راکیش روشن کا انکشاف: کرن ارجن کی شوٹنگ کے دوران سلمان خان اور شاہ رخ خان نے بہت تنگ کیا‘‘
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
معروف فلمساز راکیش روشن کی فیملی پر مبنی نیٹ فلکس کی ڈاکیومنٹری "The Roshans" کو زبردست پذیرائی مل رہی ہے۔
اس دستاویزی فلم میں جہاں شاہ رخ خان نے اپنی یادیں شیئر کیں، وہیں سلمان خان کی غیر موجودگی نے سب کی توجہ حاصل کر لی۔
ایک خصوصی انٹرویو میں راکیش روشن نے نہ صرف سلمان کی غیر موجودگی کی وجہ بتائی بلکہ فلم "کرن ارجن" کی شوٹنگ کے دوران شاہ رخ خان اور سلمان خان کی شرارتوں پر بھی روشنی ڈالی۔
راکیش روشن نے بتایا کہ شاہ رخ اور سلمان سیٹ پر بہت شرارتیں کرتے تھے، جس سے شوٹنگ متاثر ہوتی تھی۔
انہوں نے کہا: "وہ دونوں جوان تھے، بس مزہ کر رہے تھے، لیکن پھر دوسرے اداکار بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ جب میں سین لینے جاتا تو کوئی بھی سین میں نہیں ہوتا۔ وہ جان بوجھ کر مجھے غصہ دلانے کی کوشش کرتے تھے، مگر میں نے کبھی اپنا غصہ نہیں دکھایا۔ ہر صبح دعا کرتا تھا کہ آج اپنا آپا نہ کھو بیٹھوں!"
جب ان سے پوچھا گیا کہ سلمان خان اس ڈاکیومنٹری میں کیوں نظر نہیں آئے، تو راکیش روشن نے وضاحت کی: "میں نے سلمان کو 4-5 بار فون کیا، مگر شاید وہ کسی مصروفیت میں تھے۔ میں نے انہیں مجبور نہیں کیا۔"
شاہ رخ خان نے بھی دستاویزی فلم میں "کرن ارجن" کی شوٹنگ کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہا: "ہم دونوں بہت شرارتیں کرتے تھے۔ پنکی جی (راکیش روشن کی اہلیہ) مجھے ڈانٹتی تھیں کہ 'تم گڈو (راکیش روشن) کو بہت تنگ کر رہے ہو!' لیکن سلمان زیادہ شرارتی تھا، میں تو صرف سامنے سے شریف لگتا تھا!"
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: راکیش روشن شاہ رخ خان
پڑھیں:
پوتا پوتی انور کہہ کر بلاتے ہیں، انور مقصود کا بچوں سے دوستی کا انوکھا فلسفہ
پاکستان کے نامور ادیب، مزاح نگار اور دانشور انور مقصود نے حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ میں شرکت کی جس میں اُن کی گفتگو نے نہ صرف ناظرین کو مسکرانے پر مجبور کیا بلکہ کئی گہرے معاشرتی پہلوؤں پر سوچنے کی راہیں بھی کھول دیں۔
گوہر رشید کے ساتھ اس بےتکلف نشست میں انور مقصود نے زندگی، رشتوں، تنقید، تعریف اور معاشرے کے رویوں پر اپنے مخصوص شائستہ انداز میں خیالات کا اظہار کیا۔
گفتگو کے دوران انور مقصود نے بتایا کہ ان کا اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں سے رشتہ محض ایک بزرگ کا نہیں بلکہ دوستی پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بچے انہیں اُن کے نام سے پکارتے ہیں تو انہیں خوشی ہوتی ہے، عجیب نہیں لگتا۔ ان کے بقول، جب وہ بچوں سے پوچھتے ہیں کہ "مجھے انور کیوں کہتے ہو؟" تو وہ معصومیت سے جواب دیتے ہیں کہ "آپ ہمیں ہمارے نام سے کیوں پکارتے ہیں؟" انور صاحب نے کہا کہ بچوں کے ساتھ دوستی کرنا ہی اُن سے محبت کا سب سے خوبصورت طریقہ ہے، اور یہی ہر رشتے کی بنیاد ہونی چاہیے۔
تنقید کے رویے پر بات کرتے ہوئے انور مقصود نے کہا کہ اکثر لوگ دوسروں پر تنقید اس لیے کرتے ہیں تاکہ اپنی کمزوریاں چھپا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ خود کچھ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے، وہ دوسروں کی کامیابی کو دیکھ کر تنقید کا راستہ اپناتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر کسی شعبے کا ماہر شخص تعمیری تنقید کرے تو وہ قابل غور ہوتی ہے، لیکن اگر تنقید کرنے والا متعلقہ فن سے ناواقف ہو تو وہ صرف حسد کی علامت ہے۔
معاشرتی تضادات پر بات کرتے ہوئے انور مقصود نے ایک دلچسپ مشاہدہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں دیواروں پر نظر دوڑائی جائے تو مردانہ طاقت کے اشتہارات عام نظر آتے ہیں، لیکن کہیں یہ نہیں لکھا ہوتا کہ خواتین کی طاقت بڑھائیں۔ ان کے بقول یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشرے میں مرد خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ طاقت کے دعوے صرف مردوں کے لیے کیے جاتے ہیں۔
انور مقصود کی یہ گفتگو سوشل میڈیا پر بھی موضوعِ بحث بنی، جہاں ناظرین نے ان کے انداز، بصیرت اور معاشرتی تنقید کو سراہا۔ ان کے جملے، چاہے طنز کے پیرائے میں ہوں یا محبت بھرے انداز میں، ہمیشہ سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتے ہیں اور دیر تک سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