UrduPoint:
2025-11-05@03:10:59 GMT

اقلیتوں کا اَلمیہ

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

اقلیتوں کا اَلمیہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جنوری 2025ء) اقلیتیں کئی قسم کی ہوتی ہیں، جن میں خاص طور سے مذہبی، لسانی، نسلی اور مہاجر قابلِ ذکر ہیں۔ لوگ روزی اور تحفظ کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے رہے ہیں۔ اقلیتوں کے لیے کسی نئے مُلک میں جا کر آباد ہونا مُشکلات کا باعث رہا ہے۔ کیونکہ آب و ہوا، ثقافتی اِختلافات اور زبان کے نہ جاننے سے اجنبیت کا احساس ہوتا ہے۔

اس لیے اقلیتوں کو نئے معاشرے میں آباد ہونے اور اس کے رسم و رواج کو سمجھنے میں وقت لگتا تھا۔

اپنے تحفظ کے لیے یہ علیحدہ آبادیوں میں رہتے تھے اور روزی کے لیے کسی ایک خاص پیشے میں مہارت حاصل کر لیتے تھے تا کہ اُن کی ضرورت معاشرے میں محسوس ہوتی رہے، لیکن اس کے باوجود اکثریت اور اقلیت کے درمیان دُوری رہتی تھی۔

(جاری ہے)

رومی سلطنت میں مسیحی مذہب کی ابتداء ہوئی کیونکہ یہ اقلیت میں ہوتے تھے اس لیے یہ اپنے عقیدے کو ظاہر نہیں کرتے تھے۔

خُفیہ مقامات پر لائن میں عبادت کرتے تھے۔ تبلیغ بھی خاموشی سے کرتے تھے لیکن جب ان کی تعداد میں اضافہ ہوا تو یہ رومی حکومت کی نظروں میں آ گئے۔ حکومت کسی نئے فرقے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔ اس لیے اُس کے عہدیداروں نے مسیحیوں سے بحث کے بعد چاہا کہ وہ اپنے مذہب سے دست بردار ہو جائیں۔ انکار کی صورت میں اُنہیں اذیتیں دی گئیں۔ کلوزیم میں انہیں جنگلی جانوروں سے مروایا گیا۔

لہٰذا اس کے نتیجے میں مسیحی مذہب میں دو تصور اُبھرے۔ ایک ولی کا تصور اور دوسرا شہید کا۔ کہ ان لوگوں نے اپنے مذہب کی خاطر جانیں دیں۔

131 عیسوی میں جب بازنطینی سلطنت کے بانی قسطنطین نے مسیحی مذہب قبول کیا تو مسیحی مذہب کو ریاست کی حمایت حاصل ہو گئی اور انہوں نے پیگن اقلیت کے ساتھ وہی رویہ اختیار کیا جو رومیوں نے ان کے ساتھ کیا تھا۔

جب یورپ میں پروٹسٹنٹ ازم آیا تو جن مُلکوں میں کیتھولِک اقلیت میں تھے وہاں ان کے ساتھ پروٹسٹنٹ عقیدے والوں نے بے انتہا مظالم کیے۔ جیسے فرانس میں Saint Bartholomew میں پروٹسٹنٹ اقلیت کا 1572 میں قتلِ عام کیا گیا۔ انگلستان کے کروم ویل نے آئرلینڈ کے کیتھولک مذہب والوں کا قتلِ عام کر کے اُن کی آزادی کو ختم کیا جو 1649 سے لے کر 1653 تک جاری رہا۔

اقلیتوں کا سب سے بڑا المیہ اُس وقت شروع ہوا جب افریقہ سے غلاموں کو امریکی کریبیئن جزائر اور انگلینڈ میں لایا گیا۔سیاہ فام ہونے کی وجہ سے سفید فام لوگوں نے انہیں ایک علیحدہ مخلوق سمجھا اور ان کو انتہائی نچلے طبقے میں شامل کر کے ان کے ساتھ تعصب اور نفرت کی پالیسی اختیار کی گئی۔ امریکہ میں جنوب کی ریاستوں میں یہ کاٹن اور گنے کے کھیتوں میں کام کرتے تھے۔

اِن میں اور سفید فام لوگوں کے درمیان فرق موجود تھا۔ کریبیئن جزائر میں یہ شَکر کی پیداوار میں مدد کرتے تھے۔اپنی محںت کے باوجود انہیں بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا تھا۔

جب کریبیئن جزائر سے افریقیوں کی ایک تعداد انگلستان کے شہروں خاص طور سے لیور پول، برسٹل اور نوٹنگن میں آ کر آباد ہوئی تو انگریزوں کی جانب سے افریقیوں کے خلاف سخت مظاہرے ہوئے۔

