصول کی کوششوں میں سرگرداں ہیں‘ وہ آج بھی شاداں و فرحاں، مطمئن اور اسودہ نظر آتے ہیں کیونکہ اصل اسودگی اور تمانیت اطمینان قلب اور رضائے الٰہی کے ساتھ مشروط ہے لٰہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بات کو سمجھا اور سمجھایا جائے کہ حقیقی دولت ایمان، تقویٰ، کردار اور علم کی دولت ہے ۔ عطا اللہ عبدالرؤف نے کہا کہ بالخصوص یہ مسئلہ مسلم معاشرے کو درپیش ہے اس کی بنیا دی وجہ ایمان کی کمزوری ہے‘مسلمان کے لیے اسلامی بنیادی عقائد پر ایمان رکھنا لازم ہے‘ اس حوالے سے ہم شعوری طور پر بہت کمزور ہیں، مولانا مودودیؒ اس پر زور دیا کرتے تھے کہ ایک مسلمان کو شعوری طور پر مسلمان ہونا چاہیے ، اسلام کے بنیادی عقیدے کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا چاہیے‘ اپنے قول و فعل سے تضاد کو دور کرنا چاہیے‘ تقویٰ اور علم کے بجائے طاقت اور سرمائے کا اہم ہونا دراصل ایمان کی بنیادی کمزوری اور اساسی وجہ ہے لیکن ایمان کی کمزوری کی اصل وجہ دنیا پرستی ہے اس کے ساتھ انتہائی بڑی وجہ ہمارے معاشرے کا حکمران طبقہ، قائد، رہنما، سیاستدان اور وہ افراد جو قوم کی قیادت کے منصب پر فائز ہیں وہ علم سے عاری نظر آتے ہیں‘ آج سے چند سال قبل تک ذی فہم، باشعور، اہل علم افراد کے ہاتھوں قیادت اور سیاست ہوا کرتی تھی جیسے مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسین احمد مدنی، بہادر یار جنگ، سردار عبدالرب نشتر، محمد علی جناح، علامہ اقبال اور بے شمار اکا برین وہ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے باشعور افراد تھے لیکن پھر آہستہ آہستہ ہمارا معاشرتی بگاڑ شروع ہوا تو سیاست میں علم کے بجائے پیسہ آ گیا اور سیاست کاروبار کی شکل اختیار کر گئی جس کے نتیجے میں اہل علم باشعور طبقہ منظر سے غائب ہوگیا اور دنیوی مفاد پرست، اخلاقی گراوٹ کا شکار طبقے کے ہاتھوں میں معاشرے کی قیادت آگئی، نتیجتاً تقویٰ اور علم کے بجائے طاقت اور سرمایہ لو گوں کی نظر میں اہم ہوگیا‘ ظاہر ہے جب سیاست ، عہدے ، منصب ، زمانہ کار نااہل اور سر مایہ دار کے ہاتھوں میں چلے جائیں تو پھر معاشرے میں سرمایہ ہی اہم سمجھا جانے لگتا ہے‘ دوسری جانب پوری امت مسلمہ کے معروضی حالات کو دیکھ لیں یہاںمسلمان عوام کی رائے کا احترام نہیں کیا جاتا بلکہ طاقت کے زور پر مسلمان عوام کو محکوم بنایا گیا ہے اور بنایا جا رہا ہے یہی 2 بنیادی فیصلہ کن عوامل ہیں جس کی بنیا د پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ طاقت اور سر مایہ اس لیے اہم ہوکر رہ گیا ہے‘ امت مسلمہ اس وقت جس راستے پر چل رہی ہے یہ تنزلی ، پستی کی جانب گامزن ہے‘ امت مسلمہ کو اپنے اسلاف کی جانب پلٹنا ہوگا‘ تقویٰ اور علم کو معیار بنانا ہوگا۔
جسارت بات چیت
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: علم کے بجائے طاقت نظر ا تے ہیں اللہ تعالی اور علم کے اور دنیوی طاقت اور ایمان کی کا ذریعہ دنیا میں کی دولت کے ساتھ لگتا ہے کے حصول ا ج بھی کا نام ا ہستہ علم کی کے لیے
پڑھیں:
شہری 804 نمبر والی گاڑی منہ مانگی قیمت پر خریدنے کو تیار، سوشل میڈیا پر پوسٹ بھی لگادی
بانی تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے جیل جانے کے بعد ’قیدی نمبر 804‘ کی اصطلاح تحریک انصاف کے کارکنان اور حامیوں میں ان سے محبت کی وجہ سے عام ہو گئی ہے۔
