Express News:
2025-07-26@07:19:37 GMT

پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

اقوام متحدہ نے تصدیق کی ہے کہ اسے واشنگٹن کی جانب سے پیرس موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے سے دست برداری کی اطلاع موصول ہوئی ہے، جو کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کا ایک اہم وعدہ تھا۔ دوسری جانب پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اور محصولات محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ماحولیاتی خطرات سے دوچار ممالک میں پہلے دس ممالک میں پاکستان کا شمار ہوتا ہے۔ سال 2030 تک پاکستان کو اپنے موسمیاتی موافقت اور تخفیف کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے 348 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

 مستقبل میں کلائمیٹ چینج کے نتیجے میں خوراک، پانی اور توانائی کی فراہمی متاثر ہوگی، قدرتی وسائل کے حصول کے لیے ممالک اور خطوں کے درمیان مقابلہ شروع ہو جائے گا اور معیشتیں شدید خسارے میں چلی جائیں گی، قدرتی آفات کے تسلسل سے مختلف خطوں اور علاقوں کے لوگ ہجرت پر مجبور ہوں گے۔

یہ مہاجرین غریب ممالک سے ہجرت کرتے ہیں اور قریبی غریب ملکوں میں ہی جاتے ہیں۔ کم آمدنی والے معاشروں میں وسائل کی کمی کے باعث مناسب ڈیٹا مرتب نہیں ہو پاتا، اسی وجہ سے مہاجرین کی آڑ میں ایسے عناصر بھی دوسرے ملکوں میں چلے جاتے ہیں، جو بعد میں ان ممالک کی سیکیورٹی کے مسائل پیدا کر دیتے ہیں۔

 ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل اپنے پہلے دور حکومت میں پیرس معاہدے سے امریکا کو الگ کر لیا تھا، جسے سابق صدر بائیڈن نے الٹ دیا تھا۔ واشنگٹن عام طور پر موسمیاتی تبدیلی کے سیکریٹریٹ کے بجٹ پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کا 22 فیصد فراہم کرتا ہے، جس میں 2024-2025 کے لیے باڈی کے آپریٹنگ اخراجات کا تخمینہ 96.

5 ملین ڈالر ہے۔

سیکریٹریٹ کو موسمیاتی خطرات کے عالمی ردعمل کی حمایت کرنے کا کام سونپا گیا ہے، اور بین الاقوامی موسمیاتی کانفرنسوں کا اہتمام کرتا ہے، جن میں سے اگلی COP30 نومبر میں برازیل میں منعقد ہوگی، یوں امریکا کی فنڈنگ رک جانے سے کلائمیٹ چینج کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔

 اقوام متحدہ کے پانی سے متعلق معاملات کو دیکھنے والے مختلف اداروں کو ’’یو این واٹر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یو این واٹر کی ویب سائٹ پر موجود تجزیے کے مطابق پانی اور ماحولیاتی تبدیلی لازم و ملزوم ہیں۔

کلائمیٹ چینج دنیا بھر میں دستیاب پانی کو مختلف اور پیچیدہ طریقے سے متاثر کر رہی ہے۔ ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے مطابق کرہ ارض پر دستیاب 0.5 فیصد قابل استعمال پانی کے معاملے پر بھی مختلف خطوں کا تناؤ ہے، موسمیاتی تبدیلی سے عالمی سطح پر اس کی فراہمی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ غیر متوقع بارشیں ہو رہی ہیں، برف کی تہہ سکڑتی جا رہی ہے، سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے اور سیلاب و خشک سالی بڑھ رہی ہے۔

 پاکستان ایک ایسے ملک کے طور پر جانا جاتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔ یہ اثرات نہ صرف ماحولیات بلکہ معیشت، زراعت، اور انسانی صحت پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کا بڑا حصہ زراعت پر منحصر ہے، اور موسمیاتی تبدیلی نے اس شعبے کو خاص طور پر متاثر کیا ہے۔

