Express News:
2025-11-03@05:54:48 GMT

ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز عالمی تناظر میں

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارت کے پہلے دن 37 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے جن میں ملکی اور بین الاقوامی سیاست پرگہرے اثر ڈالنے والے فیصلے شامل تھے۔ ان میں کچھ فیصلے ایسے تھے جو نہ صرف امریکا کے عوام کی زندگی کو فوری طور پر متاثر کرتے ہیں بلکہ دنیا بھر میں امریکی پالیسی کے نئے رخ کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ فیصلے ایک طرف امریکا کے داخلی معاملات کو ازسرنو ترتیب دینے کی کوشش تھے اور دوسری طرف بین الاقوامی تعلقات میں امریکی کردارکو تبدیل کرنے کا عزم ان ایگزیکٹو آرڈرز میں سے پانچ اہم ترین فیصلے درج ذیل ہیں، جن کے اثرات کا تفصیلی جائزہ ضروری ہے۔

پیرس معاہدے سے علیحدگی

 ٹرمپ کے پیرس کلائمیٹ ایگریمنٹ سے دستبرداری کے فیصلے نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ یہ معاہدہ عالمی حدت کو کم کرنے اور ماحولیات کی حفاظت کے لیے ایک اہم قدم تھا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ امریکی معیشت پر غیر ضروری بوجھ ڈال رہا ہے اور اس سے امریکی صنعتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

ان کے مطابق یہ امریکی عوام کے مفاد میں نہیں کہ ان کے وسائل بین الاقوامی ماحولیات کے تحفظ کے لیے استعمال ہوں۔ لیکن اس فیصلے کے منفی اثرات زیادہ واضح ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے تمام ممالک کو مل کرکام کرنا ضروری ہے۔ امریکا کی علیحدگی نے نہ صرف اس معاہدے کو کمزورکردیا بلکہ دیگر ممالک کے لیے بھی ایک منفی مثال قائم کی۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق امریکا جیسے بڑے ملک کی غیر موجودگی سے دنیا کے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔

6 جنوری 2021 کے واقعات میں شامل افراد کے لیے عام معافی۔

ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر حملے میں ملوث افراد کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔ یہ فیصلہ ان کے سیاسی حامیوں کے لیے ایک بڑا اشارہ تھا کہ وہ اپنے رہنما کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق یہ افراد محب وطن تھے جو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے لڑ رہے تھے اور ان کے خلاف کارروائی غیر منصفانہ تھی، لیکن اس اقدام نے امریکا کے آئینی اور جمہوری اقدار پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ اس سے قانون کی حکمرانی کمزور ہوئی اور یہ پیغام گیا کہ سیاسی حمایت کی بنیاد پر قانون شکنی کو معاف کیا جا سکتا ہے۔ امریکا کے اندرونی سیاسی ماحول میں اس فیصلے نے تقسیم کو مزید گہرا کیا اور جمہوری نظام پر اعتماد کو نقصان پہنچایا۔

عالمی ادارہ صحت (WHO) سے علیحدگی کا فیصلہ

COVID -19 کی وبا کے دوران ایک اہم موڑ ثابت ہوا کیونکہ اس سے عالمی صحت کے مسائل پر امریکا کی شمولیت ختم ہوگئی۔ ٹرمپ نے WHO پر الزام لگایا کہ یہ ادارہ چین کی طرف داری کر رہا ہے اور غیر جانبداری کے بجائے مخصوص مفادات کی حمایت کر رہا ہے۔ ان کے مطابق امریکا WHO کو بہت زیادہ مالی امداد فراہم کر رہا تھا لیکن اس کے بدلے میں امریکا کو وہ فوائد یا تعاون نہیں مل رہے تھے جو اسے ملنا چاہیے تھا۔ اس بنیاد پر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکا اس ادارے سے علیحدگی اختیارکرے گا اور اپنے مالی وسائل کو دیگر اہم مقاصد کے لیے استعمال کرے گا۔

