Jasarat News:
2025-06-11@04:35:20 GMT

امریکی صدارتی نظام میں ایگزیکٹو آرڈرز کی اہمیت

اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT

امریکی صدارتی نظام میں ایگزیکٹو آرڈرز کی اہمیت

اپنے اقتدار کے پہلے روز ایگزیکٹو آرڈرز جاری کرنا امریکی صدور کی ایک روایت ہے۔ ایگزیکٹو آرڈر ایک ایسا حکم نامہ ہوتا ہے جسے جاری کرنے کے لیے صدر کو کانگریس کی اجازت درکار نہیں ہوتی۔ تاہم اس صدارتی حکم نامے کی بھی حدود ہیں۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ ایگزیکٹو آرڈر کس طرح جاری ہوتے ہیں، ان میں کتنی قوت ہوتی ہے، ان کی حدود کیا ہیں اور آیا یہ احکامات غیر مؤثر بھی کیے جا سکتے ہیں۔

ایگزیکٹو آرڈرز کیا ہوتے ہیں؟
بنیادی طور پر ایگزیکٹو آرڈر صدر کے دستخطوں سے جاری ہونے والی ایک ایسی دستاویز ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ صدر کس طرح وفاقی حکومت کو منظم کرنا چاہتے ہیں۔ ایگزیکٹو آرڈر وفاقی ایجنسیوں کے لیے ہدایات ہوتی ہیں کہ انہیں کیا کارروائی کرنی ہے یا انہیں کیا رپورٹس حاصل کرنی ہے۔ بعض ایگزیکٹو آرڈر قابل اعتراض بھی ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کرسمس کے اگلے روز وفاقی ملازمین کو چھٹی دینا۔ اسی طرح ایگزیکٹو آرڈرکسی بڑی اور اہم پالیسی کی بنیاد بن سکتے ہیں، جس کی ایک حالیہ مثال سابق صدر بائیڈن کی جانب سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے بارے میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کا اجرا ہے۔ اس حکم نامے میں اس کے استعمال پر مؤثر نگرانی کے لیے قواعد و ضوابط بنانے کے لیے کہا گیا تھا۔

ایگزیکٹو آرڈر کے لیے کانگریس کی منظوری درکار نہیں
امریکی آئین کے تحت قوانین کانگریس کے ایوان منظوری کے بعد حتمی دستخط کے لیے صدر کے بھیجتے ہیں اور دستخط ہونے کے بعد وہ قانون کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ جب کہ ایگزیکٹو آرڈر صدر براہ راست جاری کرتا ہے۔ امریکن بار ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹو آرڈر کو کانگریس کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے اور قانون ساز اسے براہ راست رد نہیں کر سکتے، لیکن کانگریس کے پاس ایگزیکٹو آرڈر کو غیر مؤثر بنانے کے طریقے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ایگزیکٹو آرڈر پر عمل کے لیے اس کی فنڈنگ روک سکتی ہے یا کچھ اور رکاوٹیں کھڑی کر سکتی ہے، جس سے ایگزیکٹو آرڈر پر کارروائی عملی طور پر رک جاتی ہے۔

سینٹاباربرا میں قائم کیلی فورنیا یونیورسٹی کے امریکن پریذیڈنسی پراجیکٹ کے لیے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق امریکی تاریخ میں اب تک کئی ہزار ایگزیکٹو آرڈر جاری ہو چکے ہیں۔ جارج واشنگٹن نے 8 ایگزیکٹو آرڈرز جاری کیے تھے، جب کہ فرینکلین روز ویلٹ کے جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈرز کی تعداد 3721 تھی۔ حالیہ دور میں سابق صدر بائیڈن نے اپنے عہدے کی مدت کے دوران 160 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے ، جب کہ صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اپنے اقتدار کے ابتدائی ایام میں 100 سے زیادہ ایگزیکٹو آرڈرز جاری کریں گے۔ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ ان میں غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری، میکسیکو کی سرحد کے کنٹرول کو سخت بنانے، توانائی کے حصول کو ترقی دینے، وفاقی کارکنوں کے لیے قوانین اور صنفی پالیسیاں وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے ٹک ٹاک کو فروخت کے لیے مزید وقت دینے کے لیے بھی ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

