صحافتی تنظیموں نے پیکا کو کالا قانون قرار دے کر مسترد کردیا
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
اسلام ٹائمز: نشست سے خطاب کرتے ہوئے کراچی پریس کلب، سیاسی رہنماؤں، سول سوسائٹی اور صحافتی تنظیموں کے عیدیداران نے کہا کہ سوشل میڈیا کے اپنے بہت مسائل ہیں، پیکا ایکٹ سے یوں لگتا ہے کہ ٹی وی کی ناکامی کے بعد سوشل میڈیا کو چپ کروایا جارہا ہے، صحافیوں سے بھی گلا ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا کو بھی غلط طریقے سے استعمال کیا ہے، جنہوں نے اٹھانا ہوتا ہے ان کو قانون کا کچھ لینا دینا نہیں ہوتا، اس ایکٹ میں ترامیم کی ضرورت ہے۔ خصوصی رپورٹ
کراچی پریس کلب میں ہونے والے سیمینار نے پیکا کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا، کراچی پریس کلب اس سلسلے میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد باقاعدہ تحریک کا آغاز کرے گا جو اس قانون کے واپس لیے جانے تک جاری رہے گی۔ کراچی پریس کلب کے تحت ایک بامعنی گفتگو جس کا عنوان ''سچائی کا دفاع، آزادی کا تحفظ'' پییکا ترمیمی بل 2025ء کے پس منظر میں میڈیا کا مستقبل کی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کراچی پریس کلب، سیاسی رہنماؤں، سول سوسائٹی اور صحافتی تنظیموں نے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام (پیکا) ایکٹ کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے کہا کہ پیکا ایکٹ آزادی اظہار رائے پر قدعن ہے، وفاقی حکومت سے اس ایکٹ کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں، پیکا ایکٹ کے خلاف ہر فورم احتجاج سمیت قانونی و تمام آپشنز کا استعمال مشترکہ مشاورت سے کیا جائے گا، اگر حکومت کو میڈیا کے حوالے سے قوانین بنانے ہیں تو وہ ڈائیلاگ کا اہتمام کرے، مشترکہ تجاویز کی روشنی میں پارلیمان سے قانون پاس کرائے، ہم سمجھتے ہیں کہ میڈیا کو بھی مادر پدر آزادی نہیں ہونا چاہیئے بلکہ اس میں ایک ایڈیٹوریل میکینزم ہونا چاہیئے، توقع کرتے ہیں حکومت پیکا ایکٹ میں ترامیم کے لیے صحافتی تنظیموں سے رابطے کرے گی۔
نشست سے پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی، کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی، سیکرٹری سہیل افضل خان، سینئر صحافی ظفر عباس، سینئر صحافی اظہر عباس، بیرسٹر صلاح الدین، سول سوسائٹی کے ڈاکٹر توصیف احمد، سابق صدر پریس کلب سعید سربازی، فرحان ملک سمیت دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ سابق چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے پیکا ایکٹ کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے کہا کہ کنٹرولڈ میڈیا اور سوشل میڈیا پر مزید قدغن لگے گی، مزاحمت کا کلچر ختم ہوچکا ہے اب مفاہمت کی جاتی ہے۔ میاں رضا ربانی نے کہا کہ جب بھی پارلیمان کے اندر کوئی بل پیش کیا جاتا ہے اس پر بحث کرنے کے بجائے رسمی طور پر بل کو اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھیج دیا جاتا ہے، دونوں پارلیمان پر بحث کے بغیر ہی منظور کرلیا جاتا ہے، اس عمل کا ذمہ دار صرف سیاست دان ہی نہیں سوسائٹی بھی ہے کیونکہ ہمارے ہاں مزاحمت کا کلچر ختم ہوچکا ہے، قانون سازی کے حوالے سے پارلیمان کی وقعت ختم ہوچکی ہے، میں صحافیوں کے ساتھ کھڑا ہوں، جدوجہد کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔
صدر پریس کلب فاضل جمیلی نے کہا کہ ن لیگ چاہتی تھی کہ پیکا قانون بنے لیکن اس میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہوگئی، صدر مملکت نے پیکا ایکٹ کو پاس کیا اب یہ قانون بن گیا ہے، یہ ایکٹ آزادی اظہار رائے کے منافی ہے۔ سہیل افضل خان نے کہا کہ پیکا بل ہماری توقع سے پہلے ہی پاس ہوگیا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ حکومتیں قوانین کے لیے الفاظ اچھے استعمال کرتے ہیں لیکن الفاظ کی آڑ میں آوازوں پر قدغن لگ گئی ہے۔ سینئر صحافی اظہر عباس نے اس موقع پر کہا کہ پیکا ایکٹ بنادیا گیا ہے دو چیزیں ہیں اس کا عمل ورکنگ جنرنلسٹ پر ہوگا، معاشرے پر اس کا اثر ہوگا، حکومت نے اس قانون پر ہم سے بات چیت نہیں کی، سابق حکومت نے ہمیں اس قانون کے حوالے سے ورکنگ پیپر دیا تھا اس پر ہم سے بات ہوئی تھی، اس بار تو ایساہوا ہی نہیں۔ انہوں نے نہ کوئی مسودہ دیا، دو گھنٹے پہلے ہم سے رابطہ کیا، ہم نے اپنی تجویزیں دی تو اس سے پہلے ہی قومی اسمبلی سے قانون پاس کردیا گیا، اس ایکٹ کے بعد کوئی اختلاف رائے نہیں کرسکتا ہے، اس کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، ایسے قانون کو سول سوسائٹی اور اسٹیک ہولڈرز کی رائے سے بنانا چاہیئے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ہمیں کلیئر ہونا چاہیئے کہ یہ ترامیم وغیرہ سیاسی جماعتیں نہیں کروا رہی ہیں بلکہ کوئی اور کررہے ہیں، یہ پیپلز پارٹی وہ پارٹی نہیں رہی بلکہ اب ہر کوئی دیکھ رہا ہے وہ کتنی سروس دے رہی ہے، 2017ء میں پہلی بار پیکا ترمیم کا مسئلہ سامنے آیا تھا، اس زمانے میں ایف آئی اے نے اٹھایا تھا لوگوں کو، عمران خان کے دور میں اس کو مزید مضبوط کیا گیا، جب پی ٹی آئی کے بلے والا مسئلہ آیا تھا اس میں ایف آئی نے 100 سے زائد افراد کو اٹھایا، اس پر جے آئی ٹی بنی جس میں اداروں کے نمائندے تھے میں نے سپریم کورٹ میں اس کو چیلنج کیا تھا، سپریم کورٹ میں میرا یہ نکتہ تھا کہ ایک انسان تو یہ قانون کا سہارا لے سکتا ہے مگر ادارہ نہیں کرسکتا ہے، خفیہ اداروں کا جے آئی ٹی میں بیٹھنا صرف صحافیوں کو ڈرانے کے لیے تھا، اب تو سائبر کرائم کا ادارہ انکوائری کرکے گرفتار کرسکتا ہے، اس قانون میں ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے جو سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو ریگولیٹ کرے گا، اس قانون میں ان تمام اداروں یا افراد پر تنقید نہیں کرسکتے جس پر صحافی رپورٹنگ کرتے ہیں، پیکا ایکٹ کے بعد اب کسی اختلاف رائے بھی نہیں کرسکتے ہیں، معاشرے کی اصلاح کے لیے مثبت تنقیدضروری ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کو کالا قانون قرار صحافتی تنظیموں کراچی پریس کلب سول سوسائٹی سوشل میڈیا پیکا ایکٹ نے کہا کہ کرتے ہیں کہ پیکا نے پیکا ایکٹ کو گیا ہے کے بعد کے لیے
پڑھیں:
حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ؛ پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
سوشل میڈیا پر حساس اداروں اور سربراہ کے خلاف توہین آمیز پوسٹ کرنے پر شہری کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔
سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔
اندراج مقدمہ کے بعد پولیس نے مزید قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا۔
دوسری جانب، پیکا ایکٹ ترمیم کے خلاف دائر درخواست پر پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ارشد علی اور جسٹس جواد احسان اللہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔
عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کر دیا۔
درخواست گزار کے وکیل نعمان محب کاکا خیل کا موقف تھا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم کرکے غلط اور جھوٹی خبروں پر سزائیں متعارف کروا دی گئی ہیں، پیکا ایکٹ کے سیکشن 26 اے سمیت متعدد سیکشنز میں ترمیم کی گئی ہے لیکن ترمیم مبہم ہے اور فیک نیوز کی تشریح نہیں کی گئی کہ فیک نیوز کونسی ہوگی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ترمیم میں خلاف ورزی پر بڑی بڑی سزائیں رکھی گئی ہیں۔ ترمیم میں جج، اراکین اسمبلی اور دیگر اداروں کے خلاف کوئی بھی بات کرنے پر سزا مقرر کی گئی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے خلاف ہے کیونکہ آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے، یہ ترمیم جمہوریت اور انسانی حقوق اور احتساب پر وار ہے، یہ ترمیم اپوزیشن کی آواز کو دبانے کے لیے کی گئی ہے۔
عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے ایک ماہ کے اندر جواب طلب کر لیا۔