پانی کی قلت کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں کمی آ رہی ہے۔ گلیشیئرز کے پگھلنے اور بارشوں کے غیر متوازن پیٹرن کی وجہ سے پانی کی دستیابی متاثر ہو رہی ہے جب کہ شدید گرمی، طوفان اور بارشیں فصلوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ یہ غیر معمولی موسمی واقعات فصلوں کے چکر کو بگاڑ رہے ہیں اور کسانوں کو نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بارشوں کے بڑھتے ہوئے واقعات نے سیلابوں کی شدت میں اضافہ کیا ہے۔

سیلابوں نے سڑکوں، پلوں اور عمارتوں کو نقصان پہنچایا ہے، جس سے معیشت متاثر ہو رہی ہے۔ یہ نقصان نہ صرف مالی طور پر تباہ کن ہے بلکہ ترقیاتی منصوبوں میں بھی رکاوٹ ڈال رہا ہے جب کہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹس بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ پانی کے بہاؤ میں تبدیلی سے بجلی کی پیداوار میں اتار چڑھاؤ آ رہا ہے، جو ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ فصلوں کی پیداوار میں کمی سے غذائیت کی کمی کا مسئلہ بھی سامنے آ رہا ہے۔ یہ خاص طور پر دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو متاثر کر رہا ہے جہاں غذائی تنوع پہلے سے ہی محدود ہے۔

پاکستان ان 10 ممالک میں سے ایک ہے جو موسمی تبدیلیوں اور قدرتی آفات سے بہت زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ گزشتہ ایک صدی میں پاکستان میں اوسط درجہ حرارت میں صفر اعشاریہ چھ تین ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ دیکھا گیا ہے اور کراچی کے ساحل کے ساتھ سمندر کی سطح میں ایک اعشاریہ ایک ملی میٹر کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اگرچہ 2006 سے 2015 تک سمندر کی سطح میں اضافہ تین اعشاریہ چھ ملی میٹر دیکھا گیا تھا۔ پاکستان کے خشک اور ساحلی علاقوں میں بارش میں 10 سے 15 فیصد کمی آئی ہے، جس کے باعث مینگروو ایکو سسٹم متاثر ہوا ہے، لیکن ساتھ ہی ملک میں تیز بارش میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ ملک میں ہیٹ ویو کے دنوں میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

ایک تازہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ شدید موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی خرابی اور ہوا میں آلودگی سے پاکستان میں 2050 تک ملک کے جی ڈی پی میں 18 سے 20 فیصد کمی ہو سکتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا نمبر ہے جس سے ملک کی ترقی رک جائے گی۔ اس میں مزید کہا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی ایسا خطرہ ہے جو اس وقت ہمیں درپیش ہے اور جو آنے والی نسلوں کی زندگی تبدیل کر کے رکھ دے گا۔

 پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اس ایک سو کلومیٹر رقبے میں سیلاب سے نہ صرف انسانی آبادیاں، عمارتوں، سڑکوں اور انفرا اسٹرکچر کو نا قابل تلافی نقصان پہنچتا ہے بلکہ اس کے ساتھ کھڑی فصل کے بہہ جانے سے خوراک کی شدید قلت کا خطرہ بھی روز بروز بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات بشمول گلگت بلتستان اور چترال کے بالائی حصوں میں موجود اونچے پہاڑوں کی چوٹی پر برف اور منجمد گلیشیئر بڑھتے درجہ حرارت سے پگھل کر جھیلوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ جب یہ جھیلیں انتہائی سطح پر بھر جاتی ہیں تو اچانک پھٹ جاتی ہیں۔ ان جھیلوں کے پھٹنے کے بعد اونچے پہاڑ کی چوٹی سے لاکھوں گیلن پانی کے ساتھ بڑے بڑے پتھروں کے ساتھ ایک خطرناک سیلاب آتا ہے، جو نیچے موجود پوری وادی کو بہا لے جاتا ہے۔