اس فیصلے کے حق میں دلیل یہ دی گئی کہ امریکا کے عوام کے ٹیکس کا پیسہ صرف ان ہی کے مفاد میں استعمال ہونا چاہیے، لیکن عالمی سطح پر یہ فیصلہ ایک دھچکا تھا۔ دنیا کو ایک ایسے وقت میں عالمی صحت کے نظام کی مضبوطی کی ضرورت تھی جب وبا نے لاکھوں جانیں لے لی تھیں۔ امریکا کی علیحدگی نے بین الاقوامی تعاون کو کمزورکیا اور عالمی صحت کے مسائل کے حل کو مشکل بنا دیا۔

سرحدی سیکیورٹی اور دیوارکی تعمیر

ٹرمپ نے غیر قانونی تارکین وطن کو روکنے کے لیے سرحدی دیوار کی تعمیر اور سخت پالیسیوں کا اعلان کیا۔ ان کے مطابق یہ اقدام ملکی سلامتی کو مضبوط کرنے جرائم کو کم کرنے اور امریکی عوام کے لیے ملازمتوں کے مواقعے کو تحفظ دینے کے لیے ضروری تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ دیوار امریکی سرحدوں کو محفوظ بنائے گی اور غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کو روکے گی۔ لیکن اس اقدام کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ غیر انسانی اور نسل پرستانہ ہے۔ دیوار کی تعمیر سے نہ صرف امریکا کی بین الاقوامی ساکھ متاثر ہوئی بلکہ لاطینی امریکا کے ممالک کے ساتھ تعلقات بھی خراب ہوئے۔ اس کے علاوہ اس دیوار کی تعمیر پر ہونے والے اخراجات نے امریکی معیشت پر اضافی بوجھ ڈال دیا۔

ڈی ای آئی Diversity Equity and Inclusion پروگراموں کا خاتمہ

ٹرمپ کے ان پروگراموں کو ختم کرنے کے فیصلے نے امریکا میں سماجی انصاف کے لیے کی جانے والی کوششوں کو دھچکہ دیا۔ ان پروگراموں کا مقصد سماجی مساوات کو فروغ دینا اور اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کرنا تھا۔ ٹرمپ کے مطابق یہ پروگرام غیر ضروری تھے اور امریکی اداروں میں غیر ضروری تقسیم پیدا کر رہے تھے۔

لیکن اس فیصلے نے اقلیتوں کے لیے مواقع کو کم کر دیا اور سماجی تقسیم کو مزید گہرا کر دیا۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں مساوات اور شمولیت کی بات کی جا رہی ہے امریکا کا یہ فیصلہ عالمی سطح پر منفی پیغام کا باعث بنا۔ اس اقدام سے نہ صرف اقلیتی برادریوں کو نقصان پہنچا بلکہ امریکی معاشرے میں نسلی کشیدگی بھی بڑھ گئی۔

یہ پانچ اہم فیصلے ٹرمپ کی صدارت کے پہلے دن کے ایجنڈے کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ فیصلے امریکی عوام کے مخصوص حلقوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں جیسے کہ معیشت پر بوجھ کم کرنے یا قومی سلامتی کو ترجیح دینے کی کوشش۔ لیکن ان کے نقصانات زیادہ وسیع اورگہرے ہیں جو امریکا کے اندر اور دنیا بھر میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

ہم یہ خواہش کرتے ہیں کہ دنیا میں امن قائم ہو اور تمام ممالک انصاف شفافیت اور تعاون کے اصولوں پر عمل کریں۔ ایسے فیصلے جو انسانی حقوق مساوات اور عالمی ماحولیات پر منفی اثر ڈالیں انھیں احتیاط سے نظر ثانی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ایک بہتر مستقبل بنایا جا سکے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی کے مطابق یہ امریکا کی امریکا کے کرتے ہیں فیصلے نے اس فیصلے یہ فیصلہ کی تعمیر کو کم کر لیکن اس ٹرمپ کے عوام کے کے لیے تھا کہ رہا ہے

