Al Qamar Online:
2025-11-03@18:00:25 GMT

امریکہ میں ٹک ٹاک کون خرید سکتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

امریکہ میں ٹک ٹاک کون خرید سکتا ہے؟

ویب ڈیسک وقت گزرنے کے ساتھ امریکہ میں ٹک ٹاک کی قسمت کے فیصلے کی گھڑی بھی قریب آ رہی ہے۔

امریکہ میں ٹک ٹاک کو پابندی سے بچنے کے لیے 75 روز کے اندر اپنے چینی مالکان سے علیحدگی اختیار کرنی ہے۔ ایسے میں ٹک ٹاک کو خریدنے کے لیے کئی امیدوار میدان میں ہیں۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں ٹک ٹاک میں 50 فی صد اونرشپ امریکہ کے پاس ہو۔اس سلسلے میں وہ کئی لوگوں سے بات کر چکے ہیں اور بہت سے لوگ اسے خریدنے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔

ٹک ٹاک چین کی کمپنی ‘بائٹ ڈانس’ کی ملکیت ہے اور کمپنی کے مطابق امریکہ میں ٹک ٹاک کے 17 کروڑ سے زائد صارفین ہیں۔

قومی سلامتی سے متعلق تحفظات کی بنیاد پر بنائے گئے ایک قانون کے تحت امریکہ میں ٹک ٹاک کو 19 جنوری2025 تک یہ مہلت دی گئی تھی کہ وہ امریکہ میں اپنے تمام اثاثے فروخت کر دے یا پھر پابندی کا سامنا کرے۔

صدر ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر کے ٹک ٹاک پر پابندی کو 75 روز کے لیے مؤخر کردیا تھا۔

ایگزیکٹو آرڈر ایک ایسا حکم نامہ ہوتا ہے جسے جاری کرنے کے لیے صدر کو کانگریس کی منظوری درکار نہیں ہوتی۔ تاہم اس صدارتی حکم نامے کی بھی حدود ہیں۔

فی الحال ٹک ٹاک نے امریکہ میں اپنی سروس بحال کر دی ہے۔ لیکن ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود تاحال کوئی بھی حتمی امیدوار اسے خریدنے کے لیے سامنے نہیں آیا ہے۔ البتہ کئی نے اسے خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔


ایلون مسک

امریکی ارب پتی بزنس مین ایلون مسک نے ٹک ٹاک کو خریدنے میں عوامی سطح پر تو دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ لیکن اُن کے بارے میں ان قیاس آرائیوں نے جنم ضرور لیا ہے کہ وہ اس ایپ کو خرید سکتے ہیں۔

ایلون مسک نے 2022 میں 44 ارب ڈالرز کے عوض ‘ٹوئٹر’ (ایکس) کو خریدا تھا۔ اسی وجہ سے بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ایلون مسک سوشل میڈیا کمپنیوں میں مزید سرمایہ کاری کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

مسک نے ٹک ٹاک پر ممکنہ پابندی پر تنقید کرتے ہوئے اسے سینسر شپ اور حکومتی کنٹرول کے مترادف قرار دیا تھا۔

صدر ٹرمپ بھی اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ ایلون مسک ہی ٹک ٹاک کو خرید لیں جس کے بعد ان قیاس آرائیوں نے زور پکڑا ہے کہ مسک ٹک ٹاک کو خرید سکتے ہیں۔

‘ٹک ٹاک’ نے اس رپورٹ کی سختی سے تردید کی تھی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ چینی حکام ٹک ٹاک کے امریکہ میں آپریشنز ایلون مسک کے سپرد کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

لیری ایلیسن

ٹیکنالوجی کمپنی ‘اوریکل’ کے شریک بانی لیری ایلیسن بھی ٹک ٹاک کے ممکنہ خریداروں میں شامل ہیں۔

اوریکل، امریکہ میں ٹک ٹاک کو ڈیٹا اسٹوریج سروسز بھی فراہم کرتی ہے۔ امریکی جریدے فوربز کے مطابق ایلیسن 207 ارب ڈالر اثاثوں کے مالک ہیں۔ وہ 2020 میں بھی ٹک ٹاک کے امریکہ میں آپریشنز چلانے سے متعلق مذاکرات میں شامل رہے ہیں۔

