ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم کو وائٹ ہاؤس مدعو کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
واشنگٹن: امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو کو آئندہ ہفتے وائٹ ہاوس مدعو کر لیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی میڈیا کے مطابق وائٹ ہاؤس اور وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے دفتر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم آئندہ ہفتے واشنگٹن ڈی سی کا دورہ کریں گے۔ نیتن یاہو ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدارت کے دوران امریکہ کا دورہ کرنے والے پہلے غیر ملکی رہنما ہوں گے۔
نیتن یاہو کے دفتر نے وائٹ ہاوس سے آنے والا خط میڈیا کو جاری کیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ اسرائیل اور اس کے پڑوسیوں کے درمیان قیامِ امن سمیت دونوں ممالک کے مشترکہ مخالفین کا مقابلہ کرنے کے امور پر تبادل خیال کرنا چاہتے ہیں۔
صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان چار فروری کو وائٹ ہاوس میں ملاقات متوقع ہے۔دونوں رہنماوں کے درمیان گزشتہ برس بھی ملاقات ہوئی تھی جب نیتن یاہو نے دورہ امریکہ کے دوران ٹرمپ کی رہائش گاہ مارا لاگو جا کر ان سے ملاقات کی تھی۔
نیتن یاہو ایسے موقع پر واشنگٹن ڈی سی کا دورہ کریں گے جب امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی کے نتیجے میں اسرائیل اور حماس کے درمیان 15 ماہ کی لڑائی کے بعد رواں ماہ ہی جنگ بندی ہوئی ہے۔جنگ بندی معاہدے کے تحت حماس کے پاس موجود یرغمالوں کی رہائی کے بدلے اسرائیل اپنی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کو آزاد کر رہا ہے۔جنگ بندی معاہدے کے تحت حماس نے اب تک مجموعی طور پر سات یرغمالی خواتین کو رہا کیا ہے جب کہ اسرائیلی جیلوں سے لگ بھگ 300 قیدی رہا ہو چکے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نیتن یاہو کے درمیان
پڑھیں:
شام کی دہلیز سے عرب ممالک کو تقسیم کرنے کا خطرناک اسرائیلی منصوبہ
شام کی صورتحال اور اس ملک کے خلاف صیہونی رژیم کی جارحیت کے بارے میں اپنے تجزیات میں مصر کے اخبار الاہرام سمیت معروف عرب اخباروں نے اسرائیل کی بربریت اور گستاخی کو ہوا دینے والے عوامل کی طرف اشارہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ صیہونی رژیم کا مقصد تمام عرب ممالک کو تقسیم کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ شام کی صورتحال پر عرب حلقوں میں مختلف تجزیات سامنے آ رہے ہیں۔ حال ہی میں مصر کے معروف ترین اخبار الاہرام نے اپنے مقالے میں عرب ممالک کو تقسیم کرنے پر مبنی صیہونی رژیم کے خطرناک منصوبے کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے لکھا ہے: "عرب ممالک کے بارے میں اسرائیل کے تسلط پسندانہ عزائم کے باعث یہ ممالک انتشار اور تقسیم کی سازش کا شکار ہیں۔" اخبار الاہرام مزید لکھتا ہے: "اسرائیل اس وقت کئی محاذوں پر لڑ رہا ہے اور امریکی حمایت اور بین الاقوامی تعاون کے ذریعے نام نہاد "گریٹر اسرائیل" منصوبے کو عملی جامہ پہنانے پر غور کر رہا ہے۔ واضح ہے کہ اسرائیل کے تسلط پسندانہ عزائم فلسطین سے آگے بڑھ کر شام اور لبنان تک پھیلے ہوئے ہیں جبکہ وہاں کے شہریوں کو جبری جلاوطنی کے ذریعے دیگر ممالک منتقل کرنے کی سازش بن رہی ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسرائیل ان اقدامات کا پورا بوجھ اپنے کندھوں پر کیسے اٹھا سکتا ہے اور وہ کون سے عوامل ہیں جو غاصب صیہونی رژیم کو عرب ممالک کے خلاف اس طرح کی بربریت اور جارحیت اور انہیں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوشش کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں؟"۔
اس مصری اخبار نے تاکید کرتے ہوئے لکھا: "عرب ممالک کو تقسیم کرنے کی ان اسرائیلی سازشوں کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہیں، جیسے: عرب حکمرانوں کی خاموشی، امریکی سازش، مذہبی فرقہ واریت، خانہ جنگی، اندرونی تنازعات، اور غربت سے تنگ عوام۔ ان تمام سازشوں کے ہوتے ہوئے کوئی بھی اس خطے کے مستقبل کی پیشین گوئی نہیں کر سکتا اور ہم ان تسلط پسندانہ عزائم کے تناظر میں خطے کی جو تصویر دکھائی دے رہی ہے وہ بہت ہی افسوسناک ہے اور سب سے خطرناک یہ ہے کہ اسرائیل اپنی بڑی آرزووں سے باز نہیں آئے گا۔" اس مقالے میں مزید آیا ہے: "حزب اللہ لبنان سے چھٹکارا پانا اسرائیل کے اہم ترین عزائم میں سے ایک ہے اور ان میں غزہ مزاحمت کی چٹان اور شام اس کا سب سے بڑا راز ہے۔ ایسے میں وہ گروہ بھی پائے جاتے ہیں جو اسرائیل سے سازباز میں مصروف ہیں"۔ یہ مصری اخبار مزید لکھتا ہے: "عرب دنیا کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے میں اسرائیل کی ممکنہ کامیابی مسئلہ فلسطین سے کہیں بڑی مصیبت ہو گی۔ اسرائیل نے اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے برسوں سے محنت کی ہے اور اس سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں کیونکہ عرب ممالک میں تقسیم اور خانہ جنگی کی صورت حال اسرائیل کے لیے راستہ کھول سکتی ہے۔ آج بڑا سوال یہ ہے کہ کیا عرب ممالک اپنے عزم اور ارادے کو دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں؟"
اماراتی اخبار "الخلیج" نے بھی اسی موضوع پر رپورٹ دی ہے کہ شامی عوام اپنے متنوع فرقوں اور اعلیٰ مذہبی تنوع کے باوجود پوری تاریخ میں ایک متحد بلاک رہے ہیں۔ اس اخبار نے صیہونی رژیم کی طرف سے ملک کو درپیش بڑے خطرے اور اسے تقسیم کرنے کی سازش کے بارے میں خبردار کیا اور لکھا: "موجودہ حالات میں شام کی تقسیم کا خطرہ ہے اور اگر سمجھ دار شخصیات نے ان خطرات کا تدارک نہ کیا تو تباہی واقع ہو جائے گی"۔ اماراتی اخبار نے اس بات پر زور دیا کہ: "یقینا یہ تعین کرنا کہ شامی حکومت کی قیادت کسے کرنی چاہیے کسی کا کام نہیں ہے اور یہ خالصتاً اندرونی معاملہ ہے اور صرف شامی ہی اپنے ملک کی تقدیر اور مستقبل کا تعین کرنے کے اہل ہیں۔ تاہم، یہ دوسرے عرب ممالک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شام میں خونریزی کو روکنے کے لیے بہترین طریقہ اختیار کریں اور جان لیں کہ جب ایک جنگ میں ایسے شامی عوام کا خون بہے گا جن کا اس جنگ میں کوئی کردار نہیں تو اس کا انتقام اور ردعمل بھی سامنے آئے گا اور حالات پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا"۔