پڑھیں:

عراق کے حساس انتخابات کا جائزہ، اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں

اسلام ٹائمز: عراق کے پارلیمانی انتخابات یقیناً ایک نیا موقع ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قومی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں تو یہ انتخابات استحکام اور ترقی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر ماضی کی طرح اقتدار کی رسہ کشی نے نظام کو پھر سے مفلوج کر دیا، تو یہ انتخابات بھی عراق کی تاریخ میں ایک کھویا ہوا موقع بن کر رہ جائیں گے۔ تحریر: سید انجم رضا

عراق مشرقِ وسطیٰ کا وہ ملک ہے، جو اپنے تاریخی ورثے، مذہبی مقامات اور جغرافیائی اہمیت کے باعث ہمیشہ عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ سے لے کر جدید دور تک، یہ خطہ تہذیبی اور روحانی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر اہلِ تشیع کے لیے عراق ایک مقدس سرزمین ہے، جہاں نجفِ اشرف، کربلا، کاظمین اور سامرہ جیسے روحانی مراکز واقع ہیں۔

داعش کے خلاف عراقی عوام کی جدوجہد
گذشتہ دہائی میں عراق کو "داعش" جیسے دہشت گرد گروہ کے فتنے کا سامنا رہا۔ اس دوران عراقی عوام نے بے مثال قربانیاں دے کر اپنی زمین کو دہشت گردی کے چنگل سے آزاد کرایا۔ اس جنگ نے نہ صرف عراق کی داخلی مزاحمت کو مستحکم کیا بلکہ خطے میں امن و استحکام کے لیے ایک نئی مثال بھی قائم کی۔ "الحشد الشعبی" (عوامی مزاحمتی فورسز) کی شمولیت اور پارلیمان کی طرف سے انہیں باضابطہ طور پر ریاستی ڈھانچے میں شامل کرنا عراقی خودمختاری کی ایک اہم پیش رفت قرار دی جاتی ہے۔

مقاومت کا نظریہ اور خطے کی سیاست
عراق میں مزاحمت کا نظریہ محض عسکری نہیں بلکہ فکری و سیاسی پہلو رکھتا ہے۔ یہ تصور خطے میں غیر ملکی مداخلت، خاص طور پر امریکی اثر و نفوذ کے ردِعمل کے طور پر سامنے آیا۔ صدام ملعون کے سقوط کے بعد اگرچہ امریکہ نے عراق میں اپنی موجودگی برقرار رکھی، مگر عوامی سطح پر مزاحمتی سوچ نے ہمیشہ بیرونی تسلط کو چیلنج کیا۔ جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی کمانڈر کی بغداد کے ہوائی اڈے پر شہادت نے عراقی خود مختاری کے مسئلے کو مزید اجاگر کیا اور عوامی مزاحمت کو نیا جوش بخشا۔

غزہ و فلسطین کے مسئلے پر عراقی موقف
"طوفان الاقصیٰ" کے بعد جب خطے میں کشیدگی بڑھی تو عراق نے فلسطینی عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ اسرائیلی جارحیت کے خلاف عراقی حکومت اور عوام نے کھل کر مذمت کی اور غزہ کے عوام کی حمایت کو انسانی و اسلامی فریضہ  قرار دیا۔ یہ موقف اس امر کا غماز ہے کہ عراقی خارجہ پالیسی میں فلسطین کی آزادی ایک مستقل اصولی حیثیت رکھتی ہے۔

