کوئٹہ میں 3روزہ پشتون قومی جرگہ مسائل،تشویشناک اور پشتون حقوق پر مباحثہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
کوئٹہ (نمائندہ جسارت) کوئٹہ میں 3روزہ پشتون قومی جرگے کا انعقاد کیا گیا جس میں سیاسی اور قبائلی عمائدین نے بھرپور شرکت کی، جرگے میں پشتون بیلٹ کے مسائل اور پشتونوں کے حقوق پر بات چیت کی گئی۔ اس جرگے میں تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور جرگے کے سربراہ نواب ایاز جوگیزئی سمیت دیگر اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔جرگے کے مقررین نے پشتون بیلٹ میں جاری مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے جو کہ انتہائی تشویشناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ پشتون وطن میں بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے علاقے کے عوام شدید متاثر ہو ¦ے ہیں۔مقررین نے کہا کہ پشتون علاقوں میں غیر مقامی افراد کو زمینیں الاٹ کی جا رہی ہیں جو مقامی باشندوں کے حقوق کی پامالی کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ پشتون علاقوں میں پشتون مفادات کے خلاف کسی بھی قسم کے
منصوبے کی حمایت نہیں کی جائے گی۔جرگے کے دوران پشتون بیلٹ میں درپیش سماجی، سیاسی اور اقتصادی مسائل پر کھل کر بات کی گئی اور ان مسائل کے حل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
آرٹیکل 370کی منسوخی مودی سرکار کا ناکام اقدام ثابت
حالات غیر مستحکم، مقبوضہ وادی کا کنٹرول مودی سرکار کے ہاتھ سے نکل چکا
مقبوضہ کشمیر جنگی جنون میں مبتلا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے اور آرٹیکل 370 کی منسوخی بھی مودی سرکار کا ایک ناکام اقدام ثابت ہوا ہے ۔بھارتی ٹی وی کے مطابق آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال غیر مستحکم و تشویش ناک ہے اور مقبوضہ وادی کا کنٹرول مودی سرکار کے ہاتھ سے نکل چکا ہے ، جس سے امن کے دعوے بے بنیاد ثابت ہو رہے ہیں۔آرٹیکل370 کی منسوخی سمیت مودی کی تمام یکطرفہ پالیسیوں نے عوامی غصے کو بغاوت کی شکل دے دی ہے ۔یاد رہے کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی پر امت شاہ نے اسے پارلیمنٹ میں تاریخی قدم قرار دیا تھا اور دعوی کیا تھا کہآرٹیکل 370 ہٹانے سے کشمیر میں دہشت گردی ختم ہوگی امن ویکساں حقوق ملیں گے ۔حالات نے ثابت کردیا ہے کہ امت شاہ کے یہ دعوے حقیقت سے کوسوں دور ہیں اور مقبوضہ وادی آج بھی سلگ رہی ہے ۔مودی حکومت نے کشمیری عوام اور قیادت کو نظرانداز کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا تھا۔ محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ اور دیگر رہنماں کو نظر بند کیا، جس کے ردعمل میں احتجاج اور تحریکیں شدت پکڑ گئیں۔مودی کی پالیسیوں کے خلاف جموں و کشمیر اپنی پارٹی جیسی جماعتیں منظر عام پر آئیں۔ اس کے علاوہ بھی کشمیر میں مودی حکومت کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے اور آزادی کی آوازیں مزید بلند ہو رہی ہیں ۔مودی حکومت کے اقدامات سے کشمیر ایک کھلی جیل کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ کرفیو نافذ کرکے انسانی حقوق کی پامالیاں عام بات بن چکی ہے ۔ یہاں تک کہ ہیومن رائٹس واچ نے 2019 کے بعد مقبوضہ کشمیر میں حقوق کی پامالیوں کو دستاویزی شکل دی۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 2020 اور 2021 میں 200 سے زائد شہری سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں فیک انکانٹر میں مارے گئے ۔ ہزاروں کشمیری بشمول سیاسی رہنماں، کارکنوں اور طلبا کو بغیر الزام یا مقدمے کے گرفتار کیا گیا۔انسانی حقوق تنظیم کے مطابق اگست 2019 سے فروری 2020 تک 7 ماہ کی طویل انٹرنیٹ کی بندش سے زندگی مفلوج ہیں اور پابندیاں اب بھی جاری ہیں۔ فوجی کارروائیوں کے دوران تشدد اور ریپ کے واقعات میں اضافہ ہو چکا ہے جب کہ میڈیا پر پابندیاں ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں مودی کیجبر کیخلاف جاری مزاحمت، آزادی کے لیے کشمیری عوام کے عزم کی عکاسی ہے ۔