واضح رہے کہ اگست 2020 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس میں بائٹ ڈانس کو امریکہ میں اپنے ایسے تمام اثاثے 90 روز میں بیچنے کا حکم دیا گیا تھا جن سے ٹک ٹاک کے بزنس میں مدد مل سکتی ہے۔

صدر ٹرمپ کے انتظامی حکم میں کہا گیا تھا کہ مستند ذرائع سے حاصل شدہ معلومات کے بعد امریکہ کی قومی سلامتی کو خطرات سے بچانے کے لیے یہ کارروائی کرنا پڑی۔

لیری ایلیسن

اُس وقت بھی ٹک ٹاک نے امریکہ میں اپنے آپریشنز کے لیے "مائیکرو سافٹ’ ‘وال مارٹ’ اور ‘اوریکل’ سے مذاکرات کیے تھے۔ بعدازاں امریکہ کی ایک وفاقی عدالت نے یہ پابندی مؤخر کر دی تھی۔

مائیکرو سافٹ

امریکہ کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنی ـ’مائیکرو سافٹ’ بھی ٹک ٹاک کے ممکنہ خریداروں میں شامل ہے۔

پیر کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے بھی تصدیق کی تھی کہ مائیکرو سافٹ بھی ٹک ٹاک کے حصول کے لیے بات چیت کر رہی ہے۔

مائیکرو سافٹ، پروڈکٹس اور سافٹ ویئر فراہم کرنے والی بڑی ٹیکنالوجی کمپنی ہے۔ تاہم وہ سوشل میڈیا اور سرچ بیسڈ ایڈورٹائزنگ میں زیادہ مضبوط نہیں سمجھی جاتی۔

ریسرچ کمپنی ‘سی ایف آر اے’ کے سینئر نائب صدر اینجلو زینو کہتے ہیں کہ مائیکرو سافٹ اپنی ملکیتی ‘لنکڈ ان’ کے علاوہ بھی ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ کی دنیا میں آگے بڑھنا چاہتی ہے۔

مسٹر بیسٹ

انٹرنیٹ کی دنیا میں بڑا نام اور یوٹیوب پر تقریباً 35 کروڑ سبسکرائبرز اور ٹک ٹاک پر 11 کروڑ سے زیادہ فالورز رکھنے والے مسٹر بیسٹ کا نام بھی ٹک ٹاک کے ممکنہ خریداروں کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔ مسٹر بیسٹ کا اصل نام جمی ڈونلڈسن ہے۔

وہ آن لائن ریکروٹمنٹ پلیٹ فارم ‘ریکورٹر’ کے بانی جیسی ٹنزلی کے ساتھ مل کر ٹک ٹاک کی خریداری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

مسٹر بیسٹ نے چند روز قبل ایک ‘ایکس’ پوسٹ میں کہا تھا کہ "ٹھیک ہے، میں ٹک ٹاک خریدوں گا، تاکہ اس پر پابندی نہ لگے۔”

پروجیکٹ لائبریری

ریئل اسٹیٹ اور اسپورٹس ٹائیکون فرینک میککورٹ کے ‘پروجیکٹ لبرٹی’ نے "ٹک ٹاک کے لیے عوام کی بولی” کے سلوگن کے ساتھ ٹک ٹاک کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

اس مہم میں سرمایہ کار کیون اولیری بھی شامل ہیں جو ‘شارک ٹینک’ نامی ٹی وی شو کی وجہ سے بھی شہرت رکھتے ہیں۔ اس ٹی وی شو میں آنٹرا پنیورز اپنے آئیڈیاز پیش کرتے ہیں۔

اس مہم میں چھوٹے سرمایہ کاروں کو بھی دعوت دی جائے گی کہ وہ ٹک ٹاک کی خریداری میں شامل ہو کر اس کے شیئر ہولڈر بن جائیں۔

