عوامی بھوک اور عوامی نمائندوں کی تنخواہیں
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
کیا قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ایک بھی ورکنگ کلاس کانمائندہ موجود ہے ؟ تو اس کا جواب ہے جی ہرگز نہیں کیا اِن نمائندگان کو کوئی معاشی مسئلہ درپیش ہے ؟ سیدھا سا جواب ہے کہ اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا ۔ کیا انہیں موجود ملکی معیشت کو دیکھتے ہوئے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا مطالبہ کرنا چاہیے ؟ محب وطن انسان اِس کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ اِس وقت حکومت نہیں ریاست بچانے کے نعرے پر کام کرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے ۔پھرپاکستان تحریک انصاف کے ممبران قومی اسمبلی نے جب تنخواہ 10 لاکھ کرنے کا مطالبہ کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے کیوں ہو گئے ؟ حکومت کو یہ تو سوچنا چاہیے تھا کہ جن کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے اُن کاکرپشن میں سزا یافتہ قائدتو پاکستان کو سری لنکا بنتے دیکھنے کا خواہش مند ہے مگر نپولین نے ٹھیک کہا تھا کہ مشترکہ خطرہ بدترین دشمنوں کو بھی یکجا کردیتا ہے ۔ پہلے عمران نیازی مشترکہ خطرہ تھا جس نے بدترین نظریاتی مخالفین کو اکھٹا کردیا اور اب مشترکہ مفاد تھا سو کسی نے اِس پر احتجاج کرنا تودور کی بات اعتراض بھی نہیں کیا اور عوام کو درپیش مسائل کی بات بھی نہیں کی ۔ وہ تو خدا بھلا کرے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز کا جنہوں نے معاملہ بڑھنے نہیں دیا اور 10 لاکھ سے شروع ہونے والا مطالبہ 5 لاکھ 19ہزار میں کرا دیا اور تنخواہوں کے مطالبے کے ساتھ بھی پٹھان کے قالین والا حساب ہو گیا ۔اس سے پہلے صوبائی اسمبلیوں پر بھی یہ نوازشات ہو چکی ہیں ۔ 76 ہزار روپے لینے والے ایم پی اے کو 4 لاکھ روپے بغیر مطالبے کے دینا شروع کردئیے گئے ۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے گھروں کا کرایہ ساڑھے تین لاکھ ٗ جوڈیشل الائونس 10 لاکھ کردیا گیا جو پہلے بالترتیب 64 ہزار اور 4 لاکھ28 ہزار ہوتا تھا ۔ ایف بی آر آفیسران کو بھی ٹرانسفارمیشن پلان کے تحت ریٹنگ اور ریوارڈ سسٹم کو شروع کرکے نئی گاڑیاں ٗ تنخواہوں میں اضافہ اور اضافی الائونس کی نوید دی گئی تھی ۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی پولیس افسران کو بھی نقد انعام کی دوڑ میں شامل کیا گیا ہے تاکہ اُن کی بہترین کارکردگی سامنے آ سکے ۔ بندہ خدا ! کوئی پاکستانی کسی کو ایم ۔ این ۔ اے بننے پر مجبور نہیں کرتا یہ لوگ ’’ خدمت کے جذبے ‘‘ سے سرشار بلندو بالا دعویٰ کرکے اِ ن مقدس مقامات تک رسائی کرتے ہیں اور پھر ہمیں یہ خدمات اربوں روپے میں پڑتی ہیں ۔کسی اعلیٰ ریاستی ملازم کو بھی سی ایس ایس کرنے پر مجبور نہیں کیا جاتا اوراُس کے علم میں ہوتا ہے کہ وہ کیا بننے جا رہا ہے اور وہاں کی سہولتیں اور مراعات کیا ہیں۔ لیکن اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھانے پر انعام ٗ سرٹیفکیٹ یا میڈل تو ہو سکتا ہے لیکن نقد رقم انعام نہیں لالچ ہوتی ہے جوایک نسل سے شروع ہو کر پھر نسل در نسل ٗ نسلوں میں سرایت کرجاتی ہے ۔ خوشی اس بات کی ہے کہ اِن انعامات سے عوام کو بھی محروم نہیں رکھا گیا کیونکہ کچے کا چھوٹا ڈاکو پکڑانے پر 25لاکھ اور بڑے قاتل اور ڈاکو کو گرفتار کرانے پر 50 لاکھ ۔ سو مجھے امید ہے کہ وہ نو جوان جو اچھے مستقبل کی تلاش میں دنیا کے گہرے سمندروں میں ڈوبتے ہیں ٗ برفانی پہاڑوں اور تنگ تاریک رستوں کو تاراج کرتے ہیں اُن کیلئے کچے کے ڈاکو تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا ۔
عزیز پاکستانیو! قومی اسمبلی میں صرف عبد العلیم خان ایک ایسا ایم ۔این ۔ اے ٗ ہے جس کے پاس تین وزارتیں ہیں لیکن وہ سرکار سے کسی قسم کی کوئی تنخواہ یا مراعات نہیں لیتا ٗ وہ سرکاری گاڑی استعمال نہیں کرتا اور جو تین گاڑیاں انہیں استعمال کیلئے دی گئیں انہوں نے شکریہ کے ساتھ واپس کردیں ۔ وہ اپنے عملے کا کسی قسم کاخرچ سرکار پر نہیں ڈالتے ۔ اُن کے دفاتر میں ہونے والی تمام میٹنگز میں چائے کا گھونٹ بھی سرکاری خرچ سے نہیں ہوتا ۔ یہاں دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ عبد العلیم خان بیرونی ممالک سے آئے وزراء اور معز ز مہمانوں کی خاطر داری اپنی جیب سے کرتے ہیں ۔ اُن کی مواصلات کی وزارت انہیں پاکستان بھر میں لئے پھرتی ہے جس میں اُن کی صلاحیتوں سے لے کر وسائل تک سب کچھ اُن کا اپنا ہوتا ہے ۔نجکاری کے حوالے سے بھی انہیں اکثر پاکستان سے باہر جانا پڑتا ہے لیکن عبد العلیم خان تمام فضائی اور بیرون ملک رہنے کے اپنے اور اپنے عملے کے تمام اخرجات کا ایک پیسہ حکومت سے نہیں لیتے ۔عبد العلیم خان کی فلاحی خدمات کے وسیع دائر ے کے نزدیک سے بھی کوئی وزیر مشیر نہیں گزرتا ٗ اِس کیلئے اُن کا الگ سے وسیع نیٹ ورک کام کرتا ہے جو ماہانہ کروڑوں روپے خرچ کر کے عوامی ضرورتوں کو پورا کر رہا ہے ۔ جنہوں نے پاکستان کو کچھ دینا ہواُن کی سوچ کا دائرہ قومی خزانے کی وسائل کے گرد نہیں گھومتا ۔ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی وہ شخص جب سٹیج پر کھڑا ہو کر گفتگو کررہا ہوتا ہے تو اپنا گریبان کھول کر سب سامنے رکھ دیتا ہے ۔عبد العلیم خان کو دیکھ کر اللہ جانتا ہے کہ ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ انسان کی نیت ہی وہ حقیقی قوت ہے جو انسان سے اچھا یا بُرا کام کراتی ہے۔ عبد العلیم خان نے ثابت کیا کہ خدمت کرنے کیلئے انسان کے اندر پاکستانیت ٗ اسلامیت اور انسانیت ہونی چاہیے ورنہ ایم این اے اور ایم پی اے تو لوگ حادثاتی طور پر بھی بن جاتے ہیں۔ ہمارے لوگوں کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ وہ مشہور اوربدنام کے فرق کو سمجھ نہیں پاتے اگر یہ فرق انہیں معلوم ہوتا تو کبھی اداروں پرحملہ کرنے والوں ٗ پندرہ سال کے اقتدار کی سازش کرنے والوں ٗ سائفر کا ڈرامہ کرنے والوں ٗ ایبسلیوٹلی ناٹ کا راگ الاپنے والوں ٗ دنیا بھر کے جنسی سکینڈل میں ملوث رہنے والوں ٗ ریاست مدینہ کے نام پر مدینے والے سے جھوٹ بولنے والوں ٗ اپنے انتخابی منشور پر عمل نہ کرنے والوں کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے ۔ یہ عبد العلیم خان ہی تھا جس نے غیرت کی بنیاد پر عمران نیازی کو گڈبائے کہا اور اپنا نیا سفر شروع کردیا ۔وہ چھوٹے موٹے وہ کام جن کیلئے ایم این اے اور ایم پی اے مدتوں سرکار کی مدد کا انتظار کرتے رہتے ہیں ٗمیں نے بارہا عبد العلیم خان کو اپنی جیب سے کراتے دیکھا ہے ۔ آج پاکستان کا عام آدمی دکھی ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے حکمران انعام و اکرام کے ذریعے ’’مغلِ اعظم ‘‘ بنے حکومت چلا رہے ہیں۔ ان تنخواہوں کو ایک سال اور پھر چار سال سے ضرب دے کر دیکھیں تو ہوش اڑ جاتے ہیں ۔ ایک طرف ہم اُن بزرگوں کی پنشن کو مختصر کر رہے ہیں جنہوں نے طویل عرصہ ریاست کو اپنی خدمات دی ہیں اور اب انہیںریاست کی مدد کی ضرورت ہے لیکن ریاست پہلے سے مراعات یافتہ طبقے کو ہی نواز تی جا رہی ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: عبد العلیم خان قومی اسمبلی کرنے والوں بھی نہیں نہیں کی ہے لیکن نہیں ہو ہے کہ ا کو بھی
پڑھیں:
امریکا چین کے ساتھ محصولات کے معاہدے پر بات چیت کر رہا ہے، ٹرمپ
ٹائم میگزین کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ چین کے ساتھ محصولات کا معاہدہ کرنے کے لیے بات چیت کر رہی ہے، اور چینی صدر شی جن پنگ نے انہیں فون کیا ہے۔
نجی اخبار میں شائع برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق ریپبلکن صدر نے جمعے کے روز شائع ہونے والے ٹائم میگزین کو انٹرویو میں یہ نہیں بتایا کہ صدر شی جن پنگ نے کب فون کیا اور دونوں رہنماؤں نے کیا بات چیت کی، ٹرمپ نے کہا کہ وہ شی کو فون نہیں کریں گے۔
شی جن پنگ نے فون کیا ہے، اور مجھے نہیں لگتا کہ یہ ان کی طرف سے کمزوری کی علامت ہے۔
چین کی وزارت خارجہ نے فوری طور پر ٹرمپ کے بیان پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
واشنگٹن میں بیجنگ کے سفارت خانے کی جانب سے اس بیان کا اعادہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ٹرمپ کے تازہ ترین ریمارکس شائع ہونے سے قبل واشنگٹن پر زور دیا گیا تھا کہ وہ دو طرفہ محصولاتی مذاکرات کے بارے میں ’عوام کو گمراہ کرنا‘ بند کرے۔
ٹرمپ نے انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے 200 ٹیرف معاہدے کیے ہیں، اور توقع ہے کہ مذاکرات تقریباً 3 یا 4 ہفتوں میں مکمل ہوجائیں گے، جس میں امریکا کو ایک ڈپارٹمنٹ اسٹور سے تشبیہ دی گئی ہے، جہاں وہ قیمت مقرر کرتے ہیں، انہوں نے اس طرح کے کسی بھی معاہدے کی تفصیلات نہیں دیں۔
کریمیا روس کے پاس رہے گا
ٹرمپ نے یوکرین میں روس کی جنگ سے لے کر ایران اور سعودی عرب کے ساتھ مشرق وسطیٰ تک عالمی رہنماؤں کے ساتھ مختلف معاہدے کرنے کے اپنے منصوبوں کا بھی ذکر کیا۔
