بیجنگ(نیوز ڈیسک)ٹیکنالوجی کے شعبے میں ان دنوں چین کی ایک کمپنی کے بنائے گئے ’ڈیپ سیک‘ نامی چیٹ بوٹ کی دھوم مچی ہے جس نے اپنی لانچنگ کے پہلے 10 دنوں میں ہی امریکا سمیت دنیا کے 50 سے زائد ممالک میں سب سے زیادہ ڈاون لوڈ کی جانے والی ایپ بن گئی ہے۔

مگر ڈیپ سیک کے بانی کون ہے اور کیسے انہوں نے چیٹ جی پی ٹی جیسے بڑے چیٹ بوٹس کا متبادل ماڈل تیار کیا؟

ڈیپ سیک کے بانی لیانگ وین فینگ ایک چینی انٹرپرینیور اور تاجر ہیں۔ وہ ایک انویسٹمنٹ گروپ ’ہائی فلائیر‘ کے شریک بانی ہیں اور ’ڈیپ سیک‘ کے بانی اور چیف ایگزیکٹو افسر ہیں۔ لیانگ وین فینگ 1985 میں چین کے ژانگ جیانگ شہر میں پیدا ہوئے۔

لیانگ وین فینگ کے والد ایک پرائمری اسکول ٹیچر تھے۔ انھوں نے جیجیانگ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ 2007 میں الیکٹرانک انفارمیشن میں بیچلر آف انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے اس کے بعد 2010 میں انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن میں ماسٹر آف انجینئرنگ کی ڈگری بھی لی۔

گریجویشن کے بعد لیانگ وین فینگ شینگ ڈو شہر میں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں منتقل ہوگئے اور مصنوعی ذہانت کے مختلف شعبوں میں ممکنہ استعمال پر کام کرنے لگے۔ متعدد ناکامیوں کے بعد وہ مصونعی ذہانت یعنی AI کے مالیات کے شعبے میں استعمال میں کامیاب ہوگئے۔

2013 میں انہوں نے AI کا مالیات کے شعبے کوانٹی ٹیٹیو ٹریڈنگ میں استعمال کرتے ہوئے ایک کمپنی کی بنیاد رکھی مگر ان کے کیرئر میں ایک اہم سنگ میل ہائی فلائیر نامی کمپنی کا قیام تھا جس کی بنیاد انہوں نے 2016 میں رکھی۔ یہ کمپنی ریاضی اور مصنوعی ذہانت کو سرمایہ کاری اور مالیات کے شعبے میں بروئے کار لاتی ہے۔

لیانگ وین فینگ نے 2023 میں ڈیپ سیک کی بنیاد رکھی۔ یہ لارج لینگویج ماڈل (ایل ایل ایم) پر کام کرنے والی ایک کمپنی تھی۔ اس کا مقصد چین کا چیٹ جی پی ٹی کے طرز کا اپنا لینگویج ماڈل تیار کرنا تھا۔ اس کا پہلا ورژن ڈیپ سیک کوڈر تھا جو مصنوعی ذہانت کے ذریعے کوڈنگ کرتا ہے۔ 2024 میں ڈیپ سیک نے مصنوعی ذہانت کے شعبے میں اپنی موجودگی کا احساس دلانا شروع کیا۔

ڈیپ سیک نے 20 جنوری کو اپنا چیٹ بوٹ لانچ کیا جس نے آتے ہیں مصوعی ذہانت کے شعبے میں تہلکہ مچا دیا ہے۔

پچھلے ہفتے، اوپن اے آئی دیگر فرموں کے ایک گروپ میں شامل ہوا جنہوں نے امریکہ میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس انفراسٹرکچر کی تعمیر میں 500 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا تھا۔

وائٹ ہاؤس واپس آنے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ابتدائی اعلانات میں سے ایک میں اسے ’تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا آرٹیفیشل انٹیلیجنس انفرا اسٹرکچر پروجیکٹ قرار دیا جو امریکا میں ’ٹیکنالوجی کے مستقبل‘ کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
مزیدپڑھیں:’شکر ہے فلم انڈسٹری ڈوب گئی ورنہ یہ سب دیکھنا پڑتا‘

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت کے شعبے میں ذہانت کے انہوں نے ڈیپ سیک کے بانی کے بعد

پڑھیں:

