Express News:
2025-04-25@11:56:50 GMT

پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی سے لاحق خطرات

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

اقوام متحدہ نے تصدیق کی ہے کہ اسے واشنگٹن کی جانب سے پیرس موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے سے دست برداری کی اطلاع موصول ہوئی ہے، جو کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کا ایک اہم وعدہ تھا۔ دوسری جانب پاکستان کے وفاقی وزیر خزانہ اور محصولات محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ماحولیاتی خطرات سے دوچار ممالک میں پہلے دس ممالک میں پاکستان کا شمار ہوتا ہے۔ سال 2030 تک پاکستان کو اپنے موسمیاتی موافقت اور تخفیف کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے 348 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

 مستقبل میں کلائمیٹ چینج کے نتیجے میں خوراک، پانی اور توانائی کی فراہمی متاثر ہوگی، قدرتی وسائل کے حصول کے لیے ممالک اور خطوں کے درمیان مقابلہ شروع ہو جائے گا اور معیشتیں شدید خسارے میں چلی جائیں گی، قدرتی آفات کے تسلسل سے مختلف خطوں اور علاقوں کے لوگ ہجرت پر مجبور ہوں گے۔

یہ مہاجرین غریب ممالک سے ہجرت کرتے ہیں اور قریبی غریب ملکوں میں ہی جاتے ہیں۔ کم آمدنی والے معاشروں میں وسائل کی کمی کے باعث مناسب ڈیٹا مرتب نہیں ہو پاتا، اسی وجہ سے مہاجرین کی آڑ میں ایسے عناصر بھی دوسرے ملکوں میں چلے جاتے ہیں، جو بعد میں ان ممالک کی سیکیورٹی کے مسائل پیدا کر دیتے ہیں۔

 ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل اپنے پہلے دور حکومت میں پیرس معاہدے سے امریکا کو الگ کر لیا تھا، جسے سابق صدر بائیڈن نے الٹ دیا تھا۔ واشنگٹن عام طور پر موسمیاتی تبدیلی کے سیکریٹریٹ کے بجٹ پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کا 22 فیصد فراہم کرتا ہے، جس میں 2024-2025 کے لیے باڈی کے آپریٹنگ اخراجات کا تخمینہ 96.

5 ملین ڈالر ہے۔

سیکریٹریٹ کو موسمیاتی خطرات کے عالمی ردعمل کی حمایت کرنے کا کام سونپا گیا ہے، اور بین الاقوامی موسمیاتی کانفرنسوں کا اہتمام کرتا ہے، جن میں سے اگلی COP30 نومبر میں برازیل میں منعقد ہوگی، یوں امریکا کی فنڈنگ رک جانے سے کلائمیٹ چینج کی کوششوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔

 اقوام متحدہ کے پانی سے متعلق معاملات کو دیکھنے والے مختلف اداروں کو ’’یو این واٹر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یو این واٹر کی ویب سائٹ پر موجود تجزیے کے مطابق پانی اور ماحولیاتی تبدیلی لازم و ملزوم ہیں۔

کلائمیٹ چینج دنیا بھر میں دستیاب پانی کو مختلف اور پیچیدہ طریقے سے متاثر کر رہی ہے۔ ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے مطابق کرہ ارض پر دستیاب 0.5 فیصد قابل استعمال پانی کے معاملے پر بھی مختلف خطوں کا تناؤ ہے، موسمیاتی تبدیلی سے عالمی سطح پر اس کی فراہمی شدید متاثر ہو رہی ہے۔ غیر متوقع بارشیں ہو رہی ہیں، برف کی تہہ سکڑتی جا رہی ہے، سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے اور سیلاب و خشک سالی بڑھ رہی ہے۔

 پاکستان ایک ایسے ملک کے طور پر جانا جاتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔ یہ اثرات نہ صرف ماحولیات بلکہ معیشت، زراعت، اور انسانی صحت پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کا بڑا حصہ زراعت پر منحصر ہے، اور موسمیاتی تبدیلی نے اس شعبے کو خاص طور پر متاثر کیا ہے۔

پانی کی قلت کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں کمی آ رہی ہے۔ گلیشیئرز کے پگھلنے اور بارشوں کے غیر متوازن پیٹرن کی وجہ سے پانی کی دستیابی متاثر ہو رہی ہے جب کہ شدید گرمی، طوفان اور بارشیں فصلوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ یہ غیر معمولی موسمی واقعات فصلوں کے چکر کو بگاڑ رہے ہیں اور کسانوں کو نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بارشوں کے بڑھتے ہوئے واقعات نے سیلابوں کی شدت میں اضافہ کیا ہے۔

