سعودی شہریوں نے ایک ہفتہ میں کتنی رقم خرچ کر ڈالی؟ جان کر حیران رہ جائیں
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
سعودی عرب میں شہریوں اور وہاں مقیم غیر ملکی افراد نے ایک ہفتہ میں کتنی رقم خریداری پر خرچ کی یہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے۔سعودی سینٹرل بینک ساما نے مملکت کے شہریوں اور مقیم غیر ملکی افراد کی جانب سے گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران شاپنگ پر کیے گئے اخراجات کے اعداد وشمار جاری کیے ہیں۔
سبق ویب سائٹ کے مطابق ساما بینک کی جانب سے جاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 19 سے 25 جنوری کی مدت کے دوران سعودی شہریوں اور مقیم غیر ملکیوں نے 11 بلین ریال سے زائد (پاکستانی 8 کھرب، 17 ارب، 63 کروڑ سے زائد) خریداری پر خرچ کیے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سب سے زیادہ ریاض کے رہائشیوں نے خریداری کی جس کا مجموعی حجم 4 بلین ریال سے زائد ہے۔ مکہ مکرمہ ریجن میں بھی 4 بلین جب کہ میدینہ منورہ مین 3 بلین ریال کی خریداری کی گئی۔
سعودی شہریوں نے سب سے زیادہ پٹرول کی خریداری پر 835 ملین ریال خرچ کیے۔ صحت سے متعلق اخراجات پر 723 ملین ریال جب کہ کپڑوں اور جوتوں کی خریداری پر 614 ملین ریال خرچ کیے گئے۔اس کے علاوہ تعمیراتی سامان کی خریداری پر 330 ملین، الیکٹرانک اشیا پر 145 ملین اور تعلیم پر 141 ملین ریال خرچ کیے گئے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ملین ریال خرچ کیے خرچ کی
پڑھیں:
انسان کے مزاج کتنی اقسام کے، قدیم نظریہ کیا ہے؟
انسان کو سمجھنا ہمیشہ سے ایک معمہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں پہلے بھی لوگوں نے انسانی فطرت کو مختلف خانوں میں بانٹنے کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیں: کتے انسانوں کے دوست کتنے ہزار سال پہلے بنے؟
شخصیت کو 4 بنیادی اقسام میں تقسیم کرنے کا ایسا ہی ایک قدیم نظریہ جسے ’4 مزاج‘ یا (فور ہیومرز) کہا جاتا ہے تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے یونان میں متعارف ہوا لیکن اس کی گونج آج بھی جدید نفسیات میں سنائی دیتی ہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس نظریے نے صدیوں تک نہ صرف طب، خوراک اور طرز زندگی کو متاثر کیا بلکہ انسان کے جذبات اور رویوں کو سمجھنے کا ایک مستقل ذریعہ بھی بن گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ سائنسی لحاظ سے اس کی بنیادیں اب غلط تسلیم کی جا چکی ہیں لیکن اس نظریے کی جھلک آج کے ماڈرن نفسیاتی ماڈلز میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
یونانی فلسفی ایمپیدوکلیز نے 4 عناصر زمین، پانی، ہوا اور آگ کو کائنات کی بنیاد قرار دیا اور بعد ازاں طبیب ہپوکریٹس نے اس سے متاثر ہوکر انسانی جسم کے اندر 4 مائعات کا نظریہ پیش کیا جو مندرجہ ذیل ہے۔
خون (Sanguine): خوش مزاج اور پُرجوش
بلغم (Phlegmatic): ٹھنڈے مزاج اور نرم طبیعت
پیلا صفرا (Choleric): غصیلا اور ضدی
سیاہ صفرا (Melancholic): افسردہ اور گہری سوچ رکھنے والا
مزید پڑھیے: 3 ہزار سال قبل یورپی باشندوں کی رنگت کیسی ہوتی تھی؟
ان مزاجوں کو جسم کی حرارت اور نمی کے ساتھ جوڑا گیا جیسے گرم و خشک مزاج والے چولیرک (Choleric) سمجھے گئے جبکہ سرد و مرطوب لوگ فلیگمیٹک (Phlegmatic) کہلائے۔
