اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جنوری 2025ء) اقلیتیں کئی قسم کی ہوتی ہیں، جن میں خاص طور سے مذہبی، لسانی، نسلی اور مہاجر قابلِ ذکر ہیں۔ لوگ روزی اور تحفظ کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے رہے ہیں۔ اقلیتوں کے لیے کسی نئے مُلک میں جا کر آباد ہونا مُشکلات کا باعث رہا ہے۔ کیونکہ آب و ہوا، ثقافتی اِختلافات اور زبان کے نہ جاننے سے اجنبیت کا احساس ہوتا ہے۔
اس لیے اقلیتوں کو نئے معاشرے میں آباد ہونے اور اس کے رسم و رواج کو سمجھنے میں وقت لگتا تھا۔اپنے تحفظ کے لیے یہ علیحدہ آبادیوں میں رہتے تھے اور روزی کے لیے کسی ایک خاص پیشے میں مہارت حاصل کر لیتے تھے تا کہ اُن کی ضرورت معاشرے میں محسوس ہوتی رہے، لیکن اس کے باوجود اکثریت اور اقلیت کے درمیان دُوری رہتی تھی۔
(جاری ہے)
رومی سلطنت میں مسیحی مذہب کی ابتداء ہوئی کیونکہ یہ اقلیت میں ہوتے تھے اس لیے یہ اپنے عقیدے کو ظاہر نہیں کرتے تھے۔
خُفیہ مقامات پر لائن میں عبادت کرتے تھے۔ تبلیغ بھی خاموشی سے کرتے تھے لیکن جب ان کی تعداد میں اضافہ ہوا تو یہ رومی حکومت کی نظروں میں آ گئے۔ حکومت کسی نئے فرقے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔ اس لیے اُس کے عہدیداروں نے مسیحیوں سے بحث کے بعد چاہا کہ وہ اپنے مذہب سے دست بردار ہو جائیں۔ انکار کی صورت میں اُنہیں اذیتیں دی گئیں۔ کلوزیم میں انہیں جنگلی جانوروں سے مروایا گیا۔ لہٰذا اس کے نتیجے میں مسیحی مذہب میں دو تصور اُبھرے۔ ایک ولی کا تصور اور دوسرا شہید کا۔ کہ ان لوگوں نے اپنے مذہب کی خاطر جانیں دیں۔131 عیسوی میں جب بازنطینی سلطنت کے بانی قسطنطین نے مسیحی مذہب قبول کیا تو مسیحی مذہب کو ریاست کی حمایت حاصل ہو گئی اور انہوں نے پیگن اقلیت کے ساتھ وہی رویہ اختیار کیا جو رومیوں نے ان کے ساتھ کیا تھا۔
جب یورپ میں پروٹسٹنٹ ازم آیا تو جن مُلکوں میں کیتھولِک اقلیت میں تھے وہاں ان کے ساتھ پروٹسٹنٹ عقیدے والوں نے بے انتہا مظالم کیے۔ جیسے فرانس میں Saint Bartholomew میں پروٹسٹنٹ اقلیت کا 1572 میں قتلِ عام کیا گیا۔ انگلستان کے کروم ویل نے آئرلینڈ کے کیتھولک مذہب والوں کا قتلِ عام کر کے اُن کی آزادی کو ختم کیا جو 1649 سے لے کر 1653 تک جاری رہا۔
اقلیتوں کا سب سے بڑا المیہ اُس وقت شروع ہوا جب افریقہ سے غلاموں کو امریکی کریبیئن جزائر اور انگلینڈ میں لایا گیا۔سیاہ فام ہونے کی وجہ سے سفید فام لوگوں نے انہیں ایک علیحدہ مخلوق سمجھا اور ان کو انتہائی نچلے طبقے میں شامل کر کے ان کے ساتھ تعصب اور نفرت کی پالیسی اختیار کی گئی۔ امریکہ میں جنوب کی ریاستوں میں یہ کاٹن اور گنے کے کھیتوں میں کام کرتے تھے۔
