اسرائیل اور حماس کے درمیان دوسرے مرحلے کے مذاکرات کا آغاز
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
GAZA:
اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے پہلے مرحلے کے بعد غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے سمجھوتے کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات شروع ہو گئے ہیں۔
العربیہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی میڈیا نے بتایا کہ حماس نے زخمیوں کو علاج کے لیے باہر بھیجنے اور اسرائیلی حملوں کے دوران غزہ کی پٹی چھوڑ جانے والے فلسطینیوں کی واپسی کے لیے اگلے چند روزمیں رفح کی راہداری کھولنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
حماس کے رہنما سامی ابوزہری نے اس حوالے سے بتایا کہ ثالث ممالک نے دونوں فریقین کے اقدامات کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے تاکہ غزہ جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ شروع کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی کا مستقبل صرف فلسطینیوں سے جڑا ہوا ہے اور اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے پاس صرف ایک راستہ ہے کہ وہ اس معاہدے کی تکمیل تک کاربند رہے۔
حماس رہنما کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں انتظامی حوالے سے کوئی خلا پیدا نہیں ہوا ہے اور فلسطینی عوام کی حمایت یافتہ حکومت کی تشکیل کا خیرمقدم کیا جائے گا۔
اسرائیل سے معاہدے کے تحت پہلے مرحلے میں فلسطینیوں کی اپنی سرزمین واپسی کے حوالے سے حماس نے بتایا کہ چند روز میں 3 لاکھ افراد بے گھر فلسطینیوں شمالی غزہ میں اپنے گھروں میں منتقل ہوچکے ہیں۔
غزہ میں حکومت کے انفارمیشن بیورو کے سربراہ نے آگاہ کیا کہ جنگ زدہ غزہ پٹی میں واپس آنے والے 90 فیصد فلسطینی اپنے گھروں سے محروم ہوچکے ہیں۔
خیال رہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ ہفتے مصر، قطر اور امریکا کی ثالثی میں جنگ بندی ہوئی تھی اور معاہدے کے تحت قیدیوں کا تبادلہ ہوگا، معاہدے کے بعد دو مرتبہ قیدیوں کا تبادلہ ہوا ہے۔
حماس نے پہلی دفعہ 3 خواتین اور دوسری مرتبہ 4 اسرائیلی فوجی خواتین اہلکاروں کو رہا کردیا تھا، جس کے جواب میں اسرائیل نے سیکڑوں فلسطینیوں کو آزاد کردیا تھا۔
واضح رہے کہ دونوں فریقین کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مطابق اس کے تین مراحل ہیں، جس میں جنگ بندی، غزہ کے شہری علاقوں سے اسرائیل کی فوج کی دست برداری اور قیدیوں کا تبادلہ شامل ہے۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کا پہلا مرحلہ 6 ہفتوں پر مشتمل ہوگا، جس میں حماس سے 33 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرے گا جبکہ اسرائیل ایک ہزار 900 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل حملے کے دوران 251 افراد کو گرفتار کرلیا تھا اور ایک ہزار 210 اسرائیلی ہلاک ہوگئے تھے، ان قیدیوں میں 34 جنگ کے دوران اسرائیل کے حملوں میں مارے گئے تھے اور چند کو قیدیوں کے تبادلے کے نتیجے میں رہائی ملی تھی۔
اس وقت حماس کی قید میں 91 اسرائیلی قید ہیں جبکہ اسرائیل کی جیلوں میں ہزاروں فلسطینی انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندہ ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل نے غزہ میں ایک سال سے زائد عرصے تک بمباری کے دوران 47 ہزار 283 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کردیا، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے اور 200 سے زائد صحافی بھی شامل ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کے کے دوران غزہ کی
پڑھیں:
نیتن یاہو نے فلسطینی قیدیوں کو پھانسی دینے کے بل کی حمایت کردی
اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک ایسے متنازع بل کی حمایت کردی ہے جس کے ذریعے فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کی اجازت دی جائے گی۔ یہ انکشاف اسرائیل کے کوآرڈینیٹر برائے یرغمال اور لاپتا افراد گال ہیرش نے پیر کے روز کیا۔
یہ بل کنیسٹ میں بدھ کو پہلی مرتبہ پیش کیا جائے گا اور اسے انتہائی دائیں بازو کی جماعت یہودی پاور نے جمع کرایا ہے، جس کی قیادت قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گویر کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جنگ بندی کی خلاف ورزی: نیتن یاہو کے حکم کے بعد اسرائیلی فوج نے غزہ پر دوبارہ بمباری شروع کردی
مجوزہ قانون کے متن میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص جو نسل پرستی، نفرت یا ریاست اسرائیل کو نقصان پہنچانے کی نیت سے کسی اسرائیلی شہری کی موت کا سبب بنے، اسے سزائے موت دی جائے گی۔ اسرائیلی پارلیمان میں کسی بھی بل کو قانون بننے کے لیے تین مراحل کی منظوری درکار ہوتی ہے۔
گال ہیرش نے بتایا کہ وہ ماضی میں اس قانون کے مخالف تھے کیونکہ اس سے غزہ میں موجود زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا تھا، لیکن اب انہوں نے اپنی مخالفت واپس لے لی ہے۔
کنیسٹ کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے بھی بل کو پیش کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ بن گویر پہلے بھی متعدد بار فلسطینی قیدیوں کو پھانسی دینے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی ویڈیو کیوں لیک کی؟ اسرائیل نے فوجی افسر کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا
اکتوبر میں حماس نے ایک جنگ بندی معاہدے کے تحت 20 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا تھا۔ دوسری جانب اسرائیلی اور فلسطینی انسانی حقوق تنظیموں کے مطابق اس وقت 10 ہزار سے زائد فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، اور انہیں بھوک، تشدد اور طبی سہولیات کی کمی کا سامنا ہے۔ متعدد قیدی دوران حراست ہلاک ہوچکے ہیں۔
حقوقِ انسانی گروہوں کا کہنا ہے کہ ایتامار بن گویر کے دور میں قیدیوں کے حالات مزید خراب ہوئے ہیں، ملاقاتوں پر پابندی، کھانے میں کمی اور غسل کے محدود اوقات جیسے اقدامات معمول بن چکے ہیں۔
یہ بل اگر منظور ہوجاتا ہے تو یہ اسرائیل کے عدالتی اور انسانی حقوق کے نظام میں ایک بڑی تبدیلی تصور کی جائے گی، جبکہ عالمی سطح پر اس کی شدید مخالفت متوقع ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اسرائیلی وزیراعظم پھانسی غزہ فلسطینی قیدی قانون سازی