پرپلیکسٹی اے آئی

آرٹیفیشل انٹیلی جینس سرچ انجن ‘پرپلیکسٹی اے آئی’ نے ایک منفرد حل تجویز کیا ہے جو ‘بائٹ ڈانس’ کے سرمایہ کار وں کو یہ موقع بھی دے گا کہ وہ ٹک ٹاک میں اپنا سرمایہ برقرار رکھ سکیں گے۔

امریکی نشریاتی ادارے ‘سی این بی سی’ کے مطابق اس تجویز کے مطابق ٹک ٹاک اپنا مواد پرپلیکسٹی کے پلیٹ فارم میں ضم کر سکے گا۔

اسٹیون منوشن

صدر ٹرمپ کے پہلے دور میں وزیرِ خزانہ رہنے والے اسٹیون منوشن نے گزشتہ برس اعلان کیا تھا کہ وہ ‘ٹک ٹاک’ کی خریداری کے لیے سرمایہ کاروں کو جمع کر رہے ہیں۔

جب حال ہی میں ‘سی این بی سی’ کے پروگرام میں اُن سے اس اعلان کے بارےمیں پوچھا گیا تو منوشن کا کہنا تھا کہ اُنہیں یہ کہہ کر روک دیا گیا تھا کہ ‘بائٹ ڈانس’ اس پر مذاکرات نہیں کرے گی۔ تاہم اب ہم موجودہ پیش رفت پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

نو ڈیل

ٹیک تجزیہ کار روب اینڈرل کہتے ہیں کہ سوال یہ ہے کہ کیا ‘ٹک ٹاک’ ان میں سے کسی کمپنی کو فروخت ہو گی بھی یا نہیں۔

ماہرین کے مطابق ‘ٹک ٹاک’ کی جانب سے تاحال اس معاملے پر زیادہ گرم جوشی نہیں دکھائی گئی جب کہ حال ہی میں چینی چیٹ بوٹ ‘ڈیپ سیک’ نے ٹیک کمیونٹی کی توجہ حاصل کی ہے جس کی وجہ سے اس معاملے پر توجہ کچھ کم ہوئی ہے۔

یہ رپورٹ اے ایف پی سے لی گئی ہے۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان کھیل امریکہ میں ٹک ٹاک کو ٹک ٹاک کو خرید مائیکرو سافٹ امریکہ میں ا سرمایہ کار کی خریداری ایلون مسک بائٹ ڈانس رکھتے ہیں ٹک ٹاک کی کے مطابق گیا تھا تھا کہ ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

خطرناک تر ٹرمپ، امریکہ کے جوہری تجربات کی بحالی کا فیصلہ

اسلام ٹائمز: ایسے تجربات مصنوعی زلزلوں کا باعث بھی بن سکتے ہیں، جیسا کہ 1973 میں سوویت یونین کے ایک جوہری تجربے سے 6.97 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ ایسے زلزلے حیاتیاتی تنوع (biodiversity) کو نقصان پہنچاتے ہیں، مچھلیوں کی اجتماعی ہلاکت اور دریاؤں کی آلودگی جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے حالیہ دنوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ کے پاس ایسے جوہری تجربات کے لیے ’’کوئی تکنیکی، عسکری، اور نہ ہی سیاسی جواز موجود ہے، لیکن اس کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی تجربات کے احکامات صادر کرنے کے اس فیصلے کے خطرات اس کے ممکنہ فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔  خصوصی رپورٹ:
  ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ میں جوہری تجربات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ تجربات کے اسٹریٹجک، سفارتی اور ماحولیاتی سطحوں پر وسیع اثرات پیدا کر سکتا ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر ایک پیغام میں اعلان کیا ہے کہ انہوں نے وزارتِ جنگ کو فوراً جوہری تجربات کے عمل کا آغاز کرنے کا حکم دیا ہے۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام حریف طاقتوں کی جانب سے انجام دی جانے والی ایسی ہی پیشگی سرگرمیوں کے جواب میں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں امریکہ کی کسی بھی حریف طاقت نے جوہری ہتھیاروں کے تجربات نہیں کیے۔ اگرچہ امریکہ نے بھی 1992ء سے کوئی جوہری دھماکہ نہیں کیا، تاہم یہ اعلان اسٹریٹجک، سفارتی، ماحولیاتی، صحتی، معاشی اور داخلی سطحوں پر گہرے مضمرات کا حامل ہے۔