ٹرمپ لڑائی کا فوری خاتمہ چاہتے ہیں اور انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایک معاہدے کے قریب ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی اپنی ڈیڈ لائن ہے، جس کی تفصیلات انہوں نے نہیں بتائیں، جب کہ ان کے خصوصی ایلچی نے جمعے کے روز پیوٹن سے ملاقات کی۔
جمعے کے روز شائع ہونے والے اپنے تبصرے میں ٹرمپ نے ٹائم کو بتایا کہ کریمیا، جسے روس نے 2014 میں یوکرین سے ضبط کیا تھا، ماسکو کے ہاتھوں میں رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ کریمیا روس کے پاس رہے گا، اور (یوکرین کے صدر ولادیمیر) زیلنسکی اس بات کو سمجھتے ہیں، اور ہر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ ایک طویل عرصے سے ان کے ساتھ رہا ہے. ٹرمپ کے آنے سے بہت پہلے سے یہ ان کے ساتھ رہا ہے۔
سعودی عرب ’ابراہام معاہدے‘ میں شامل ہوگا
مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ نے پیشگوئی کی تھی کہ سعودی عرب ’ابراہام معاہدے‘ میں شامل ہو جائے گا، یہ معاہدے ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے پہلے دور حکومت میں اسرائیل اور کچھ خلیجی ممالک کے درمیان کرائے تھے۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں سعودی عرب ابراہام معاہدے پر عمل کرے گا، اور ایسا ہی ہوگا۔
ایران کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ٹرمپ نے کہا کہ اگر ایران کے جوہری پروگرام پر بات چیت کے نتیجے میں کوئی نیا معاہدہ نہیں ہوتا، تو امریکا ایران پر حملے کی قیادت کرے گا، تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ معاہدہ طے پا سکتا ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ سپریم لیڈر علی خامنہ ای یا صدر مسعود پیزکیان سے ملاقات کے لیے تیار ہیں، ٹرمپ نے جواب دیا کہ بالکل، وہ اگلے ماہ سعودی عرب اور خطے کا دورہ کریں گے۔
امریکا میں مقدمات
ٹرمپ، جنہوں نے انتخابی مہم کے دوران اپنے عہدے کی مدت کو ’انتقام‘ کے طور پر استعمال کرنے کا وعدہ کیا تھا، انہوں نے قانونی فرموں، غیر ملکی طالب علموں اور سابق امریکی عہدیداروں کو نشانہ بنانے کے لیے مقامی سطح پر صدارتی اختیارات کے استعمال کا بھی دفاع کیا۔
انہوں نے ٹائم کو بتایا کہ مجھے کچھ صحیح کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ میرے پاس بہت ساری قانونی کمپنیاں ہیں، جو مجھے بہت پیسہ دیتی ہیں۔
انہوں نے اسٹوڈنٹ ویزا کی منسوخی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ احتجاج کر سکتے ہیں، لیکن وہ اسکولوں کو تباہ نہیں کر سکتے، جیسا کہ انہوں نے کولمبیا اور دیگر کے ساتھ کیا تھا۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ امریکی محکمہ انصاف کو ٹفٹس یونیورسٹی کے ایک طالب علم کو عسکریت پسند گروپ حماس سے منسلک کرنے کے حوالے سے کسی ثبوت کا انکشاف کرنے کی ہدایت کریں گے، ٹرمپ نے کہا کہ وہ اس خاص معاملے سے آگاہ نہیں ہیں لیکن وہ اس پر غور کریں گے۔
ترک شہری رومیسا اوزترک نے کہا ہے کہ امریکی امیگریشن حکام نے انہیں فلسطین کی حمایت کی بنیاد پر غیر قانونی طور پر گرفتار کیا، جس میں ٹفٹس کے اسٹوڈنٹس اخبار میں ایک مضمون لکھنا بھی شامل ہے۔
Post Views: 1