Nai Baat:
2025-07-26@13:44:26 GMT

عوامی بھوک اور عوامی نمائندوں کی تنخواہیں

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

عوامی بھوک اور عوامی نمائندوں کی تنخواہیں

کیا قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ایک بھی ورکنگ کلاس کانمائندہ موجود ہے ؟ تو اس کا جواب ہے جی ہرگز نہیں کیا اِن نمائندگان کو کوئی معاشی مسئلہ درپیش ہے ؟ سیدھا سا جواب ہے کہ اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا ۔ کیا انہیں موجود ملکی معیشت کو دیکھتے ہوئے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا مطالبہ کرنا چاہیے ؟ محب وطن انسان اِس کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ اِس وقت حکومت نہیں ریاست بچانے کے نعرے پر کام کرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے ۔پھرپاکستان تحریک انصاف کے ممبران قومی اسمبلی نے جب تنخواہ 10 لاکھ کرنے کا مطالبہ کیا تو دیکھتے ہی دیکھتے محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے کیوں ہو گئے ؟ حکومت کو یہ تو سوچنا چاہیے تھا کہ جن کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے اُن کاکرپشن میں سزا یافتہ قائدتو پاکستان کو سری لنکا بنتے دیکھنے کا خواہش مند ہے مگر نپولین نے ٹھیک کہا تھا کہ مشترکہ خطرہ بدترین دشمنوں کو بھی یکجا کردیتا ہے ۔ پہلے عمران نیازی مشترکہ خطرہ تھا جس نے بدترین نظریاتی مخالفین کو اکھٹا کردیا اور اب مشترکہ مفاد تھا سو کسی نے اِس پر احتجاج کرنا تودور کی بات اعتراض بھی نہیں کیا اور عوام کو درپیش مسائل کی بات بھی نہیں کی ۔ وہ تو خدا بھلا کرے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز کا جنہوں نے معاملہ بڑھنے نہیں دیا اور 10 لاکھ سے شروع ہونے والا مطالبہ 5 لاکھ 19ہزار میں کرا دیا اور تنخواہوں کے مطالبے کے ساتھ بھی پٹھان کے قالین والا حساب ہو گیا ۔اس سے پہلے صوبائی اسمبلیوں پر بھی یہ نوازشات ہو چکی ہیں ۔ 76 ہزار روپے لینے والے ایم پی اے کو 4 لاکھ روپے بغیر مطالبے کے دینا شروع کردئیے گئے ۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے گھروں کا کرایہ ساڑھے تین لاکھ ٗ جوڈیشل الائونس 10 لاکھ کردیا گیا جو پہلے بالترتیب 64 ہزار اور 4 لاکھ28 ہزار ہوتا تھا ۔ ایف بی آر آفیسران کو بھی ٹرانسفارمیشن پلان کے تحت ریٹنگ اور ریوارڈ سسٹم کو شروع کرکے نئی گاڑیاں ٗ تنخواہوں میں اضافہ اور اضافی الائونس کی نوید دی گئی تھی ۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی پولیس افسران کو بھی نقد انعام کی دوڑ میں شامل کیا گیا ہے تاکہ اُن کی بہترین کارکردگی سامنے آ سکے ۔ بندہ خدا ! کوئی پاکستانی کسی کو ایم ۔ این ۔ اے بننے پر مجبور نہیں کرتا یہ لوگ ’’ خدمت کے جذبے ‘‘ سے سرشار بلندو بالا دعویٰ کرکے اِ ن مقدس مقامات تک رسائی کرتے ہیں اور پھر ہمیں یہ خدمات اربوں روپے میں پڑتی ہیں ۔کسی اعلیٰ ریاستی ملازم کو بھی سی ایس ایس کرنے پر مجبور نہیں کیا جاتا اوراُس کے علم میں ہوتا ہے کہ وہ کیا بننے جا رہا ہے اور وہاں کی سہولتیں اور مراعات کیا ہیں۔ لیکن اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھانے پر انعام ٗ سرٹیفکیٹ یا میڈل تو ہو سکتا ہے لیکن نقد رقم انعام نہیں لالچ ہوتی ہے جوایک نسل سے شروع ہو کر پھر نسل در نسل ٗ نسلوں میں سرایت کرجاتی ہے ۔ خوشی اس بات کی ہے کہ اِن انعامات سے عوام کو بھی محروم نہیں رکھا گیا کیونکہ کچے کا چھوٹا ڈاکو پکڑانے پر 25لاکھ اور بڑے قاتل اور ڈاکو کو گرفتار کرانے پر 50 لاکھ ۔ سو مجھے امید ہے کہ وہ نو جوان جو اچھے مستقبل کی تلاش میں دنیا کے گہرے سمندروں میں ڈوبتے ہیں ٗ برفانی پہاڑوں اور تنگ تاریک رستوں کو تاراج کرتے ہیں اُن کیلئے کچے کے ڈاکو تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا ۔

