آئی ایل ٹی 20 میں ڈیزرٹ وائپرز نے شارجہ واریئرز کو 8 وکٹوں سے شکست دے دی
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
آئی ایل ٹی 20 میں ڈیزرٹ وائپرز نے شارجہ واریئرز کو 8 وکٹوں سے شکست دے دی WhatsAppFacebookTwitter 0 26 January, 2025 سب نیوز
شارجہ : شارجہ کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ میں ایلکس ہیلز اور سیم کرن کی عمدہ بیٹنگ کی بدولت ڈیزرٹ وائپرز نے شارجہ واریئرز کو 8 وکٹوں سے شکست دیدی ۔ 152 رنز کے ہدف کے تعاقب میں ہیلز نے 36 گیندوں پر نصف سنچری بنائی جبکہ کرن نے 33 گیندوں پر شاندار نصف سنچری اسکور کی۔ ان دونوں نے وائپرز کو 14.
اس سے قبل ڈیوڈ پین نے 2 وکٹیں حاصل کرکے وائپرز کے لئے سمت متعین کی۔ متحدہ عرب امارات کے خزیمہ تنویر نے مڈل اور لوئر آرڈر میں 4 وکٹیں حاصل کیں جبکہ جیسن رائے نے 38 گیندوں پر 55 رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔
151 رنز کا دفاع کرنے والی ٹیم کے لئے ابتدائی کامیابیاں اہم تھیں اور ایڈم ملن نے پہلے چار اوورزمیں فخر زمان اور ڈین لارنس کو آؤٹ کر کے اپنی ٹیم کے لئے مثالی آغاز کیا۔
تاہم ایلکس ہیلز اور سیم کرن نے ہدف کے تعاقب کا کنٹرول سنبھال لیا۔ ابتدائی طور پر محتاط رہنے والے ہیلز نے 13 ویں اوور میں محمد جواد اللہ کی گیند پر لگاتار 3 چھکے لگا کر 36 گیندوں پر نصف سنچری بنائی۔ ہیلز نے اننگز کا اختتام 7 چوکے اور 5 چھکوں سے کیا۔
سیم کرن نے جلد ہی اس کی پیروی کرتے ہوئے جارحانہ بیٹنگ کی انہوں نے 14 ویں اوور میں ایڈم زمپا کو چھکا اور 2 چوکے لگائے جبکہ ٹم ساؤتھی کے 15 ویں اوور میں 19 رنز بنا کر وائپرز کی پوزیشن مضبوط کی۔ کرن نے 33 گیندوں پر 2 چھکوں اور 5 چوکوں کی مدد سے نصف سنچری مکمل کی جس کی بدولت وائپرز نے آسانی سے 14.5 اوورز میں ہدف حاصل کرلیا۔
پہلی اننگز میں ڈیوڈ پین نے وائپرز کو پہلی برتری دلائی اور نئی گیند کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جانسن چارلس اور ایوشکا فرنینڈو کو پہلے پانچ اوورز میں آؤٹ کر دیا۔
کوہلر کیڈمور نے تیز رفتاری سے بیٹنگ کرتے ہوئے ونندو ہسارنگا کی گیند پر چھکا لگایا۔ تاہم لیگ اسپنر نے اسی اوور میں جوابی کارروائی کرتے ہوئے بلے باز کو 36 گیندوں پر 42 رنز پر آؤٹ کر دیا۔ 10 اووز کے اختتام پر واریئرز کا اسکور 3 وکٹوں کے نقصان پر 75 رنز تھا۔
جیسن رائے نے صرف 35 گیندوں پر اپنی نصف سنچری بنائی۔ محمد عامر نے 17 ویں اوور میں ان کی وکٹ حاصل کی۔
خزیمہ تنویر نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلہ کن اسپیل کے ساتھ مڈل اور لوئر آرڈر کو ختم کردیا۔ انہوں نے ٹم سیفرٹ ، روہن مصطفی، لیوک ووڈ اور ٹم ساؤتھی کو وکٹیں حاصل کیں۔ خزیمہ کو کھیل کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا گیا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: وائپرز نے
پڑھیں:
کراچی بورڈ کا شفاف نتیجہ میرٹ کی فتح، دباؤ کی شکست
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی میٹرک بورڈ کے حالیہ نتائج نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ برسوں سے یہ شکایات زبان زدِ عام تھیں کہ امتحانی نتائج میں شفافیت کی کمی ہے، سفارشیوں کے لیے رعایتیں کی جاتی ہیں، اور پیسوں کے عوض نمبر یا نتائج میں رد و بدل معمول کی بات بن چکی ہے۔ لیکن اس مرتبہ منظر نامہ بالکل مختلف تھا۔ اس تبدیلی کا سہرا چیئرمین بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی، محمد حسین سوہو کے سر جاتا ہے، جو نہ صرف ایک ماہر ِ تعلیم ہیں بلکہ انتظامی امور میں بھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ محمد حسین سوہو صاحب سینئر ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈی جی ایجوکیشن ایف ڈی ای اسلام آباد، ڈائریکٹر NAVTTC، ڈائریکٹر STEVTA اور ریجنل ڈائریکٹر وفاقی محتسب رہ چکے ہیں۔ اس طویل پیشہ ورانہ سفر نے انہیں تعلیم اور امتحانی نظام کے ہر پہلو سے آگاہی بخشی، اور یہی تجربہ ان کے موجودہ کردار میں نمایاں طور پر جھلکتا ہے۔ ان کی زیر نگرانی کراچی بورڈ نے وہ کارنامہ سر انجام دیا ہے جس کی عوام کو برسوں سے آرزو تھی۔ اس بار کے میٹرک کے نتائج میں ایک روپے کی کرپشن کا بھی شائبہ نہیں پایا گیا۔ نہ کوئی سیاسی دباؤ کارگر ہوا، نہ ہی اندرونی سفارشات یا میڈیا کے دباؤ نے نتائج پر اثر ڈالا۔ چیئرمین صاحب نے ہر قسم کے دبائو کو رد کرتے ہوئے حقدار طلبہ کو ان کا جائز مقام دلایا۔ اس کامیابی میں چیئرمین صاحب کے ساتھ ساتھ ڈپٹی کنٹرولر آف ایگزامینشن، جو اس وقت ایکٹنگ کنٹرولر کے فرائض انجام دے رہے تھے، بھی بھرپور تحسین کے مستحق ہیں۔ انہوں نے دیانت داری اور غیر معمولی محنت سے اس سارے عمل کو شفاف بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ چیئرمین کی قیادت اور ڈپٹی کنٹرولر کی عملی نگرانی نے مل کر ایک ایسا نتیجہ ممکن بنایا جو کئی برسوں بعد دیکھنے کو ملا۔
یہی شفافیت اس بات سے جھلکتی ہے کہ نتائج کی تیاری کے دوران بورڈ نے سخت غیرجانبداری اپنائی، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مارکنگ اور رزلٹ کمپائلنگ میں انسانی غلطیوں کے امکانات نہ ہونے کے برابر کر دیے۔ پرچوں کی مارکنگ اور ری چیکنگ کے لیے دوہرا نظام رائج رہا تاکہ انصاف پر کوئی آنچ نہ آئے۔ مارکنگ کرنے والے اساتذہ کی مسلسل نگرانی اور جانچ پڑتال کی گئی اور انہیں پیشگی ورکشاپس کے ذریعے اس بات کی تربیت دی گئی کہ کس طرح ہر پرچے کا جائزہ خالص میرٹ پر لیا جائے۔ نتائج پر اعتراض کرنے والے طلبہ یا والدین کے لیے ایک باقاعدہ شکایتی نظام وضع کیا گیا، جہاں ان کی آواز کو سنجیدگی سے سنا گیا اور بروقت ازالہ کیا گیا۔ اس دوران سیکریسی سیکشن نے پرچوں کے کوڈنگ اور ڈی کوڈنگ کے عمل میں طلبہ کی شناخت کو مکمل طور پر مخفی رکھا تاکہ کسی بھی تعصب کا شائبہ تک نہ ہو۔ اگر کہیں کوئی تکنیکی یا انسانی غلطی سامنے آتی تو فوری اصلاح کا نظام موجود تھا، جو شفافیت کی ضمانت ہے۔ امتحانی مراکز میں نقل کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کیے گئے جس کا براہِ راست اثر نتائج پر پڑا اور محنتی طلبہ کی کامیابی سامنے آئی۔ رزلٹ کارڈز اور مارکس شیٹس کے اجرا میں ڈیجیٹلائزیشن نے نہ صرف بروقت فراہمی کو ممکن بنایا بلکہ جعلسازی کے تمام راستے بھی بند کر دیے۔ کمزور طلبہ کے لیے خصوصی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کا اہتمام کیا گیا تاکہ وہ مایوس نہ ہوں اور آئندہ بہتر کارکردگی دکھا سکیں۔
مزید یہ کہ نتائج کے بعد طلبہ کے مستقبل کی رہنمائی کے لیے بورڈ کی جانب سے کیریئر کونسلنگ کو بھی اہمیت دی گئی، تاکہ کامیاب طلبہ اگلی سطح کی تعلیم کے انتخاب میں درست فیصلے کر سکیں۔ بین الاقوامی تعلیمی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے نہ صرف رزلٹ سازی کی پالیسی اپنائی گئی بلکہ ان اساتذہ اور ممتحنین کو بھی سراہا گیا جنہوں نے ایمانداری اور بہترین کارکردگی دکھائی۔ اس مقصد کے لیے بورڈ کی حکمت عملی یہ ہے کہ شفاف امتحانی عمل کو یقینی بنانے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ خاص طور پر نمایاں بات یہ رہی کہ اورنگی ٹاؤن جیسے علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ نے دوسری پوزیشن حاصل کر کے یہ ثابت کیا کہ قابلیت اور محنت کی بدولت ہر مشکل کو شکست دی جا سکتی ہے۔ کم وسائل رکھنے کے باوجود اس طالبہ کی شاندار کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ شفاف نظام ہمیشہ محنت کرنے والوں کو آگے لے کر آتا ہے۔ اسی طرح دیگر پوزیشن ہولڈرز نے بھی یہ پیغام دیا کہ جب امتحانات میرٹ پر ہوں تو خواب حقیقت میں ڈھل جاتے ہیں۔
یہ سب اقدامات چیئرمین محمد حسین سوہو صاحب اور ایکٹنگ کنٹرولر کی مشترکہ قیادت کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے میڈیا، ادارہ جاتی اور داخلی دباؤ کو یکسر مسترد کر کے ایک ایسا شفاف رزلٹ پیش کیا ہے جو آنے والے برسوں کے لیے ایک معیار قائم کر گیا ہے۔ آج کے اس نتیجے نے بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی کی ساکھ میں اضافہ کیا ہے اور یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ جب قیادت نیک نیت اور پختہ عزم کے ساتھ کام کرے تو ادارے اپنی کھوئی ہوئی عزت دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ محمد حسین سوہو صاحب، ڈپٹی کنٹرولر آف ایگزامینشن اور ان کی ٹیم کی یہ کاوش اس بات کی عملی مثال ہے کہ تعلیم اور امتحانی نظام کو درست کرنے کے لیے نیک نیتی، استقلال اور میرٹ سے جڑا ہوا رویہ سب سے اہم ہے۔ اگر یہی تسلسل قائم رہا تو وہ دن دور نہیں جب کراچی بورڈ نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کا ایک مثالی تعلیمی ادارہ بن کر ابھرے گا۔