پاکستان میں جہاں سیلاب کو سب سے بڑا اور نمبر ون خطرہ قرار دیا جارہا ہے، وہیں اسی ملک میں کئی سالوں سے مسلسل جاری خشک سالی کی وجہ سے قحط سالی کو دوسرا بڑا یا نمبر ٹو خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں سالانہ بنیاد پر کم بارشوں کے باعث قحط سالی تواتر سے ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ سیلاب کے باعث کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں، جب کہ نچلے آدھے پاکستان میں زیادہ تر حصہ بارانی ہے یا وہاں بارشوں پر زراعت کی جاتی ہے۔

وہاں مسلسل خشک سالی کی وجہ سے خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور ان علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں، جس سے پاکستان میں موسمیاتی مہاجرین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ سطح سمندر میں اضافہ یا سی لیول رائز پاکستان کا تیسرا بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور پر سندھ میں سمندر کے قریب انسانی آبادی کو سطح سمندر میں اضافے سے شدید خطرہ ہے۔ سندھ کے دارالحکومت اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز کراچی کے ساحل کے ساتھ سمندری سطح میں اضافے کے بعد بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا امکان ہے۔ہیٹ ویو کو پاکستان کے لیے پانچواں بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

جنوبی صوبہ سندھ کے شہر جیکب آباد کو ’’ ایشیا کا گرم ترین‘‘ شہر اور ’’دنیا کے گرم ترین شہروں میں سے ایک‘‘ کا درجہ دیا جارہا ہے۔ یہاں درجہ حرارت بقول ماہرین ’انسانی برداشت سے باہر، ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ جیکب آباد میں موسم سرما میں درجہ حرارت کئی ماہ تک 50 ڈگری سیلسیئس سے زیادہ رہتا ہے۔ 2015 کے موسم گرما کے دوران کراچی شہر میں درجہ حرارت 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔ اس ہیٹ ویو کے دوران سرکاری طور پر 1200 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

 موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے پائیدار زراعت کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ جدید تکنیکیں جیسے کہ ڈرپ ایریگیشن اور متبادل فصلیں اپنانے سے پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ زرعی شعبے میں تحقیق کو فروغ دینا چاہیے تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے مطابق نئی اقسام اور زرعی طریقے تیار کیے جا سکیں۔ پاکستان میں توانائی کے متبادل ذرایع جیسے کہ شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے مواقعے موجود ہیں۔

پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا کر رہا ہے، لیکن اس چیلنج کو مواقع میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ پائیدار زراعت، متبادل توانائی اور عوامی آگاہی جیسے اقدامات سے ہم اس بحران کا مقابلہ کر سکتے ہیں، اگر ہم مل کر کام کریں تو ہم نہ صرف اپنے ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلی کے پاکستان کے کے باعث رہی ہے ہے اور گیا ہے کے لیے

پڑھیں:

او آئی سی تعاون اجلاس، اسلاموفوبیا کے بڑھتے خطرات کی روک تھام کیلئے مل کر کام کرنا ہو گا: اسحاق ڈار

