جوڈیشل کمیشن پر مسلسل اصرار
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
تحریک انصاف نے جوڈیشل کمیشن نہ بننے کی صورت میں مذاکرات میں مزید شرکت سے انکار کر دیا ہے جب کہ حکومتی کمیٹی کے سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے قیام کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا جب کہ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ہمیں جوڈیشل کمیشن نہیں بلکہ پی ٹی آئی کی حرکتوں پر اعتراض ہے کیونکہ پی ٹی آئی ناقابل اعتماد ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق حکومت پی ٹی آئی مذاکرات کی کامیابی کے خواہاں ہیں جب کہ پی ٹی آئی وزیر دفاع خواجہ آصف کے مذاکرات کے سلسلے میں دیے گئے بعض بیانات پر تحفظات کا اظہار کر چکی ہے اور لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دو خواجاؤں میں بھی مذاکرات پر کچھ تحفظات ہیں ایک مذاکرات کے بارے میں ناامید اور دوسرا مذاکرات کی کامیابی کا خواہاں ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کے لیے سیاسی حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں وہ بھی مذاکرات کی کامیابی نہیں چاہتے اور وقت گزار رہے ہیں۔
بانی پی ٹی آئی پہلے بیس جنوری کو نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حلف اٹھانے کا انتظار کر رہے تھے، بانی اور پی ٹی آئی نہ جانے کیوں پرامید تھے کہ نئے صدر حلف اٹھاتے ہی پاکستان کو بانی کی رہائی کا کہیں گے مگر حلف برداری میں تو بانی کیا پاکستان کا بھی ذکر نہیں ہوا۔ امریکا کے نئے صدر چار سال بعد اقتدار میں آئے ہیں اور بانی کی طرح غصے اور انتقام میں بھرے بیٹھے ہیں اور ابھی تو وہ اپنے معاملات سنوارنے اور اپنے حامیوں کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنوں کو معافیاں دے رہے ہیں اور اپنے معاملات پر کنٹرول کے بعد انھیں بانی پی ٹی آئی کا خیال آتا ہے یا نہیں ، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
پی ٹی آئی 26 نومبر پر بھی جوڈیشل کمیشن کے قیام پر بضد ہے اور وہ 9 مئی 2023 کے واقعات کی تحقیقات کا بھی مسلسل مطالبہ کرتی آئی ہے جس پر حکومت کا کہنا ہے کہ9 مئی کے معاملات پر تو ملزموں کو جرم ثابت ہونے پر سزائیں اور بعض ملزموں کو رہا کیا جا چکا ہے اس لیے وقت گزر چکا اب کمیشن بن ہی نہیں سکتا۔
فوجی عدالتوں کا کیس ابھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت بھی ہے جس کے فیصلے پر ہی فوجی عدالتوں سے ملنے والی سزاؤں کا انحصار ہے کہ فوجی عدالتوں پر کیا فیصلہ آتا ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی اور ان کی پارٹی پہلے ہی سول عدالتوں کے چیف جسٹس صاحبان کے متعلق اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی ہے اور حال ہی میں پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل جاوید کہہ چکے ہیں کہ عدالتی فیصلوں کو تسلیم نہیں کریں گے۔ پی ٹی آئی کے بانی اور رہنماؤں کے بیانات سے لگتا ہے کہ انھیں عدالتوں پر اعتماد نہیں اور وہ صرف اپنی مرضی کے پسندیدہ فیصلوں کو ہی تسلیم کرے گی اور اگر اعلیٰ عدالتوں سے اس کے خلاف فیصلہ آیا تو وہ اسے ناپسندیدہ فیصلہ قرار دے گی۔
9 مئی پر جوڈیشل کمیشن کے قیام سے حکومت بھی انکار کر چکی ہے جس کے بعد 26 نومبر پر جوڈیشل کمیشن کا قیام اب مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے جس سے حکومت نے انکار نہیں کیا اور کمیشن کے قیام پر پی ٹی آئی مسلسل اصرار کر رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ جوڈیشل کمیشن ہر حال میں بننا چاہیے ورنہ مزید مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
جوڈیشل کمیشن پر پی ٹی آئی کا بے حد اصرار اور حکومت کی طرف سے اب تک رضامندی ظاہر نہ کرنے سے لگتا ہے کہ اس سلسلے میں حکومتی موقف کمزور اور پی ٹی آئی کا مضبوط ہے۔ حکومتی حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ عدلیہ میں مبینہ طور پر پی ٹی کے حامی موجود ہیں جن سے حکومت کو خدشات ہیں اور جوڈیشل کمیشن کا قیام حکومت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم پر بھی ججوں میں اختلافات ہیں اس لیے ممکن ہے کہ حکومت کمیشن کا معاملہ ان ججز کے ہاتھ میں دینا نہیں چاہتی اور جوڈیشل کمیشن پر فیصلہ نہیں کر پا رہی۔