عزیز پاکستانیو! قومی اسمبلی میں صرف عبد العلیم خان ایک ایسا ایم ۔این ۔ اے ٗ ہے جس کے پاس تین وزارتیں ہیں لیکن وہ سرکار سے کسی قسم کی کوئی تنخواہ یا مراعات نہیں لیتا ٗ وہ سرکاری گاڑی استعمال نہیں کرتا اور جو تین گاڑیاں انہیں استعمال کیلئے دی گئیں انہوں نے شکریہ کے ساتھ واپس کردیں ۔ وہ اپنے عملے کا کسی قسم کاخرچ سرکار پر نہیں ڈالتے ۔ اُن کے دفاتر میں ہونے والی تمام میٹنگز میں چائے کا گھونٹ بھی سرکاری خرچ سے نہیں ہوتا ۔ یہاں دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ عبد العلیم خان بیرونی ممالک سے آئے وزراء اور معز ز مہمانوں کی خاطر داری اپنی جیب سے کرتے ہیں ۔ اُن کی مواصلات کی وزارت انہیں پاکستان بھر میں لئے پھرتی ہے جس میں اُن کی صلاحیتوں سے لے کر وسائل تک سب کچھ اُن کا اپنا ہوتا ہے ۔نجکاری کے حوالے سے بھی انہیں اکثر پاکستان سے باہر جانا پڑتا ہے لیکن عبد العلیم خان تمام فضائی اور بیرون ملک رہنے کے اپنے اور اپنے عملے کے تمام اخرجات کا ایک پیسہ حکومت سے نہیں لیتے ۔عبد العلیم خان کی فلاحی خدمات کے وسیع دائر ے کے نزدیک سے بھی کوئی وزیر مشیر نہیں گزرتا ٗ اِس کیلئے اُن کا الگ سے وسیع نیٹ ورک کام کرتا ہے جو ماہانہ کروڑوں روپے خرچ کر کے عوامی ضرورتوں کو پورا کر رہا ہے ۔ جنہوں نے پاکستان کو کچھ دینا ہواُن کی سوچ کا دائرہ قومی خزانے کی وسائل کے گرد نہیں گھومتا ۔ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی وہ شخص جب سٹیج پر کھڑا ہو کر گفتگو کررہا ہوتا ہے تو اپنا گریبان کھول کر سب سامنے رکھ دیتا ہے ۔عبد العلیم خان کو دیکھ کر اللہ جانتا ہے کہ ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ انسان کی نیت ہی وہ حقیقی قوت ہے جو انسان سے اچھا یا بُرا کام کراتی ہے۔ عبد العلیم خان نے ثابت کیا کہ خدمت کرنے کیلئے انسان کے اندر پاکستانیت ٗ اسلامیت اور انسانیت ہونی چاہیے ورنہ ایم این اے اور ایم پی اے تو لوگ حادثاتی طور پر بھی بن جاتے ہیں۔ ہمارے لوگوں کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ وہ مشہور اوربدنام کے فرق کو سمجھ نہیں پاتے اگر یہ فرق انہیں معلوم ہوتا تو کبھی اداروں پرحملہ کرنے والوں ٗ پندرہ سال کے اقتدار کی سازش کرنے والوں ٗ سائفر کا ڈرامہ کرنے والوں ٗ ایبسلیوٹلی ناٹ کا راگ الاپنے والوں ٗ دنیا بھر کے جنسی سکینڈل میں ملوث رہنے والوں ٗ ریاست مدینہ کے نام پر مدینے والے سے جھوٹ بولنے والوں ٗ اپنے انتخابی منشور پر عمل نہ کرنے والوں کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے ۔ یہ عبد العلیم خان ہی تھا جس نے غیرت کی بنیاد پر عمران نیازی کو گڈبائے کہا اور اپنا نیا سفر شروع کردیا ۔وہ چھوٹے موٹے وہ کام جن کیلئے ایم این اے اور ایم پی اے مدتوں سرکار کی مدد کا انتظار کرتے رہتے ہیں ٗمیں نے بارہا عبد العلیم خان کو اپنی جیب سے کراتے دیکھا ہے ۔ آج پاکستان کا عام آدمی دکھی ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے حکمران انعام و اکرام کے ذریعے ’’مغلِ اعظم ‘‘ بنے حکومت چلا رہے ہیں۔ ان تنخواہوں کو ایک سال اور پھر چار سال سے ضرب دے کر دیکھیں تو ہوش اڑ جاتے ہیں ۔ ایک طرف ہم اُن بزرگوں کی پنشن کو مختصر کر رہے ہیں جنہوں نے طویل عرصہ ریاست کو اپنی خدمات دی ہیں اور اب انہیںریاست کی مدد کی ضرورت ہے لیکن ریاست پہلے سے مراعات یافتہ طبقے کو ہی نواز تی جا رہی ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: عبد العلیم خان قومی اسمبلی کرنے والوں بھی نہیں نہیں کی ہے لیکن نہیں ہو ہے کہ ا کو بھی