امریکی اثر و رسوخ اور نیا ایلچی
عراق کی سیاست میں امریکی اثر و رسوخ کوئی نیا موضوع نہیں۔ مختلف ادوار میں امریکی حکمتِ عملی نے عراق کے داخلی معاملات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ حال ہی میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے "مارک ساوایا" کو عراق کے لیے خصوصی ایلچی نامزد کیا ہے۔ مارک ساوایا ایک کاروباری شخصیت ہے، جو بھنگ اور جائیداد کے کاروبار سے منسلک ہے اور یہ شخص سفارتی تجربے سے محروم ہے۔ مبصرین کے مطابق اس تقرری کا مقصد عراق کی سیاست میں امریکی مفادات کو مزید مستحکم کرنا ہے۔ یہ اقدام عراق میں امریکی اثر کے نئے دور کا آغاز سمجھا جا رہا ہے، بالکل اسی طرح جیسے زلمئی خلیل زاد نے افغانستان میں اور ٹام باراک نے لبنان میں کیا تھا۔

نومبر کے پارلیمانی انتخابات۔۔۔۔ علاقائی مفادات کا محور
عراق میں پارلیمانی انتخابات کا اہم مرحلہ ہے، انتخابات کی تارہخ 11 نومبر مقرر کی گئی ہے، انتخابات کے ذریعے ملک کی پارلیمنٹ یعنی مجلس النواب العراقي کے 239  ارکان کا انتخاب کیا جائے گا۔ عراق میں سیاسی جماعتوں، مکتبۂ فکر، فرقوں اور علاقائی تقسیم کے تناظر میں یہ ایک اہم مرحلہ ہے اور اس کا اثر حکومت سازی، طاقت کے توازن اور داخلی استحکام پر پڑے گا۔ عراق میں 11 نومبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات داخلی سیاست سے بڑھ کر ایک علاقائی اور بین الاقوامی معاملہ بن چکے ہیں۔ مختلف طاقتیں اپنی اپنی ترجیحات کے مطابق اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ شیعہ اکثریتی علاقوں میں انتخابی اتحادوں کی کثرت اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ عراق کا سیاسی منظر نامہ متحرک مگر غیر مستحکم ہے۔ اگرچہ مقتدیٰ صدر نے انتخابی عمل سے کنارہ کشی اختیار کی ہے، تاہم مرجعِ عالی قدر آیت اللہ العظمٰی سید علی سیستانی نے عوام کو بھرپور شرکت کی تلقین کی ہے، جو عوامی شعور اور جمہوری تسلسل کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔

عراقی سماج کا بیانیہ۔۔۔۔ رواداری اور وحدت
عراقی سماج کی بنیاد قبائلی ڈھانچے پر ضرور ہے، مگر وہاں کے قبائل اور عام عوام مسلکی اختلافات کے باوجود باہمی رواداری کے قائل ہیں۔ اکثریت کے شیعہ ہونے کے باوجود عراقی معاشرہ بین المسالک ہم آہنگی کی مثال پیش کرتا ہے۔ یہی وحدت عراق کے استحکام اور مزاحمت دونوں کی بنیاد ہے۔

عراق کے پارلیمانی انتخابات۔۔۔۔ استحکام کی امید یا ایک اور آزمائش؟
عراق ایک بار پھر جمہوری امتحان سے گزرنے جا رہا ہے۔ نئی پارلیمنٹ کے انتخابات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں، جب ملک سیاسی انتشار، معاشی بدحالی اور عوامی بے زاری کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ اکیس سال گزرنے کے باوجود عراق کا جمہوری سفر اب بھی عدم استحکام اور طاقت کے کھیل سے آزاد نہیں ہوسکا۔

عوامی توقعات اور سیاسی حقیقت
عراقی عوام کے لیے یہ انتخابات محض ووٹ ڈالنے کا موقع نہیں بلکہ ایک اور امید کی کرن ہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں اب وہ چہرے آئیں، جو بدعنوانی، فرقہ واریت اور بیرونی اثرات سے بلند ہو کر عراق کی تعمیر نو کا بیڑا اٹھائیں۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ ملک کی سیاسی بساط اب بھی پرانی جماعتوں اور طاقتور گروہوں کے زیرِ اثر ہے، جو انتخابات کے نتائج کے باوجود اقتدار کی تقسیم کے لیے ایک دوسرے سے سودے بازی کرتے ہیں۔