اِن میں اور سفید فام لوگوں کے درمیان فرق موجود تھا۔ کریبیئن جزائر میں یہ شَکر کی پیداوار میں مدد کرتے تھے۔اپنی محںت کے باوجود انہیں بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا تھا۔جب کریبیئن جزائر سے افریقیوں کی ایک تعداد انگلستان کے شہروں خاص طور سے لیور پول، برسٹل اور نوٹنگن میں آ کر آباد ہوئی تو انگریزوں کی جانب سے افریقیوں کے خلاف سخت مظاہرے ہوئے۔
اس کے نتیجے میں سفید فاموں اور افریقیوں کے درمیان تصادُم ہوا۔ اقلیتیں ایک حد تک مظالم کو برداشت کرتیں ہیں۔ لیکن جب انتہا ہو جائے تو وہ بھی اپنے تحفظ کے لیے لڑتی ہیں۔ نسلی فسادات کی وجہ سے انگلستان کے صنعتی شہروں میں اَمن و اَمان نہیں رہا۔لکھا ہے کہ بیسویں صدی کے شروع میں سکھ کمیونٹی کے کچھ لوگ امریکی ریاست کیلیفورنیا میں آباد ہوئے۔
یہاں ان کے ساتھ سخت تعصب کا برتاؤ کیا گیا۔ بینکوں نے اِنہیں قرض دینے سے انکار کر دیا۔ سفید فام عورتوں نے ان سے شادی کرنے سے انکار کر دیا۔ اس لیے انِہوں نے میکسکن خواتین سے شادیاں کیں۔ ان کی اولاد میں انڈین، میکسکن اور امریکن شناختیں آپس میں مِل گئیں۔ نسلی تعصب کے باوجود انہوں نے محنت و مشقت کر کے اپنا مقام پیدا کیا۔ لیکن نسلی تعصب نے ان کی ذہنی حالت کو بدل ڈالا۔1913 میں اُنہوں نے غدر پارٹی بنائی تا کہ ہندوستان کو برطانیہ سے آزاد کرایا جائے۔ یہ اُردو اور ہندی دونوں زبانوں میں اخبار نکالتے تھے۔ سان فرانسسکو میں انہوں نے ایک ہال بھی تعمیر کرایا تھا۔ ان میں سے بعض پرجوش نوجوانوں نے ہندوستان کا سفر کیا۔ تا کہ وہاں آزادی کی تحریک کو چلایا جائے۔ لیکن برطانوی مخبروں نے ان کے بارے میں ساری اطلاعات برطانوی حکومت کو دے دیں۔
لہٰذا جیسے ہی ہندوستان پہنچے اِنہیں گرفتار کر کے جیلوں میں قید کر دیا گیا اور اُن کی تحریک آگے نہیں بڑھ سکی۔موجودہ دور میں سیاسی تبدیلیوں اور جمہوری اداروں کے قائم ہونے کے باوجود اقلیتیں خود کو غیرمحفوظ سمجھتی ہیں۔ اگرچہ امریکہ کی یہ پالیسی ہے کہ اُن کا معاشرہ میلٹنگ پوٹ ہے، جن میں اکثریت اور اقلیت سب مل کر ایک ہو جاتے ہیں۔
لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ میکسیکو اور لاطینی امریکہ کے مہاجرین جو امریکہ میں آ کر آباد ہوئے ہیں اُن کے ساتھ تعصب بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ افریقی باشندے تمام سیاسی نشیب و فراز کے بعد آج بھی عدم مساوات کا شکار ہیں۔موجودہ دور میں جب ایشیا اور افریقہ کے باشندے یورپی مُلکوں میں جا کر آباد ہوئے تو ان کے اور مقامی باشندوں کے درمیان ابھی بھی کہیں کہیں خلا موجود ہے۔
نسلی تعصب نے یورپی مُلکوں میں مذہبی انتہاپسند سیاسی جماعتوں کو مقبول کر دیا ہے، جس کی وجہ سے اقلیتوں اور اکثریت آبادی میں مِلاپ کے امکانات نظر نہیں آتے ہیں۔اقلیتوں کا یہ المیہ بھارت اور پاکستان کے معاشروں میں موجود ہے۔ یہاں اقلیتیں خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔ فسادات کی صورت میں قتلِ عام بھی ہوتا ہے۔ اگر اقلیتوں کو قوم کا حصہ نہ بنایا جائے تو اس صورت میں قوم کی تشکیل اَدھوری رہتی ہے۔
