اسلام ٹائمز: نشست سے خطاب کرتے ہوئے کراچی پریس کلب، سیاسی رہنماؤں، سول سوسائٹی اور صحافتی تنظیموں کے عیدیداران نے کہا کہ سوشل میڈیا کے اپنے بہت مسائل ہیں، پیکا ایکٹ سے یوں لگتا ہے کہ ٹی وی کی ناکامی کے بعد سوشل میڈیا کو چپ کروایا جارہا ہے، صحافیوں سے بھی گلا ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا کو بھی غلط طریقے سے استعمال کیا ہے، جنہوں نے اٹھانا ہوتا ہے ان کو قانون کا کچھ لینا دینا نہیں ہوتا، اس ایکٹ میں ترامیم کی ضرورت ہے۔ خصوصی رپورٹ

کراچی پریس کلب میں ہونے والے سیمینار نے پیکا کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا، کراچی پریس کلب اس سلسلے میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد باقاعدہ تحریک کا آغاز کرے گا جو اس قانون کے واپس لیے جانے تک جاری رہے گی۔ کراچی پریس کلب کے تحت ایک بامعنی گفتگو جس کا عنوان ''سچائی کا دفاع، آزادی کا تحفظ'' پییکا ترمیمی بل 2025ء کے پس منظر میں میڈیا کا مستقبل کی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کراچی پریس کلب، سیاسی رہنماؤں، سول سوسائٹی اور صحافتی تنظیموں نے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام (پیکا) ایکٹ کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے کہا کہ پیکا ایکٹ آزادی اظہار رائے پر قدعن ہے، وفاقی حکومت سے اس ایکٹ کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں، پیکا ایکٹ کے خلاف ہر فورم احتجاج سمیت قانونی و تمام آپشنز کا استعمال مشترکہ مشاورت سے کیا جائے گا، اگر حکومت کو میڈیا کے حوالے سے قوانین بنانے ہیں تو وہ ڈائیلاگ کا اہتمام کرے، مشترکہ تجاویز کی روشنی میں پارلیمان سے قانون پاس کرائے، ہم سمجھتے ہیں کہ میڈیا کو بھی مادر پدر آزادی نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اس میں ایک ایڈیٹوریل میکینزم ہونا چاہیئے، توقع کرتے ہیں حکومت پیکا ایکٹ میں ترامیم کے لیے صحافتی تنظیموں سے رابطے کرے گی۔

نشست سے پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی، کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی، سیکرٹری سہیل افضل خان، سینئر صحافی ظفر عباس، سینئر صحافی اظہر عباس، بیرسٹر صلاح الدین، سول سوسائٹی کے ڈاکٹر توصیف احمد، سابق صدر پریس کلب سعید سربازی، فرحان ملک سمیت دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ سابق چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے پیکا ایکٹ کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے کہا کہ کنٹرولڈ میڈیا اور سوشل میڈیا پر مزید قدغن لگے گی، مزاحمت کا کلچر ختم ہوچکا ہے اب مفاہمت کی جاتی ہے۔ میاں رضا ربانی نے کہا کہ جب بھی پارلیمان کے اندر کوئی بل پیش کیا جاتا ہے اس پر بحث کرنے کے بجائے رسمی طور پر بل کو اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھیج دیا جاتا ہے، دونوں پارلیمان پر بحث کے بغیر ہی منظور کرلیا جاتا ہے، اس عمل کا ذمہ دار صرف سیاست دان ہی نہیں سوسائٹی بھی ہے کیونکہ ہمارے ہاں مزاحمت کا کلچر ختم ہوچکا ہے، قانون سازی کے حوالے سے پارلیمان کی وقعت ختم ہوچکی ہے، میں صحافیوں کے ساتھ کھڑا ہوں، جدوجہد کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔

صدر پریس کلب فاضل جمیلی نے کہا کہ ن لیگ چاہتی تھی کہ پیکا قانون بنے لیکن اس میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہوگئی، صدر مملکت نے پیکا ایکٹ کو پاس کیا اب یہ قانون بن گیا ہے، یہ ایکٹ آزادی اظہار رائے کے منافی ہے۔ سہیل افضل خان نے کہا کہ پیکا بل ہماری توقع سے پہلے ہی پاس ہوگیا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ حکومتیں قوانین کے لیے الفاظ اچھے استعمال کرتے ہیں لیکن الفاظ کی آڑ میں آوازوں پر قدغن لگ  گئی ہے۔ سینئر صحافی اظہر عباس نے اس موقع پر کہا کہ پیکا ایکٹ بنادیا گیا ہے دو چیزیں ہیں اس کا عمل ورکنگ جنرنلسٹ پر ہوگا، معاشرے پر اس کا اثر ہوگا، حکومت نے اس قانون پر ہم سے بات چیت نہیں کی، سابق حکومت نے ہمیں اس قانون کے حوالے سے ورکنگ پیپر دیا تھا اس پر ہم سے بات ہوئی تھی، اس بار تو ایساہوا ہی نہیں۔ انہوں نے نہ کوئی مسودہ دیا، دو گھنٹے پہلے ہم سے رابطہ کیا، ہم نے اپنی تجویزیں دی تو اس سے پہلے ہی قومی اسمبلی سے قانون پاس کردیا گیا، اس ایکٹ کے بعد کوئی اختلاف رائے نہیں کرسکتا ہے، اس کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، ایسے قانون کو سول سوسائٹی اور اسٹیک ہولڈرز کی رائے سے بنانا چاہیئے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ہمیں کلیئر ہونا چاہیئے کہ یہ ترامیم وغیرہ سیاسی جماعتیں نہیں کروا رہی ہیں بلکہ کوئی اور کررہے ہیں، یہ پیپلز پارٹی وہ پارٹی نہیں رہی بلکہ اب ہر کوئی دیکھ رہا ہے وہ کتنی سروس دے رہی ہے، 2017ء میں پہلی بار پیکا ترمیم کا مسئلہ سامنے آیا تھا، اس زمانے میں ایف آئی اے نے اٹھایا تھا لوگوں کو، عمران خان کے دور میں اس کو مزید مضبوط کیا گیا، جب پی ٹی آئی کے بلے والا مسئلہ آیا تھا اس میں ایف آئی نے 100 سے زائد افراد کو اٹھایا، اس پر جے آئی ٹی بنی جس میں اداروں  کے نمائندے تھے میں نے سپریم کورٹ میں اس کو چیلنج کیا تھا، سپریم کورٹ میں میرا یہ نکتہ تھا کہ ایک انسان تو یہ قانون کا سہارا لے سکتا ہے مگر ادارہ نہیں کرسکتا ہے، خفیہ اداروں کا جے آئی ٹی میں بیٹھنا صرف صحافیوں کو ڈرانے کے لیے تھا، اب تو سائبر کرائم کا ادارہ انکوائری کرکے گرفتار کرسکتا ہے، اس قانون میں ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے جو سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو ریگولیٹ کرے گا، اس قانون میں ان تمام اداروں یا افراد پر تنقید نہیں کرسکتے جس پر صحافی رپورٹنگ کرتے ہیں، پیکا ایکٹ کے بعد اب کسی اختلاف رائے بھی نہیں کرسکتے ہیں، معاشرے کی اصلاح کے لیے مثبت تنقیدضروری ہے۔
 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کو کالا قانون قرار صحافتی تنظیموں کراچی پریس کلب سول سوسائٹی سوشل میڈیا پیکا ایکٹ نے کہا کہ کرتے ہیں کہ پیکا نے پیکا ایکٹ کو گیا ہے کے بعد کے لیے

پڑھیں:

کراچی چیمبر کے غیر معمولی اجلاس عام کا انعقاد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250916-06-5

 

کراچی (کامرس رپورٹر)کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری(کے سی سی آئی) کے صدر محمد جاوید بلوانی نے اعلان کیا ہے کہ کے سی سی آئی کی جنرل باڈی نے متفقہ طور پر چیمبر کے میمورنڈم اور آرٹیکلز آف ایسوسی ایشن میں اہم ترامیم کو متعدد خصوصی قراردادوں کے ذریعے منظور کر لیا ہے جو ٹریڈ آرگنائزیشنز ایکٹ، قوانین اور کمپنیز ایکٹ 2017 کے مطابق ہیں۔انہوں نے مجید باوانی آڈیٹوریم میں منعقدہ غیر معمولی جنرل باڈی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن کراچی چیمبر کی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ ہم نے اپنی آئینی فریم ورک کو بدلتے ہوئے کاروباری تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ قانونی و ریگولیٹری تقاضوں کے مطابق ڈھال لیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ یہ ترامیم کے سی سی آئی کے مقاصد کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ گورننس کو مزید مضبوط بنائیں گی اور کراچی چیمبر کو ٹریڈ آرگنائزیشنز ایکٹ 2022 اور 2025 کی ترامیم اور کمپنیز ایکٹ 2017 کے تقاضوں سے مکمل ہم آہنگ کریں گی۔یہ ترامیم ہمیں پاکستان بھر میں بالخصوص کراچی میں تجارت و صنعت کے فروغ کے لیے مزید مؤثر طریقے سے کام کرنے کے قابل بنائیں گی۔ انہوں نے ممبران کو بتایا کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ٹریڈ آرگنائزیشنز (ڈی جی ٹی او)کی ہدایات کے مطابق یہ ترامیم کرنا ضروری تھا جسے ٹریڈ آرگنائزیشنز ایکٹ و رولز 2013، کمپنیز ایکٹ 2017 اور بعد ازاں 2022 اور 2025 کی ترامیم نیز ایس آر او 525 کے تحت جاری کردہ قانونی ٹیمپلیٹ کے مطابق تیار کیا گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کرغیزستان: نئے میڈیا قانون کے تحت دو صحافیوں کو قید کی سزا
  • مالدیپ : میڈیا کی نگرانی کیلیے طاقتور کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ
  • کالا باغ ڈیم پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، ڈیم اور بیراج بننے چاہئیں، سعد رفیق
  • مالدیپ میں متنازع بل منظور، صحافتی آزادی پر قدغن کے خدشات
  • پی سی بی نے میچ ریفری کو نہ ہٹانے سے متعلق بھارتی میڈیا کا دعویٰ مسترد کردیا
  • آئی سی سی نے پاکستان کا مطالبہ مسترد کرکے بورڈ کو آگاہ کردیا، پی سی بی ایونٹ سے دستبرداری کے مؤقف پر قائم
  • نیتن یاہو نے دوحہ پر حملے سے 50 منٹ پہلے ٹرمپ کو آگاہ کردیا تھا، امریکی میڈیا کا انکشاف
  • ایشیا کپ: آئی سی سی نے اینڈی پائیکرافٹ کی تبدیلی کا مطالبہ مسترد کردیا، بھارتی میڈیا
  • آئی سی سی نے میچ ریفری کو ہٹانے کی پاکستان کی درخواست مسترد کردی: بھارتی میڈیا کا دعویٰ
  • کراچی چیمبر کے غیر معمولی اجلاس عام کا انعقاد