ویب ڈیسک — 

امریکہ کے مشرق وسطی کے لیے ایلچی اسٹیو وٹکوف بدھ کو اسرائیل میں حکام کے ساتھ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ بندی اور معاہدے کے اگلے مرحلے پر بات چیت کر رہے ہیں۔

دورے سے پہلے بات کرتےہوئے وٹکوف نے معاہدے پر مناسب عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا جو 15 ماہ کی طویل جنگ کے بعد عمل میں آیا ہے۔

معاہدے کے تحت پہلے ہی فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے اسرايئل سے اغوا کیے گئے سات یرغمالوں کو رہا کردیا ہےاور اسرائیلی جیلوں سے 300 فلسطینی قیدی رہا کردیے گئے ہیں۔ آئندہ دنوں میں دونوں اطراف سے مزید افراد کی رہائی عمل میں آئے گی۔

وٹکوف کا دورہ ایسے وقت پر ہورہا ہے جب اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر چار فروری کو واشنگٹن آنے والے ہیں۔




پہلے مرحلے میں جنگ بندی 42 روز تک جاری رہے گی جس کا ایک چوتھائی دورانیہ مکمل ہو چکاہے۔اس مرحلے میں معاہدے کے تحت غزہ سے 33 یرغمالوں کو رہا کیا جانا ہے۔

اس کے علاوہ اسی مرحلے میں، اگلے مرحلے کی تفصیلات، باقی یرغمالوں کی رہائی، تنازعہ کے خاتمے اور اسرائیلی فورسز کی غزہ کی پٹی سے واپسی پر مذاکرات ہوں گے۔جو اگلے ہفتے سے شروع ہوں گے۔

اس دوران، جنگ میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو شمالی غزہ میں اپنے گھروں کو لوٹنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔لڑائی کے دوران اسرائیل فوج نے ان علاقوں میں عام لوگوں کا داخلہ روک دیا تھا۔




اقوام متحدہ کے مطابق اس ہفتے 3 لاکھ 75 ہزار فلسطینی شمالی غزہ واپس جا چکے ہیں۔ جنگ کے شروع میں اس علاقے سے دس لاکھ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر تحفظ کے لیے دوسرے مقامات پر چلے گئے تھے۔ واپس آنے پر انہوں نے اپنے علاقے کو اسرائیل کی حماس کے خلاف فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں انتہائی تباہ حال پایا ہے۔

جنگ بندی کے معاہدے کے تحت اقوام متحدہ نے فلسطینیوں کے لیے انسانی ہمدردی کی امداد بڑھانے میں سہولت فراہم کی ہے۔عالمی ادارے کے انسانی ہمدردی کے امور سے متعلق دفتر نے منگل کو کہا تھا کہ امدادی سامان کی ترسیل میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے اور اب امداد ان علاقوں میں بھی پہنچائی جارہی ہے جہاں پہلے اس کے کارکنوں کو رسائی حاصل نہیں تھی۔

آخری مرحلے میں غزہ کی تعمیر نو پر توجہ مرکوز ہو گی۔







No media source now available

تاہم، ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ مستقبل میں غزہ، جس پر حماس 2007 سے حکومت کر رہی ہے، کس کے زیر حکمرانی ہو گا۔

امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو نے منگل کو اپنے مصری ہم منصب بدر عبدلاتی سے بات چیت میں تنازعہ کے بعد کی منصوبہ بندی پر اکٹھے کام کرنے پر زور دیا۔محکمہ خارجہ کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق روبیو نے کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ حماس غزہ پر دوبارہ حکمرانی نہ کرے یا وہ اسرائیل کے لیے خطرہ نہ بن پائے۔

امریکہ، مصر اور قطر نے جنگ بندی کے معاہدے کو ممکن بنانے کے لیے کئی ماہ پر محیط کلیدی ثالثی کردار ادا کیا۔ صدر ٹرمپ کی اس تجویز پر تنقید کی جارہی ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کو بڑی تعداد میں اردن اور مصر بھیج دیا جائے۔







No media source now available

اردن اور مصر نے اس تجویز کو مسترد کردیا ہے کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ فلسطینی پنا گزینوں کی نقل مکانی مستقل ہو جائے گی ۔

غزہ میں جنگ حماس کے سات اکتوبر 2023 کے اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر حملے کے بعد شروع ہوئی۔ امریکہ اور بعض مغربی ملکوں نے حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔

اسرائیلی حکام کے مطابق اس دہشت گرد حملے میں تقریباً 1,200 لوگ ہلاک ہوگئے جبکہ حماس نے 250 کے قریب افراد کو یرغمال بنا لیا۔

حماس کے زیر انتظام غزہ کے صحت کے حکام کے مطابق اسرائیل کے جوابی حملوں میں اب تک 47,300 فلسطینی لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے اس جنگ میں 17,000 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا تھا۔

(اس خبر میں شامل معلومات اے پی، اے ایف پی اور رائٹرز سے لی گئی ہیں)

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان کھیل اسرائیل کے معاہدے کے مرحلے میں کے مطابق حماس کے کے لیے

پڑھیں:

امریکہ نئے دلدل میں

اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ یمن پر بڑے پیمانے پر فوجی حملے کے آغاز میں مبالغہ آمیز دعوے کرنیوالے ڈونلڈ ٹرمپ کو اب یمن پر حملے کی قیمت چکانا پڑے گی۔ ایک عالمی سپر پاور کا یمن کے مجاہدین نے جس طرح مقابلہ کیا ہے، اس نے خطے سمیت عالمی سطح پر امریکی جنگی رعب کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی صدارت کے پہلے سو دنوں میں ہونیوالی دیگر ناکامیوں کی فہرست میں یمن کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ تحریر: سید رضا میر طاہر