حکومت کا کہنا تھا کہ 26 نومبر کے معاملے کے اس کے پاس مکمل ثبوت بھی ہیں اور اس دن تاریکی میں فائرنگ سے زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ پی ٹی آئی کے رہنما ان مبینہ ہلاکتوں پر مختلف بیانات دے چکے ہیں اور نہ اب تک پی ٹی آئی مبینہ فائرنگ سے متاثر ہونے والوں کی تفصیلات اور ثبوت حکومت کو فراہم کر رہی ہے اور صرف منفی پروپیگنڈا کرتی آ رہی ہے اور حکومت کو بدنام کر رہی ہے۔ اگر حکومت کے پاس اپنی بے گناہی کے ثبوت ہیں تو اسے جوڈیشل کمیشن بنا کر یہ مسئلہ حل کرنا چاہیے تاکہ پی ٹی آئی کا مطالبہ پورا ہو سکے اور حقائق منظر عام پر آ سکیں اور مذاکرات بھی متاثر نہ ہوں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کمیشن کے قیام جوڈیشل کمیشن پی ٹی آئی کا کہ پی ٹی آئی پی ٹی آئی کے مذاکرات کی کا کہنا ہیں اور رہی ہے ہے اور
پڑھیں:
سینیٹ میں مخبر کے تحفظ اور نگرانی کیلئے کمیشن کے قیام کا بل منظور
—فائل فوٹومخبر کے تحفظ اور نگرانی کے لیے کمیشن کے قیام کا بل پاکستان کے ایوانِ بالا سینیٹ نے منظور کر لیا۔
سینیٹ کے اجلاس میں منظور کیے گئے بل میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی فرد، ادارہ یا ایجنسی کمیشن کے سامنے معلومات پیش کرسکتا ہے، مخبر ڈکلیئریشن دے گا کہ اس کی معلومات درست ہیں، معلومات کو دستاویزات اور مواد کے ساتھ تحریر کیا جائے گا۔
بل کے مطابق اگر مخبر اپنی شناخت ظاہر نہیں کرتا اور جعلی شناخت دے تو کمیشن اس کی معلومات پر ایکشن نہیں لے گا، اگر مخبر کی معلومات پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کے خلاف ہو تو وہ نہیں لی جائے گی۔
منظور کیے گئے بل کے مطابق اگر معلومات پاکستان کے سیکیورٹی، اسٹریٹجک اور معاشی مفاد کے خلاف ہو تو وہ معلومات نہیں لی جائے گی، مخبر سے غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ تعلقات سے متعلق معلومات نہیں لی جائے گی، وہ معلومات بھی نہیں لی جائے گی جو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ممنوع ہو، مخبر سے جرم پر اکسانے والی معلومات بھی نہیں لی جائے گی۔
بل میں کہا گیا ہے کہ وزراء اور سیکریٹریز کے ریکارڈ سے متعلق کابینہ اور کابینہ کمیٹیوں کی معلومات نہیں لی جائے گی، قانون، عدالت کی جانب سے ممنوع معلومات اور عدالت، پارلیمنٹ، اسمبلیوں کا استحقاق مجروح کرنے والی معلومات بھی نہیں لی جائے گی، تجارتی راز سے متعلق مخبر کی معلومات نہیں لی جائے گی۔
مخبر کے تحفظ اور نگرانی کے کمیشن کے قیام کا بل سینیٹ میں پیش کر دیا گیا۔
بل کے مطابق اس شخص سے معلومات نہیں لی جائے گی جو اس کے پاس بطور امانت ہو، وہ معلومات نہیں لی جائے گی جو کسی غیر ملک نے خفیہ طور پر دی ہو، وہ معلومات نہیں لی جائے گی جو کسی انکوائری، تحقیقات یا مجرم کے خلاف قانونی کارروائی میں رکاوٹ ڈالے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ وہ معلومات نہیں لی جائے گی جو کسی شخص کی زندگی کو خطرے میں ڈالے، وہ معلومات نہیں لی جائے گی جو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اعتماد میں دی ہو، وہ معلومات نہیں لی جائے گی جو عوامی مفاد میں نہیں اور کسی نجی زندگی میں مداخلت ڈالے۔
سینیٹ میں منظور کیے گئے بل کے مطابق کمیشن کسی بھی شخص کو طلب کر کے اس سے حلف پر معائنہ کرے گا، کمیشن ریکارڈ، شواہد طلب کرے گا، گواہوں اور دستاویزات کا معائنہ کرے گا، پبلک ریکارڈ بھی طلب کر سکے گا، کمیشن کے مجاز افسر کے پاس مکمل معاونت حاصل کرنے کا اختیار ہوگا۔
بل کے مطابق کمیشن کا مجاز افسر حکومتوں، اتھارٹی، بینک، مالی ادارے سے دستاویزات اور معلومات حاصل کر سکے گا، متعلقہ افسر 60 دن کے اندر معلومات کی تصدیق کرے گا، اگر مخبر کی معلومات کی مزید تحقیقات و تفتیش درکار ہو جس سے جرم کا فوجداری مقدمہ چلے تو کمیشن وہ متعلقہ اتھارٹی کو بھجوائے گا۔
بل میں کہا گیا ہے کہ کمیشن یقینی بنائے گا کہ مخبر کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا، اگر کوئی مخبر نقصان میں ہو تو وہ کمیشن کے سامنے درخواست دے گا جو متعلقہ اتھارٹی کے سپرد کی جائے گی، مخبر کی معلومات درست ہوئی تو اسے حاصل شدہ رقم کا 20 فیصد اور تعریفی سند دی جائے گی، زیادہ مخبر ہونے پر 20 فیصد رقم برابر تقسیم ہو گی۔
سینیٹ میں منظور کردہ بل کے مطابق غلط معلومات دینے والے کو 2 سال قید اور 2 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا، اس جرمانے کو اس شخص کو دیا جائے گا جس کے بارے میں مخبر نے غلط معلومات دی، مخبر کی شناخت کو اتھارٹی کے سامنے ظاہر نہیں کیا جائے گا، جو مخبر کی شناخت ظاہر کرے گا اسے 5 لاکھ روپے جرمانہ اور 2 سال قید ہو گی۔