اے آئی کا خوف بڑھنے لگا: ٹیکنالوجی کمپنیوں کی زیرزمین پناہ گاہوں پر سرمایہ کاری

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی نے جہاں دنیا کو نئی ٹیکنالوجی کے امکانات دکھائے ہیں، وہیں اس کے ممکنہ خطرات نے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مالکان کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق فیس بک کے بانی مارک زکربرگ سمیت کئی ارب پتی شخصیات اب ایسی جائیدادیں خریدنے میں مصروف ہیں جن میں ہنگامی حالات کے دوران پناہ لینے کے لیے زیرِ زمین بنکرز یا محفوظ کمپاؤنڈز تعمیر کیے جا رہے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق زکربرگ امریکی ریاست ہوائی میں اپنے 1400 ایکڑ رقبے پر مشتمل کمپاؤنڈ کی تعمیر کر رہے ہیں جس میں ایک ایسی پناہ گاہ بھی شامل ہے جو خوراک اور بجلی کے نظام کے لحاظ سے مکمل خودکفیل ہوگی۔ کمپاؤنڈ کے گرد 6 فٹ اونچی دیوار کھڑی کی گئی ہے اور مقامی رہائشی اس منصوبے کو  زکربرگ بنکر کے نام سے پکارنے لگے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق زکربرگ نے کیلیفورنیا میں بھی مزید 11 جائیدادیں خریدی ہیں جن میں 7000 مربع فٹ زیرِ زمین جگہ بھی شامل ہے۔ ان کے علاوہ دیگر ٹیکنالوجی مالکان جیسے لنکڈ اِن کے شریک بانی ریڈ ہیفمن بھی نیوزی لینڈ میں ایک ایسا گھر بنانے کی تیاری کر چکے ہیں جسے عالمی تباہی کی صورت میں محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات اس بڑھتے ہوئے خوف کی علامت ہیں کہ کہیں مصنوعی ذہانت، ماحولیاتی تبدیلی یا عالمی تنازعات کسی بڑی تباہی کا سبب نہ بن جائیں۔ کچھ ماہرین نے تو اسے  ڈیجیٹل دور کی نئی بقا کی دوڑ قرار دیا ہے۔

مصنوعی ذہانت کے حوالے سے سب سے زیادہ تشویش اس وقت پیدا ہوئی جب اوپن اے آئی کے چیف سائنسدان ایلیا ستھسیکور نے اپنے ساتھیوں سے ایک ملاقات میں کہا کہ کمپنی آرٹیفیشل جنرل انٹیلی جنس (AGI) کی تخلیق کے قریب پہنچ چکی ہے ۔ یعنی وہ مرحلہ جب مشین انسانی ذہانت کے مساوی یا اس سے آگے جا سکتی ہے۔  کمپنی کو چاہیے کہ اے جی آئی کی ریلیز سے پہلے ہی اہم افراد کے لیے زیرِ زمین پناہ گاہیں تیار کر لے۔

اسی خدشے کا اظہار اوپن اے آئی کے سربراہ سیم آلٹ مین بھی کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اے جی آئی کی آمد  لوگوں کے اندازوں سے کہیں پہلے ممکن ہے، شاید 2026 تک۔

دوسری جانب بعض ماہرین کے مطابق یہ تبدیلی اگلے 5 سے 10 سال میں دنیا کے معاشی، سائنسی اور سماجی ڈھانچے کو مکمل طور پر بدل سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہیوی ٹریفک اسلام آباد میں ماحولیاتی آلودگی پھیلانے کا سبب، شہریوں کی صحت کو سنگین خطرات لاحق
  • اسلام آباد : بھاری گاڑیاں فضائی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئیں
  • چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور
  • مصنوعی ذہانت
  • پاکستان اور امریکا کے درمیان معدنیات کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • پاکستانی کسانوں کا جرمن کمپنیوں کیخلاف مقدمے کا اعلان
  • دنیا کی پہلی مصنوعی ذہانت والی نیوز اینکر متعارف، ویڈیو وائرل
  • اے آئی کا خوف بڑھنے لگا: ٹیکنالوجی کمپنیوں کی زیرزمین پناہ گاہوں پر سرمایہ کاری
  • پاکستان میں کار بنانے والی نجی کمپنی کے خلاف مسابقتی کمیشن کی انکوائری درست قرار
  • قومی ائیرلائن کے پرسیشن انجینیئرنگ شعبے کو پاک فضائیہ کے ذیلی ادارے کے حوالے کرنے کی منظوری دیدی گئی