یمن کے خلاف امریکی فوجی آپریشن کے آغاز کے چند ہفتوں کے بعد امریکی میڈیا نے ٹرمپ انتظامیہ کی اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے آپریشن کے سنگین مسائل کی نشاندہی کی ہے۔ 22 اپریل کو امریکی میگزین فارن پالیسی نے "حوثیوں کے خلاف ٹرمپ کی جنگ بے نتیجہ" کے عنوان سے ایک مضمون میں یمن میں انصار اللہ فورسز کے ٹھکانوں پر امریکی بحریہ کے غیر موثر حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے حوثیوں پر حملوں میں اضافے کے پانچ ہفتے بعد، ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے کئی بڑی مشکلات پیدا ہوچکی ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یمن کے خلاف بیان بازی کے حقیقی نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ امریکی حملے اب تک اپنے دو بیان کردہ اہداف میں سے کسی ایک کو بھی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں، یعنی بحیرہ احمر میں جہاز رانی کی آزادی کو بحال کرنا اور ڈیٹرنس کو دوبارہ قائم کرنا۔

امریکی حملوں کے باوجود بحیرہ احمر اور سویز کینال کے راستے جہاز رانی کم ہے، جس پر اب تک امریکہ کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوچکا ہے۔ یمنی ملیشیا نے بھی خطے میں اسرائیل اور امریکی جنگی جہازوں پر اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں اور ٹرمپ کے یمن کے "دلدل" میں داخل ہونے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ یمن کی سپریم پولیٹیکل کونسل اور نیشنل ڈیفنس کونسل کے سربراہ مہدی المشاط نے 20 اپریل کو کہا ہے کہ یمن پر امریکی حملہ پہلے دن سے ہی ناکام ہوگیا ہے۔ امریکہ کو اس کے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والے اقدامات کی سزا دی جائے گی۔ ٹرمپ ہمیں اس دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں امریکہ کو اس دلدل میں رہنے کے لیے چھوڑ دینا چاہیئے۔ امریکی عوام کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ٹرمپ نے امریکہ کو ناکامی سے دوچار کر دیا ہے۔

اس آپریشن پر اب تک امریکہ کو 1 بلین ڈالر سے زیادہ کی لاگت آئی ہے جبکہ دوسری طرف مزاحمت جاری ہے اور یمنیوں نے اسرائیل اور امریکی جنگی جہازوں پر اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع ان حملوں کے بارے میں شفاف نہیں رہا ہے اور اس نے میڈیا کو بہت کم معلومات فراہم کی ہیں۔ یمن پر امریکی حملوں سے متعلق خفیہ معلومات کے افشا ہونے سے ملک کی عسکری قوتوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ امریکہ کے ممتاز امریکی ذرائع ابلاغ نے بھی یمن کی فوج اور ہتھیاروں کی صلاحیتوں کو تباہ کرنے کے بارے میں امریکی محکمہ دفاع کے دعووں پر سوال اٹھایا ہے۔ اس حوالے سے CNN نے پینٹاگون کے ایک اہلکار کے حوالے سے خبر دی ہے کہ تحریک انصار اللہ کے پاس باقی ماندہ ہتھیاروں کی صحیح مقدار کا تعین کرنا مشکل ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ انصار اللہ کے کچھ ٹھکانے تباہ ہوگئے ہیں، لیکن اس سے بحیرہ احمر میں حملے جاری رکھنے کی ان کی صلاحیت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔ سی این این نے مذکورہ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی حکام نے اعتراف کیا ہے کہ انصار اللہ اب بھی زیر زمین قلعہ بندی اور ہتھیاروں کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔ بہرحال ایسا لگتا ہے کہ یمن پر بڑے پیمانے پر فوجی حملے کے آغاز میں مبالغہ آمیز دعوے کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کو اب یمن پر حملے کی قیمت چکانا پڑے گی۔ ایک عالمی سپر پاور کا یمن کے مجاہدین نے جس طرح مقابلہ کیا ہے، اس نے خطے سمیت عالمی سطح پر امریکی جنگی رعب کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی صدارت کے پہلے سو دنوں میں ہونے والی دیگر ناکامیوں کی فہرست میں یمن کو بھی شامل کرنا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ نئے دلدل میں
  • امریکہ سب سے بڑا دہشت گرد ہے، حافظ نعیم الرحمان
  • کل کی ہڑتال اسرائیل‘ بھارت‘ امریکہ پر مشتمل شیطانی ٹرائی اینگل کیخلاف: حافظ نعیم
  • پاکستان کا امریکی خام تیل درآمد کرنے پر غور
  • چین پر عائد ٹیرف میں کمی چینی قیادت پر منحصر ہوگی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • پاکستان کا امریکی خام تیل درآمد کرنے پر سنجیدہ غور
  • امریکا کا ایشیائی ممالک کی سولر مصنوعات پر 3521 فیصد ٹیکس کا اعلان
  • امریکی صدر ٹرمپ اگلے ماہ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کریں گے
  • غزہ میں مستقل جنگ بندی کی راہ میں اسرائیل بڑی رکاوٹ ہے، قطر
  • قطری اور مصری ثالثوں کی جانب سے غزہ میں 7 سالہ جنگ بندی کا نیا فارمولا تجویز