پڑھیں:

سرینگر میں ٹریبونل کی عوامی ایکشن کمیٹی پر پابندی معاملے کی سماعت یکم اگست سے ہوگی

ٹریبونل کے رجسٹرار کیجانب سے جاری نوٹس میں عوام سے کہا گیا ہے کہ اگر وہ اس پابندی کے حق یا مخالفت میں کوئی شہادت یا مواد پیش کرنا چاہتے ہوں تو وہ 29 جولائی کی دوپہر تک حلف نامہ جمع کرائیں۔ اسلام ٹائمز۔ دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس سچن دتہ کی سربراہی میں غیر قانونی سرگرمیاں (روکتھام) سے متعلق ٹریبونل یکم اور 2 اگست کو سرینگر کے شیر کشمیر انٹرنیشنل کانفرنس سینٹر میں عوامی ایکشن کمیٹی کو غیر قانونی تنظیم قرار دئے جانے کے حکومتی فیصلے کا جائزہ لے گا۔ یہ کارروائی "یو اے پی اے 1967" کے تحت انجام دی جا رہی ہے، جس کے تحت حکومت کسی تنظیم کو ملک کی خودمختاری و سالمیت کے لئے خطرہ قرار دے کر پابندی عائد کر سکتی ہے۔ ٹریبونل کے رجسٹرار ڈاکٹر سُمیدھ کمار سیٹھی کی جانب سے جاری نوٹس میں عوام سے کہا گیا ہے کہ اگر وہ اس پابندی کے حق یا مخالفت میں کوئی شہادت یا مواد پیش کرنا چاہتے ہوں تو وہ 29 جولائی 2025ء کی دوپہر 2 بجے تک حلف نامہ جمع کرائیں۔ نوٹس میں واضح کیا گیا ہے کہ پیش کردہ افراد پر جرح بھی ہوسکتی ہے اور یہ عوامی شمولیت یو اے پی اے کے تحت ٹریبونل کے قانونی دائرہ کار کا اہم حصہ ہے۔

یاد رہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کو مارچ 2025ء میں بھارتی حکومت نے اطلاع نمبر S.O.1115(E) کے تحت کالعدم (تنظیم) قرار دیا تھا، جو بعد میں 3 اپریل کو گیزٹ آف انڈیا میں بھی شائع ہوا۔ عوامی ایکشن کمیٹی 1960ء کی دہائی میں مرحوم میرواعظ کشمیر مولوی محمد فاروق نے قائم کی تھی اور اب یہ ان کے فرزند اور موجودہ میرواعظ کشمیر مولوی عمر فاروق کے زیر سربراہی تھی۔ مولوی عمر فاروق آزادی پسند تنظیم کل جماعتی حریت کانفرنس (م) کے بھی چیئرمین ہیں۔ ٹریبونل کی حتمی سفارشات طے کریں گی کہ آیا حکومتی پابندی برقرار رہے گی یا نہیں۔ واضح رہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے مارچ میں ہی عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر اتحاد المسلمین پر پابندی عائد کردی تھی جس کی سربراہی مولانا مسرور عباس انصاری کررہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ: بھوک سے اموات اور اسرائیلی حملوں سے تباہی کا سلسلہ جاری
  • سرینگر میں ٹریبونل کی عوامی ایکشن کمیٹی پر پابندی معاملے کی سماعت یکم اگست سے ہوگی
  • غزہ میں شدید غذائی بحران: بچے بھوک سے مرنے لگے، لوگ چلتی پھرتی لاشیں بن گئے
  • ایکسچینج کمپنیوں کے نمائندوں کی میجر جنرل فیصل نصیر سے ملاقات، ڈالر کی بڑھتی قدر پر گفتگوکی گئی، بلومبرگ کا رپورٹ میں دعویٰ 
  • سندھ حکومت کا یومِ آزادی تقریبات بھرپور اور تاریخی انداز میں منانے کا فیصلہ
  • غزہ میں اب صحافی بھی بھوک سے مرنے لگے ہیں، عالمی نشریاتی ادارے اسرائیل پر برس پڑے
  • اپوزیشن اتحاد نے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کیا ہے: محمود خان اچکزئی
  • پشاور میں پی ٹی آئی کی آل پارٹیز کانفرنس؛ تمام جماعتوں نے بائیکاٹ کر دیا
  • تین اہم سیاسی جماعتوں کا خیبرپختونخوا حکومت کی اے پی سی میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
  • انفارمیشن کمیشن نے شہریوں کو معلومات فراہم نہ کرنے پر متعدد افسران کو شوکاز نوٹس جاری کر دیئے