اقلیتوں کو پورے حقوق دے کر اُن کی ذہانت اور لیاقت سے فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ عام لوگ بنیادی طور پر تحفظ اور اَمن چاہتے ہیں، اور تشدد کسی بھی صورت میں معاشرے کو مستحکم نہیں کرتا۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ان کے ساتھ کے درمیان کے باوجود ن کے ساتھ کرتے تھے سفید فام کر دیا ا نہیں اس لیے کے لیے
پڑھیں:
ملک کی حفاظت کے لیے ہم سب سینہ سپر ہیں، علی محمد خان
اسلام آباد:رہنما تحریک انصاف علی محمد خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے دفاع کے لیے پاکستان کی حفاظت کے لیے ہم سب سینہ سپر ہیں، آج سے نہیں جب سے پاکستان بنا ہے ہندوستان کی نظریں ہمارے ملک پہ ہیں اور اس کا الٹی میٹلی مقصد یہی ہے کہ پاکستان کے حصے بخرے کیے جائیں۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمیں کسی خیال کی جنت میں نہیں رہنا چاہیے، آدھا ملک گنوانے کے بعد ہم نے کرتوت ٹھیک نہیں کیے، ہم نے اپنے ملک کوٹھیک نہیں کیا، اپنے لوگوں کو ساتھ لے کر نہیں چلے لیکن پاکستانی قوم کو سلام ہے کہ جب بھی پاکستان کی سلامتی پر حرف آتا ہے تو ہم سب اکٹھے ہو جاتے ہیں۔
سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا کہ پہلا وار تو بہرحال ہندوستان کی طرف سے آیا اور انہوں نے بڑا ہی کاری وار کیا کیونکہ جو واقعہ وہاں پہ پیش آیا اگر چار جانیں گئی ہوں تو افسوس ہی کرتے ہیں، پاکستان نے بھی کیا لیکن اس پر جس طرح انھوں نے سیاست کی اور اپنے ایک دم سے پانچ منٹ کے اندر اندر ان کے سارے چینل آگ اگلنے لگے پاکستان کے خلاف، اس سے سب کو شک پڑ گیا کہ بھئی یہ کوئی واقعہ ہوا بھی ہے اور کس طرح ہوا ہے؟پھر جب بات نکلی اور کھلی تو پتہ چلا کہ یہ تو ہمیشہ سے ہی فالس فلیگ آپریشنز کرتے آئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ پہلگام والا جو واقعہ ہوا تھا اس کی تو مذمت بالکل سب نے کی ہے، پوری دنیا کرتی ہے جو ٹریرسٹ اٹیک وہاں ہوا ہے لیکن اس کے بعد ہندوستان کی حکومت کی طرف سے جو ردعمل آیا اس کی بھی ہمیں اتنی ہی مذمت کرنی چاہیے کہ ایک ملک کو بغیر کسی ثبوت کہ بغیر سوچے سمجھے آپ نے الزام لگا دیا ہے اور پاکستان جو چاہتا ہے کہ اس خطے میں امن رہے اس پر آپ نے ایسی لغو قسم کی باتیں کہ جو ٹریٹی آپ یک طرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ انڈس واٹر ٹریٹی اس کو آپ ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں وہ سمجھ سے باہر ہے، بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان ملاقات کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ نہروں کے حوالے سندھ کے لوگ بے چینی اور پریشانی میں تھے، اس کو دیکھتے ہوئے ہم نے فیڈرل گورنمنٹ کو اپروچ کیا تھا اور کہا تھا کہ آپ نے سی سی آئی کا اجلاس بلانا ہے۔