اسٹریٹجک اور سیکیورٹی اثرات: ٹرمپ کے اس اعلان سے دنیا میں جوہری توازن اور سیکورٹی کا عالمی نظام بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ فاکس نیوز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ اقدام مشرقی ایشیا سے لے کر مشرقِ وسطیٰ تک ’’زیرِ زمین دھماکوں کے ایک سلسلے‘‘ کو جنم دے سکتا ہے۔ روس نومبر 2023ء میں سی ٹی بی ٹی سے نکل گیا تھا۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے اپنے تجربات دوبارہ شروع کیے تو وہ بھی جوابی کارروائی کرے گا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے حال ہی میں بوروستنیک جیسے جوہری میزائلوں کے تجربے کیے ہیں، مگر ان میں کوئی جوہری دھماکہ شامل نہیں تھا۔ ماہرین کے مطابق اب امریکہ کا یہ فیصلہ روس کو حقیقی جوہری دھماکوں کی طرف مائل کر سکتا ہے، جس سے غلط حساب کتاب (miscalculation) اور عالمی کشیدگی میں خطرناک اضافہ ممکن ہے۔

چین اور دیگر جوہری طاقتیں: چین نے اپنے جوہری ذخیرے کو 2020 میں 300 وارہیڈز سے بڑھا کر 2025 تک تقریباً 600 تک پہنچا دیا ہے، اندازہ ہے کہ 2030 تک یہ تعداد 1000 تک پہنچ جائے گی بین الاقوامی اسٹریٹیجک اسٹڈیز سنٹر کے مطابق اس فیصلے کے بعد چین بھی اپنے پروگرام کی رفتار مزید تیز کر سکتا ہے۔ کارنیگی انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل پیس کے آنکیٹ پانڈا نے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام چین اور روس دونوں کے لیے ایک طرح کا کھلا چیک ہے، جس سے وہ بھی مکمل جوہری تجربات دوبارہ شروع کر سکتے ہیں، حالانکہ چین نے 1996 سے اور روس نے 1990 سے کوئی جوہری دھماکہ نہیں کیا۔ اسی طرح بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا جیسے ممالک کو بھی اپنے تجربات جاری رکھنے کا جواز مل سکتا ہے۔ یاد رہے کہ شمالی کوریا نے آخری تصدیق شدہ جوہری تجربہ ٹرمپ کی پہلی صدارت (2017) کے دوران کیا تھا۔   سفارتی اثرات: اس اعلان نے عالمی سطح پر شدید منفی ردِعمل پیدا کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش کے ترجمان نے اس اقدام کو غیر پائیدار اور عالمی عدمِ پھیلاؤ کی کوششوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا، اور گزشتہ 80 برسوں میں ہونے والے 2000 سے زائد جوہری تجربات کے تباہ کن ورثے کی یاد دہانی کرائی۔ ٹرمپ کے اعلان کے چند گھنٹے بعد چین نے امید ظاہر کی ہے کہ امریکہ سی ٹی بی ٹی کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر قائم رہے گا اور جوہری عدمِ پھیلاؤ کے نظام کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گا۔ 

برطانیہ اور فرانس جیسے اتحادی ممالک جو واشنگٹن کی جوہری چھتری (deterrence) پر انحصار کرتے ہیں، اس اعلان کے بعد امریکہ کی اخلاقی ساکھ کے کمزور ہونے پر تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر داریل کیمبال نے متنبہ کیا ہے کہ یہ قدم اسلحہ کنٹرول مذاکرات کو کمزور کرے گا اور امریکہ کے مخالفین کو یہ موقع دے گا کہ وہ اسے ایک غیر ذمہ دار طاقت کے طور پر پیش کریں۔ مزید برآں یہ اعلان جوہری عدمِ پھیلاؤ کے عالمی معاہدے (این پی ٹی) کے 191 رکن ممالک کو بھی کمزور کر سکتا ہے، جسے عالمی امن کے لیے ایک بنیادی ستون سمجھا جاتا ہے۔