ایگزیکٹو آرڈر پر عمل کون روک سکتا ہے
کانگریس اور عدالت دونوں کے پاس ایگزیکٹو آرڈر کو غیر مؤثر بنانے کی طاقت موجود ہے۔ مثال کے طور پر کانگریس نے 1992 میں اس وقت کے صدر جارج ایچ بش کے سائنسی تحقیق کے لیے انسانی جنین کے ٹشوزکے لیے ایک بینک کے قیام کو یہ کہہ کر رد کردیا تھا کہ اس کا کوئی قانونی اثر نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ کانگریس ایگزیکٹو آرڈر پر عمل کے لیے درکار فنڈنگ روک کر یا وفاقی ایجنسیوں کو ایگزیکٹو آرڈر پر عمل نہ کرنے کا کہہ کر اسے غیر مؤثر بنا سکتی ہے۔ عدالت کے ذریعے ایگزیکٹو آرڈر کو غیرمؤثر بنانے کا ایک واقعہ صدر ہیری ٹرومین کے دور میں پیش آیا جب انہوں نے کوریائی جنگ کے دوران ایک اسٹیل مل پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو امریکی سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا کہ صدر کے پاس کانگریس کی منظوری کے بغیر نجی جائداد قبضے میں لینے کا اختیار نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ایگزیکٹو ا رڈر پر عمل ایگزیکٹو ا رڈر کو ایگزیکٹو ا رڈرز کانگریس کی کے لیے

پڑھیں:

امریکا کا دورہ مکمل، پاکستانی سفارتی وفد برطانیہ پہنچ گیا، امن کی اہمیت پر زور

پاکستانی سفارتی وفد امریکا کا دورہ مکمل کر کے برطانیہ پہنچ گیا۔ امریکا میں وفد نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کی اور عالمی راہنماؤں، امریکی کانگریس ارکان سے ملاقاتیں کیں جہاں پاکستان نے کشمیر کے مسئلے اور خطے میں امن کی ضرورت پر زور دیا۔ اسلام ٹائمز۔ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستانی سفارتی وفد امریکا کا دورہ مکمل کر کے برطانیہ پہنچ گیا۔ امریکا میں وفد نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کی اور عالمی راہنماؤں، امریکی کانگریس ارکان سے ملاقاتیں کیں جہاں پاکستان نے کشمیر کے مسئلے اور خطے میں امن کی ضرورت پر زور دیا۔

پاکستانی وفد کے رکن فیصل سبزواری نے لندن میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے اقوام متحدہ میں پاکستان کا مقدمہ پیش کیا اور بھارت کو ایٹمی ممالک کے درمیان کشیدگی کو مزید بڑھانے سے روکنے کی ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے بھارتی جارحیت پر بھی سوالات اٹھائے اور عالمی طاقتوں سے مداخلت کی درخواست کی۔

شیری رحمان اور خرم دستگیر خان نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا، جنہوں نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ بھارت بات چیت کے لیے تیار نہیں۔ بشریٰ انجم بٹ نے بتایا ہے کہ پاکستانی وفد کو امریکا میں اپنے مؤقف پر بھرپور پذیرائی ملی۔

متعلقہ مضامین

  • ترقی کا بیانیہ ، کانگریس رہنما نے مودی کے بیانیے کی دھجیاں اڑا دیں
  • شملہ معاہدہ کی اہمیت و افادیت
  • کشمیر میں امن سے متعلق بھارتی وزیر داخلہ کے دعوے بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہیں، کانگریس
  • سکھر،آفرلیٹرجاری نہ کرنے کیخلاف امیدواروں کا احتجاج
  • مودی نے گزشتہ 11 برسوں میں بھارت کی جمہوریت، معیشت اور سماجی تانے بانے کو تباہ کیا، کانگریس
  • امریکی شہر لاس اینجلس میں مظاہرے اور بدامنی جاری
  • امریکا کا دورہ مکمل، پاکستانی سفارتی وفد برطانیہ پہنچ گیا، امن کی اہمیت پر زور
  • ریاست منی پور کے لوگ مودی کی بے رخی اور غیر حساسیت کی قیمت چکا رہے ہیں، جے رام رمیش
  • کولمبیا کے صدارتی امیدوار انتخابی مہم کے دوران فائرنگ سے شدید زخمی، حالت نازک
  • کولمبیا میں صدارتی امیدوار پر قاتلانہ حملہ، حالت تشویشناک