یہ نظام قرون وسطیٰ اور شیکسپیئر کے دور میں بھی رائج تھا۔ مثلاً شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے’دی ٹیمنگ آف دی شریو‘ میں کردار کیتھرین کے بگڑے رویے کو ’پیلے صفرے‘ کی زیادتی سے جوڑا گیا اور علاج کے طور پر اسے گرم کھانوں سے دور رکھا گیا۔
قدیم نظریہ، جدید عکس19ویں صدی میں جسمانی تحقیق، خوردبین کی ایجاد اور جدید طب کے باعث 4 مزاجوں کا نظریہ سائنسی طور پر متروک ہو گیا لیکن اس کے اثرات باقی رہے۔
سنہ 1950 کی دہائی میں معروف ماہر نفسیات ہینس آیزنک نے شخصیت کے 2 بنیادی پہلو متعارف کرائے جن میں ایکسٹروورژن (باہر کی جانب رجحان) اور نیوروٹسزم (جذباتی بےچینی) شامل تھے۔
انہوں نے پایا کہ ان 2 عناصر کو مختلف انداز میں ملا کر جو 4 اقسام بنتی ہیں وہ حیرت انگیز طور پر قدیم مزاجوں سے میل کھاتی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں
زیادہ نیوروٹک + زیادہ ایکسٹروورٹ = چولیرک
زیادہ نیوروٹک + کم ایکسٹروورٹ = میلینکولک
کم نیوروٹک + زیادہ ایکسٹروورٹ = سینگوئن
کم نیوروٹک + کم ایکسٹروورٹ = فلیگمیٹک
یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ انسانی شخصیت میں کچھ مستقل پیٹرن موجود ہیں اب چاہے انہیں مزاج کہیں یا جدید سائنسی اصطلاحات۔
شخصیت کو زمرہ بنانا: فائدہ یا فریب؟جدید ماڈل جیسے کہ ’بگ فائیو‘ جو شخصیت کی 5 بنیادی جہتوں (اوپننس، کانشسنیس، ایکسٹروورژن، اگری ایبلنس، نیوروٹسزم) پر مشتمل ہے۔ اب زیادہ سائنسی طور پر مستند سمجھے جاتے ہیں لیکن ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ ’کٹیگریز بنانے کی انسانی خواہش اب بھی موجود ہے جیسا کہ میئرز برگز یا آن لائن کوئزز سے ظاہر ہے۔
مزید پڑھیں: جرمنی کا صدیوں پرانا شاہ بلوط کا درخت پریمیوں کا پیغام رساں کیسے بنا؟
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہ نظام بعض اوقات انسانی پیچیدگی کو بہت حد تک سادہ کر دیتے ہیں۔ درحقیقت زیادہ تر لوگ شخصیتی پیمائش میں اوسط کے قریب ہوتے ہیں اور کٹیگری سسٹم ان اختلافات کو مکمل طور پر نہیں سمجھا سکتا۔
لیکن جیسے شیکسپیئر ’چولیرک‘ اور ’سینگوئن‘ کرداروں سے محظوظ ہوتا تھا ویسے ہی آج کا انسان ’ٹائپ اے‘، ’ای این ٹی جے‘ یا ’ورگو‘ جیسی درجہ بندیوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔
ماہر نفسیات پامیلا رٹلج کہتی ہیں کہ انسانی فطرت میں درجہ بندی کی خواہش فطری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمیں دنیا کو سمجھنے، سیکھنے اور اس سے تعامل کرنے میں مدد دیتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اظہار محبت کے خفیہ اشارے: کیا ایموجیز صدیوں پرانے کوڈ ورڈز کا تسلسل ہیں؟
پامیلا کا کہنا ہے کہ یہ نظریہ ہزاروں سال پرانا ہے لیکن آج بھی ہماری سوچ میں زندہ ہے۔
بہرحال 4 مزاجوں کا یہ قدیم نظریہ آج اگرچہ سائنسی طور پر مستند نہیں رہا لیکن یہ اس انسانی فطرت کی عکاسی ضرور کرتا ہے جو ہر دور میں خود کو، دوسروں کو اور دنیا کو سمجھنے کے لیے چیزوں کو خانوں میں بانٹنے کی کوشش کرتی ہے۔ خواہ زبان بدلے یا نظریہ انسان کا یہ تجسس اور تلاش اور خود فہمی کی یہ جستجو آج بھی جاری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
4 مزاج انسانی فطرت چار مزاج یونانی فلسفی ایمپیدوکلیز