اسی نمبر کی شرٹس، ٹوپیاں، جیولری، چپل، جیکٹس اور دیگر سامان بھی مارکیٹ میں موجود ہے اور جس چیز پر 804 لکھ دیا جائے پی ٹی آئی کے دیوانوں میں اس کی ڈیمانڈ بھی بڑھ جاتی ہے اور وہ منی مانگی قیمت میں اسے خریدنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ایسی کئی اشیا کی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب پولیس کی گاڑی کا نمبر 804، ویڈیو وائرل
حال ہی میں ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک گاڑی کی نمبر پلیٹ پر 804 لکھا ہوا ہے۔ صارف نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ پشاور سے اسلام آباد جاتے ہوئے موٹروے پر یہ 804 نمبر کی گاڑی سامنے آئی ہے۔ یہ گاڑی جس کی بھی ہے مجھ سے رابطہ کرے میں منہ مانگے داموں پہ خریدنے کے لیے تیار ہوں۔
گاڑی والے تک پہنچائے ویڈیو ????
پشاور سے اسلام آباد جاتے ہوئے موٹروے پر یہ 804 نمبر کی گاڑی سامنے آئی یہ گاڑی جس کی بھی ہے مجھ سے رابطہ کرے میں منہ مانگے داموں پہ خریدنے کیلئے تیار ہوں !! pic.twitter.com/48q3Gj0hH4
— Mohammad Shehzad Khan (@MShehzadSpeaks) July 24, 2025
اس پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے مختلف تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ خالد اعوان لکھتے ہیں کہ میرے پاس 804 نمبر کے 5 ہزار والے 2 فریش نوٹ ہیں کتنے میں خریدو گے۔
میرے پاس 804 نمبر کے 5 ہزار والے 2 فریش نوٹ ہیں کتنے میں خریدو گے
— Khalid Awan (@KhalidA03043660) July 24, 2025
تنویر احمد لکھتے ہیں کہ یہ نمبر گاڑی میرے ایک دوست کی ہے میڈیا کی حد تک اس کو کئی افراد نے خریدنے کی کوشش کی ہے لیکن حقیقت میں کوئی خریدار نہیں ہے۔
یہ نمبر گاڑی میرے ایک دوست کی ہے میڈیا کی حد تک اس کو کئی افراد نے خریدنے کی کوشش کی ہے حقیقت میں نہیں۔ https://t.co/JfhU3clJzZ
— Tanvir Ahmad (@Tanvir0019) July 24, 2025
ایک ایکس صارف کا کہنا تھا کہ اتنا ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں 5 لاکھ مجھے دو میں یہی نمبر لگوا دیتا ہوں۔
اتنا ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں پانچ لاکھ مجھے دو میں یہی نمبر لگوا دیتا ہوں https://t.co/TOtU6dP4xy
— Haroon Tahir awan???? (@HaroonTahirPMLN) July 25, 2025
عامر خان نے 804 نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کی چند تصاویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ آپ پسند کر لیں ہم آپ کو گاڑی بک کروا دیتے ہیں۔
ٹھیک ہے بھائی آپ ان 6 گاڑیوں میں پسند کر لیں ہم آپکو بک کروا دیتے ہیں۔ دو گاڑیاں اگلے پوسٹ میں pic.twitter.com/1BL896vfYN
— Amir Khan (@AnadilKTK) July 24, 2025
کئی صارفین کا کہنا تھا کہ آپ گاڑی کا نمبر سرچ کریں گے تو اس کا نام وغیرہ آ جائے گا اور اس نمبر پلیٹ کے لیے گاڑی خریدنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایکسائز کی سائٹ پر بولی لگتی ہے آکشن میں پیسے دے کر نمبر خرید لیں۔ جبکہ کئی صارفین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 804 نمبر پلیٹ والی کئی گاڑیاں موجود ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
804 پی ٹی آئی عمران خان قیدی نمبر 804 نمبر پلیٹ