اس کے نتیجے میں سفید فاموں اور افریقیوں کے درمیان تصادُم ہوا۔ اقلیتیں ایک حد تک مظالم کو برداشت کرتیں ہیں۔ لیکن جب انتہا ہو جائے تو وہ بھی اپنے تحفظ کے لیے لڑتی ہیں۔ نسلی فسادات کی وجہ سے انگلستان کے صنعتی شہروں میں اَمن و اَمان نہیں رہا۔

لکھا ہے کہ بیسویں صدی کے شروع میں سکھ کمیونٹی کے کچھ لوگ امریکی ریاست کیلیفورنیا میں آباد ہوئے۔

یہاں ان کے ساتھ سخت تعصب کا برتاؤ کیا گیا۔ بینکوں نے اِنہیں قرض دینے سے انکار کر دیا۔ سفید فام عورتوں نے ان سے شادی کرنے سے انکار کر دیا۔ اس لیے انِہوں نے میکسکن خواتین سے شادیاں کیں۔ ان کی اولاد میں انڈین، میکسکن اور امریکن شناختیں آپس میں مِل گئیں۔ نسلی تعصب کے باوجود انہوں نے محنت و مشقت کر کے اپنا مقام پیدا کیا۔ لیکن نسلی تعصب نے ان کی ذہنی حالت کو بدل ڈالا۔

1913 میں اُنہوں نے غدر پارٹی بنائی تا کہ ہندوستان کو برطانیہ سے آزاد کرایا جائے۔ یہ اُردو اور ہندی دونوں زبانوں میں اخبار نکالتے تھے۔ سان فرانسسکو میں انہوں نے ایک ہال بھی تعمیر کرایا تھا۔ ان میں سے بعض پرجوش نوجوانوں نے ہندوستان کا سفر کیا۔ تا کہ وہاں آزادی کی تحریک کو چلایا جائے۔ لیکن برطانوی مخبروں نے ان کے بارے میں ساری اطلاعات برطانوی حکومت کو دے دیں۔

لہٰذا جیسے ہی ہندوستان پہنچے اِنہیں گرفتار کر کے جیلوں میں قید کر دیا گیا اور اُن کی تحریک آگے نہیں بڑھ سکی۔

موجودہ دور میں سیاسی تبدیلیوں اور جمہوری اداروں کے قائم ہونے کے باوجود اقلیتیں خود کو غیرمحفوظ سمجھتی ہیں۔ اگرچہ امریکہ کی یہ پالیسی ہے کہ اُن کا معاشرہ میلٹنگ پوٹ ہے، جن میں اکثریت اور اقلیت سب مل کر ایک ہو جاتے ہیں۔

لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ میکسیکو اور لاطینی امریکہ کے مہاجرین جو امریکہ میں آ کر آباد ہوئے ہیں اُن کے ساتھ تعصب بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ افریقی باشندے تمام سیاسی نشیب و فراز کے بعد آج بھی عدم مساوات کا شکار ہیں۔

موجودہ دور میں جب ایشیا اور افریقہ کے باشندے یورپی مُلکوں میں جا کر آباد ہوئے تو ان کے اور مقامی باشندوں کے درمیان ابھی بھی کہیں کہیں خلا موجود ہے۔

نسلی تعصب نے یورپی مُلکوں میں مذہبی انتہاپسند سیاسی جماعتوں کو مقبول کر دیا ہے، جس کی وجہ سے اقلیتوں اور اکثریت آبادی میں مِلاپ کے امکانات نظر نہیں آتے ہیں۔

اقلیتوں کا یہ المیہ بھارت اور پاکستان کے معاشروں میں موجود ہے۔ یہاں اقلیتیں خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔ فسادات کی صورت میں قتلِ عام بھی ہوتا ہے۔ اگر اقلیتوں کو قوم کا حصہ نہ بنایا جائے تو اس صورت میں قوم کی تشکیل اَدھوری رہتی ہے۔

اقلیتوں کو پورے حقوق دے کر اُن کی ذہانت اور لیاقت سے فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ عام لوگ بنیادی طور پر تحفظ اور اَمن چاہتے ہیں، اور تشدد کسی بھی صورت میں معاشرے کو مستحکم نہیں کرتا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ان کے ساتھ کے درمیان کے باوجود ن کے ساتھ کرتے تھے سفید فام کر دیا ا نہیں اس لیے کے لیے

پڑھیں:

جو کام حکومت نہ کر سکی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-03-8

 

آصف محمود

کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے

ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)

 

آصف محمود

متعلقہ مضامین

  • سوڈان کاالمیہ
  • دکھ روتے ہیں!
  • کبھی کبھار…
  • خود کو بدلنا ہوگا
  • غزہ میں مستقل امن اور تعمیر نو
  • ’’اب تو فرصت ہی نہیں ملتی۔۔۔!‘‘
  • ’تنہا ماں‘۔۔۔ آزمائشوں سے آسانیوں تک
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • علماء کرام کیلئے حکومت کا وظیفہ مسترد،اسلام آباد آنے میں 24 گھنٹے لگیں گے، مولانا فضل الرحمان کی دھمکی