نیویارک (نوائے وقت رپورٹ) نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا کہ عالمی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے عالمی تعاون بہت ضروری ہے۔ عالمی امن کے قیام کیلئے اقوام متحدہ میں او آئی سی تعاون اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیراعظم نے اسلامی تعاون تنظیم اور اقوام متحدہ کے درمیان تعاون کو مزید فعال کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ انسانی بحران سے نمٹنے اور عالمی امن کیلئے او آئی سی اور اقوام متحدہ کا تعاون اہم ہے، تاہم اس کو مزید فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر کے عوام کو حق خودارادیت دینا ہوگا۔ اسلامو فوبیا کے خطرات کو روکنے کیلئے سب کو ملکر کام کرنا ہوگا۔ نائب وزیراعظم نے مزید کہا کہ سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت اعزاز ہے۔ اقوام متحدہ کے بعد او آئی سی دنیا کی بین الحکومتی تنظیم ہے اور پاکستان او آئی سی کے بانی ارکان میں سے ایک ہے۔ علاوہ ازیں اسحاق ڈار نے فلسطینی مسئلے کو اقوام متحدہ کی ساکھ اور اثر کا امتحان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس مسئلے کا حل نہ نکالا گیا تو اقوام متحدہ کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ عالمی برادری فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی بلا رکاوٹ رسائی کو یقینی بنائے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سہ ماہی مباحثے کی صدارت کرتے ہوئے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور فلسطینی مسئلے پر تفصیلی خطاب کیا۔ اس مباحثے کا موضوع مشرق وسطیٰ کی صورتحال بشمول فلسطینی مسئلہ تھا جس میں اسحاق ڈار نے فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی شدید مذمت کی۔ اسحاق ڈار نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسرائیل کی جانب سے ہسپتالوں، سکولوں، اقوام متحدہ کی تنصیبات، اور پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنانا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو اجتماعی سزا دینا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی متعدد قراردادوں کے بھی خلاف ہیں۔ اسحاق ڈار نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ فوری جنگ بندی اور انسانی امداد کی بلا رکاوٹ رسائی کو یقینی بنائے تاکہ فلسطینی عوام کی تکالیف کم کی جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ فلسطین میں یہودی آبادکاریاں بند اور ہنگامی انسانی بنیاد پر امداد فوری طور پر غیر مشروط بحال کی جائے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل شام کی گولان کی پہاڑیوں اور دیگر رقبے سے بھی پیچھے ہٹ جائے اور 1967ء کے وقت کی سرحدیں بحال کی جائیں اور اسرائیل یہودی آبادیوں کو ملانے کے منصوبے سے بھی باز رہے۔ نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان میں اصلاحات اور ڈیجیٹائزیشن سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے دورہ نیویارک میں بینکاری، سرمایہ کاری اور آئی ٹی ماہرین سے ملاقات کی۔ ملاقات میں اسحاق ڈار نے سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلئے ایس آئی ایف سی کے کردار پر زور دیا۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ زراعت، آئی ٹی، معدنیات سمیت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کی سہولت کاری کو تیز کیا جا رہا ہے۔ ترجمان کے مطابق ملاقات میں اسحاق ڈار نے فِن ٹیک، ڈیجیٹل بینکنگ، انفراسٹرکچر میں پاکستان کی صلاحیتوں پر روشنی ڈالی۔ ملاقات میں مورگن سٹینلی، بینک آف امریکہ، بی این پی پریباس، جے پی مورگن اور گولڈمین سکس کے ماہرین موجود تھے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق شرکاء نے پاکستان میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں اظہار دلچسپی اور باہمی معاشی روابط کو فروغ دینے پر زور دیا۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان، بنگلہ دیش ویزا فری معاہدہ، بھارت کو پریشانی کیوں لاحق ہوئی؟
  • وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال سے ورلڈ بینک کے نائب صدر عثمان ڈی اون کی ملاقات، دو طرفہ تعاون، معیشت کی بہتری، موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز اور سماجی ترقی سمیت متعدد اہم امور پر تبادلہ خیال
  • اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا چین اور یورپی یونین کے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق تعاون کا خیرمقدم
  • فرانس کا فلسطین کو باضابطہ ریاست تسلیم کرنے کا عندیہ، اسرائیل کو تشویش لاحق
  • او آئی سی تعاون اجلاس، اسلاموفوبیا کے بڑھتے خطرات کی روک تھام کیلئے مل کر کام کرنا ہو گا: اسحاق ڈار
  • اسلاموفوبیا کے بڑھتے خطرات کی روک تھام کیلئے مل کر اقدامات اُٹھانے ہوں گے، اسحاق ڈار
  • پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا:یوسف رضاگیلانی
  • موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ممالک ذمہ دار ریاستوں سے ہرجانے کے حقدار ہیں، عالمی عدالت انصاف کا اہم فیصلہ
  • مصدق ملک کی آذربائیجان میں کوپ 29 کے سربراہ سے ملاقات
  • امریکی ٹیرف میں اضافے کے باعث برآمدات میں کمی کا امکان ہے.ایشیائی ترقیاتی بینک