ماحولیاتی اثرات: اگرچہ زیرِ زمین کیے جانے والے جوہری تجربات فضا میں ہونے والے تجربات کے مقابلے میں کم آلودگی پیدا کرتے ہیں، لیکن ان سے ماحولیاتی خطرات اب بھی شدید نوعیت کے رہتے ہیں۔ فاکس نیوز کی رپورٹ کے مطابق ان تجربات کے نمایاں ماحولیاتی اور حفاظتی اخراجات ہیں، جب کہ ماضی کا ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے اثرات طویل المدت اور تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ 1945 سے اب تک دنیا بھر میں دو ہزار سے زیادہ جوہری تجربات کیے جا چکے ہیں، جنہوں نے فضا، سمندروں اور زیرِ زمین پانی میں تابکاری (ریڈیوایکٹیو) آلودگی پھیلائی ہے۔ مثال کے طور پر 1950 کی دہائی میں امریکہ کے بحرالکاہل کے اینیوٹاک اور بکینی ایٹول (مارشل جزائر) میں کیے گئے تجربات نے سیزیم 137 اور اسٹرانشیم 90 جیسے تابکار عناصر سے مسلسل آلودگی پیدا کی، جس کے نتیجے میں رونگلاپ جزیرہ ہمیشہ کے لیے غیر آباد ہو گیا۔   ریاست نیواڈا میں 1951 سے 1992 تک 928 سے زیادہ زیرِ زمین تجربات کیے گئے، جن سے زیرِ زمین پانیوں میں تابکاری رسنے لگی اور مقامی آبادی میں تھائرائڈ اور لیوکیمیا جیسے سرطانوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔ یہ زیرِ زمین دھماکے اکثر ریڈیوایکٹیو گیسوں کے اخراج کا سبب بنتے ہیں اور ٹریٹیم سمیت مختلف فِشَن (fission) مصنوعات کو ماحول میں داخل کرتے ہیں، جو ماحولیاتی نظام (ecosystem) اور خوراک کی زنجیر کو متاثر کرتے ہیں۔ سائنسی تحقیقات کے مطابق یہ تابکار آلودگی دہائیوں تک مٹی اور پانی میں برقرار رہ سکتی ہے، جس کے اثرات کئی نسلوں تک جاری رہتے ہیں۔ ایسے تجربات مصنوعی زلزلوں کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

جیسا کہ 1973 میں سوویت یونین کے ایک جوہری تجربے سے 6.97 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ ایسے زلزلے حیاتیاتی تنوع (biodiversity) کو نقصان پہنچاتے ہیں، مچھلیوں کی اجتماعی ہلاکت اور دریاؤں کی آلودگی جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے حالیہ دنوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ کے پاس ایسے جوہری تجربات کے لیے ’’کوئی تکنیکی، عسکری، اور نہ ہی سیاسی جواز موجود ہے، لیکن اس کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی تجربات کے احکامات صادر کرنے کے اس فیصلے کے خطرات اس کے ممکنہ فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ 

متعلقہ مضامین

  • پاکستان، چین اور روس خفیہ ایٹمی تجربات کر رہے ہیں، ٹرمپ کا دعویٰ
  • بار الیکشن: انڈیپنڈنٹ گروپ ’’اسٹیٹس کو‘‘ بر قرار رکھ سکتا ہے
  • کرپشن سے پاک پاکستان ہی ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتا ہے، کاشف شیخ
  • پیپلز پارٹی، ن لیگ اور پی ٹی آئی کا خاتمہ ہو تو ملک سنبھل سکتا ہے، سراج الحق
  •  تاجروں کے بعد غیر قانونی جائیداد اور گھروں کی خرید و فروخت کرنے والوں کیخلاف بھی شکنجہ سخت 
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • امریکہ امن کا نہیں، جنگ کا ایجنڈا آگے بڑھا رہا ہے، ثروت اعجاز قادری
  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • خطرناک تر ٹرمپ، امریکہ کے جوہری تجربات کی بحالی کا فیصلہ
  • بلوچستان کی ترقی کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا: حافظ نعیم الرحمن