سیلابوں نے سڑکوں، پلوں اور عمارتوں کو نقصان پہنچایا ہے، جس سے معیشت متاثر ہو رہی ہے۔ یہ نقصان نہ صرف مالی طور پر تباہ کن ہے بلکہ ترقیاتی منصوبوں میں بھی رکاوٹ ڈال رہا ہے جب کہ ہائیڈرو پاور پروجیکٹس بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ پانی کے بہاؤ میں تبدیلی سے بجلی کی پیداوار میں اتار چڑھاؤ آ رہا ہے، جو ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ فصلوں کی پیداوار میں کمی سے غذائیت کی کمی کا مسئلہ بھی سامنے آ رہا ہے۔ یہ خاص طور پر دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو متاثر کر رہا ہے جہاں غذائی تنوع پہلے سے ہی محدود ہے۔

پاکستان ان 10 ممالک میں سے ایک ہے جو موسمی تبدیلیوں اور قدرتی آفات سے بہت زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ گزشتہ ایک صدی میں پاکستان میں اوسط درجہ حرارت میں صفر اعشاریہ چھ تین ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ دیکھا گیا ہے اور کراچی کے ساحل کے ساتھ سمندر کی سطح میں ایک اعشاریہ ایک ملی میٹر کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اگرچہ 2006 سے 2015 تک سمندر کی سطح میں اضافہ تین اعشاریہ چھ ملی میٹر دیکھا گیا تھا۔ پاکستان کے خشک اور ساحلی علاقوں میں بارش میں 10 سے 15 فیصد کمی آئی ہے، جس کے باعث مینگروو ایکو سسٹم متاثر ہوا ہے، لیکن ساتھ ہی ملک میں تیز بارش میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ ملک میں ہیٹ ویو کے دنوں میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

ایک تازہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ شدید موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی خرابی اور ہوا میں آلودگی سے پاکستان میں 2050 تک ملک کے جی ڈی پی میں 18 سے 20 فیصد کمی ہو سکتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑا نمبر ہے جس سے ملک کی ترقی رک جائے گی۔ اس میں مزید کہا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی ایسا خطرہ ہے جو اس وقت ہمیں درپیش ہے اور جو آنے والی نسلوں کی زندگی تبدیل کر کے رکھ دے گا۔

 پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اس ایک سو کلومیٹر رقبے میں سیلاب سے نہ صرف انسانی آبادیاں، عمارتوں، سڑکوں اور انفرا اسٹرکچر کو نا قابل تلافی نقصان پہنچتا ہے بلکہ اس کے ساتھ کھڑی فصل کے بہہ جانے سے خوراک کی شدید قلت کا خطرہ بھی روز بروز بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات بشمول گلگت بلتستان اور چترال کے بالائی حصوں میں موجود اونچے پہاڑوں کی چوٹی پر برف اور منجمد گلیشیئر بڑھتے درجہ حرارت سے پگھل کر جھیلوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ جب یہ جھیلیں انتہائی سطح پر بھر جاتی ہیں تو اچانک پھٹ جاتی ہیں۔ ان جھیلوں کے پھٹنے کے بعد اونچے پہاڑ کی چوٹی سے لاکھوں گیلن پانی کے ساتھ بڑے بڑے پتھروں کے ساتھ ایک خطرناک سیلاب آتا ہے، جو نیچے موجود پوری وادی کو بہا لے جاتا ہے۔

پاکستان میں جہاں سیلاب کو سب سے بڑا اور نمبر ون خطرہ قرار دیا جارہا ہے، وہیں اسی ملک میں کئی سالوں سے مسلسل جاری خشک سالی کی وجہ سے قحط سالی کو دوسرا بڑا یا نمبر ٹو خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں سالانہ بنیاد پر کم بارشوں کے باعث قحط سالی تواتر سے ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ سیلاب کے باعث کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں، جب کہ نچلے آدھے پاکستان میں زیادہ تر حصہ بارانی ہے یا وہاں بارشوں پر زراعت کی جاتی ہے۔

وہاں مسلسل خشک سالی کی وجہ سے خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور ان علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں، جس سے پاکستان میں موسمیاتی مہاجرین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ سطح سمندر میں اضافہ یا سی لیول رائز پاکستان کا تیسرا بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور پر سندھ میں سمندر کے قریب انسانی آبادی کو سطح سمندر میں اضافے سے شدید خطرہ ہے۔ سندھ کے دارالحکومت اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز کراچی کے ساحل کے ساتھ سمندری سطح میں اضافے کے بعد بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا امکان ہے۔ہیٹ ویو کو پاکستان کے لیے پانچواں بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

جنوبی صوبہ سندھ کے شہر جیکب آباد کو ’’ ایشیا کا گرم ترین‘‘ شہر اور ’’دنیا کے گرم ترین شہروں میں سے ایک‘‘ کا درجہ دیا جارہا ہے۔ یہاں درجہ حرارت بقول ماہرین ’انسانی برداشت سے باہر، ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ جیکب آباد میں موسم سرما میں درجہ حرارت کئی ماہ تک 50 ڈگری سیلسیئس سے زیادہ رہتا ہے۔ 2015 کے موسم گرما کے دوران کراچی شہر میں درجہ حرارت 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔ اس ہیٹ ویو کے دوران سرکاری طور پر 1200 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

 موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے پائیدار زراعت کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔ جدید تکنیکیں جیسے کہ ڈرپ ایریگیشن اور متبادل فصلیں اپنانے سے پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ زرعی شعبے میں تحقیق کو فروغ دینا چاہیے تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے مطابق نئی اقسام اور زرعی طریقے تیار کیے جا سکیں۔ پاکستان میں توانائی کے متبادل ذرایع جیسے کہ شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے مواقعے موجود ہیں۔

پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا کر رہا ہے، لیکن اس چیلنج کو مواقع میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ پائیدار زراعت، متبادل توانائی اور عوامی آگاہی جیسے اقدامات سے ہم اس بحران کا مقابلہ کر سکتے ہیں، اگر ہم مل کر کام کریں تو ہم نہ صرف اپنے ملک بلکہ عالمی سطح پر بھی مثبت تبدیلی لاسکتے ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلی کے پاکستان کے کے باعث رہی ہے ہے اور گیا ہے کے لیے

پڑھیں:

ذیا بیطس کی نئی قسم دریافت؛ٹائپ 5 ذیابیطس قرار دیا

سائنس دانوں نے ذیا بیطس کی نئی قسم دریافت کرلی،جس کو ٹائپ 5 ذیابیطس قراردے دیا ،غذائی قلت سے تعلق رکھنے والی ذیا بیطس کی نئی قسم کو ماہرین کی جانب سے باقاعدہ طور پر تسلیم کر لیا گیا۔

ٹائپ 5 ذیا بیطس نام پانے والی اس قسم سے ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ڈھائی کروڑ لوگ متاثر ہیں۔ یہ عموماً کم اور متوسط آمدنی رکھنے والے ممالک میں غذائی قلت کا شکار نوجوانوں کو متاثر کرتی ہے۔بین الاقوامی ذیا بیطس فیڈریشن (آئی ڈی ایف) نے 8 اپریل کو بینکاک میں منعقد ہونے والی ورلڈ ڈائیبیٹیز کانگریس میں اس کیفیت کو ذیا بیطس کی قسم شمار کرنے کے لیے ووٹنگ کی۔البرٹ آئنسٹائن کالج آف میڈیسن کی پروفیسر میریڈتھ ہاکنز کا کہنا تھا کہ ماضی میں یہ کیفیت بڑے پیمانے پر غیر تشخیص شدہ رہی ہے اور اس کو صحیح طریقے سے سمجھا نہیں گیا ہے۔

آئی ڈی ایف کی جانب سے اس کیفیت کو ’ٹائپ 5 ذیا بیطس‘ قرار دیا جانا صحت کے اس مسئلے کے متعلق آگہی پھیلانے میں ایک اہم قدم ہے۔2022 کی ایک تحقیق کے مطابق عالمی سطح پر 83 کروڑ افراد ذیا بیطس میں مبتلا ہیں جن میں سے اکثریت ٹائپ 1 اور ٹائپ 2 کا شکار ہے۔ذیا بیطس کی دونوں اقسام جسم کی بلڈ شوگر کی سطح کو قابو کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہیں۔ٹائپ 5 ذیا بیطس مختلف ہے اور یہ غذائی قلت کی وجہ سے پیش آتی ہے جس سے انسولین کی پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • این ڈی ایم اے قائمہ کمیٹی کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لیتا: اجلاس میں شکوہ
  • پاکستان دنیا کا 5 واں سب سے زیادہ آب و ہوا کا شکار ملک قرار
  • مصنوعی ذہانت محنت کشوں کے لیے دو دھاری تلوار، آئی ایل او
  • ماحول دوست توانائی کے انقلاب کو روکنا اب ناممکن، یو این چیف
  • قومی شاہراہ سندھ کی مسلسل بندش سے صنعتوں کے بند ہونے کا خطرہ ہے: او آئی سی سی آئی
  • جنوبی ایشیا میں امن ایٹمی خطرات میں کمی اور توازن سے ممکن ہے: چیئرمین جوائنٹ چیفس
  • آبادی میں اضافہ اور موسمیاتی تبدیلی جیسے بڑے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے نجی شعبے کے تعاون کی ضرورت ہے،محمد اورنگزیب
  • موسمیاتی تبدیلی بھی صنفی تشدد میں اضافہ کی وجہ، یو این رپورٹ
  • جنوبی ایشیا میں امن جوہری خطرات میں کمی کے باہمی اقدامات سے ممکن، جنرل ساحر شمشاد مرزا
  • ذیا بیطس کی نئی قسم دریافت؛ٹائپ 5 ذیابیطس قرار دیا