فرقہ واریت اور اتحاد کی سیاست
2003ء میں صدام کے زوال کے بعد سے عراقی سیاست شیعہ، سنی اور کرد جماعتوں کے درمیان اقتدار کی بندربانٹ پر استوار ہے۔ کوئی ایک جماعت اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں آتی، اس لیے مخلوط حکومتیں بنتی ہیں، جو جلد ہی اختلافات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اس بار بھی یہی خدشہ موجود ہے کہ انتخابات کے بعد حکومت سازی کے طویل مذاکرات، الزامات اور مفاہمتوں کا وہی پرانا سلسلہ دہرایا جائے گا۔

احتجاجی تحریکوں کی بازگشت
2019ء کی عوامی تحریک نے عراقی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ نوجوانوں نے فرقہ وارانہ تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے ایک نئے سیاسی کلچر کا مطالبہ کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ جذبہ ووٹ کے ذریعے تبدیلی لا پاتا ہے یا نہیں۔ عوام میں سیاسی اشرافیہ کے خلاف غم و غصہ تو اب بھی موجود ہے، مگر نظام پر اعتماد بحال ہونا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ انتخابی ٹرن آؤٹ اسی اعتماد کی حقیقی پیمائش ہوگی۔

علاقائی اثرات اور بین الاقوامی توازن
عراق مشرقِ وسطیٰ میں ایک ایسی سرزمین ہے، جہاں ایران اور امریکا دونوں کے مفادات ٹکراتے ہیں۔ انتخابات کا نتیجہ اس بات کا عندیہ دے گا کہ نئی حکومت کس حد تک بیرونی دباؤ سے آزاد پالیسی اپناتی ہے۔ بغداد کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ ایران سے تعلقات قائم رکھتے ہوئے واشنگٹن سے بھی متوازن روابط برقرار رکھ سکے۔۔۔ یعنی ایک خود مختار مگر حقیقت پسند خارجہ پالیسی۔

سلامتی اور تعمیرِ نو
داعش کے خاتمے کے باوجود عراق مکمل طور پر پرامن نہیں۔ سکیورٹی اداروں میں سیاسی اثراندازی، کرپشن اور ملیشیاؤں کا کردار ریاستی عملداری کے لیے رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ عوام چاہتے ہیں کہ نئی حکومت سلامتی، روزگار، بجلی، پانی اور صحت جیسے بنیادی مسائل پر توجہ دے۔۔۔۔ وہ وعدے جو ہر انتخابی مہم میں کیے جاتے ہیں، مگر پورے کم ہی ہوتے ہیں۔

امید باقی ہے
عراق کے پارلیمانی انتخابات یقیناً ایک نیا موقع ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر قومی ایجنڈے پر متفق ہو جائیں تو یہ انتخابات استحکام اور ترقی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر ماضی کی طرح اقتدار کی رسہ کشی نے نظام کو پھر سے مفلوج کر دیا، تو یہ انتخابات بھی عراق کی تاریخ میں ایک کھویا ہوا موقع بن کر رہ جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • عراق الیکشن 2025؛ اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
  • عراق کے حساس انتخابات کا جائزہ، اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
  • موضوع: عراق کے حساس انتخابات کا جائزہ، اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
  • مسیحیوں کے قتل عام پر خاموش نہیں رہیں گے، ٹرمپ کی نائیجیریا کو فوجی کارروائی کی دھمکی
  • امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
  • ’عیسائیوں کا قتلِ عام‘: ٹرمپ کی نائجیریا کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی
  • امریکی عدالت نے ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق اہم حکم نامہ کالعدم قرار دے دیا
  • ایران کا امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات کے فیصلے پر ردعمل، عالمی امن کیلیے سنگین خطرہ قرار
  • امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات دنیا کے امن کے لیے خطرہ، ایران
  • ایران کا امریکا پر جوہری دوغلا پن کا الزام، ٹرمپ کے جوہری تجربات کے اعلان کی مذمت