پیکا ایکٹ: پیپلز پارٹی کا دہرا کردار
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
وطن عزیز میں یوں تو اکثر سیاسی جماعتیں دہرے کردار کی حامل ہیں تاہم پیپلز پارٹی اس حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتی نعروں کی حد تک یہ جماعت غریبوں، محنت کشوں اور پسے ہوئے طبقات کی نمائندگی کی دعوے دار ہے مگر پارٹی کا ڈھانچہ دیکھا جائے، اس کے جماعتی اور حکومتی مناصب پر براجمان شخصیات کا جائزہ لیا جائے تو ہر جگہ سرمایا دار اور جاگیر دار چھائے ہوئے ملیں گے، کم وسائل شخص کسی اہم منصب پر ڈھونڈے سے نہیں ملے گا چنانچہ گزشتہ نصف سے زائد عرصہ کی پارٹی کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہونے میں دیر نہیں لگے گی کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ملک کے جاگیردار اور سرمایا دار طبقے کے مفادات کا تحفظ کیا ہے۔ اسی طرح ملک میں جمہوریت کے سب سے بلند آہنگ دعوے بھی پیپلز پارٹی کی قیادت ہی سے سننے کو ملتے ہیں مگر عملی کردار یہاں بھی یہی ثابت کرتا ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لا کے استثنیٰ کے ساتھ پیپلز پارٹی کی قیادت نے ہر فوجی آمریت کو تقویت بھی پہنچائی ہے اور اس کے اقتدار کا حصہ بھی رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے منافقانہ دہرے کردار کی متعدد دیگر مثالیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں مگر ان کی تفصیل میں جائے بغیر ہم پارٹی کے تازہ ترین دہرے کردار اور قول و فعل کے تضاد کو دیکھیں تو پیکا کا متنازع قانون اس کی نادر مثال ہے، جس کے بل پر دستخط کر کے صدر آصف علی زرداری نے اسے ملک کا نافذ العمل قانون بنا دیا ہے جب کہ اب تک پیپلز پارٹی اس قانون کے خلاف زبانی احتجاج کرتی اور اسے آزادی اظہار کے منافی قرار دے کر ناقابل قبول قرار دیتی رہی ہے۔ ابھی چند روز قبل پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں جب پیکا ایکٹ کا معاملہ زیر غور آیا تو ارکان کی اکثریت کا موقف یہ تھا کہ بل جب صدر آصف زرداری کے پاس آئے تو وہ اسے اپنے پاس روکے رکھیں اور اس پر دستخط نہ کریں۔ اجلاس میں بعض ارکان نے پارٹی چیئرمین بلاول زرداری کو یہ بھی یاد دلایا تھا کہ تحریک انصاف کے دور اقتدار میں جب پیکا ایکٹ کا آغاز ہوا تھا تو بلاول زرداری خود بھی اس قانون کے خلاف احتجاج میں شریک ہوئے تھے اس لیے پارٹی کو اس بل کی منظوری میں زیادہ متحرک کردار ادا نہیں کرنا چاہیے ارکان مجلس عاملہ کے علاوہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خاں اور بعض دیگر اہم رہنما بھی پیکا ایکٹ کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں۔ گورنر پنجاب کا بیان تو جمعرات کے اخبارات میں بھی چھپا ہوا ہے، جب کہ صدر زرداری بدھ کو بل پر دستخط کر چکے تھے، گورنر سردار سلیم حیدر کا کہنا ہے کہ پیکا ایکٹ ترمیمی بل پر تمام صحافی برادری سراپا احتجاج ہے اس لیے حکومت کو اس بل پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ گورنر ہائوس میں پارٹی کارکنوں سے ملاقات میں گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ ہماری پارٹی مظلوم طبقات کو اکیلا نہیں چھوڑے گی اور صحافیوں سمیت عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد جاری رکھے گی۔ تاہم صدر مملکت آصف علی زرداری نے پیکا ایکٹ پر معمولی تاخیر بھی روا نہیں رکھی اور فوری طور پر اس پر دستخط کر کے حکومت کے موقف کی تائید و توثیق کر کے اپنے پارٹی رہنمائوں اور مرکزی مجلس عاملہ کے ارکان کے لیے شرمندگی کا وافر سامان فراہم کر دیا ہے۔ یہ البتہ الگ معاملہ ہے کہ پیپلز پارٹی میں منافقت، دو عملی اور قول و فعل کے تضاد پر شرمندہ ہونے کی روایت سرے سے موجود ہی نہیں۔ پارٹی کی تاریخ ایسی باتوں سے بھری پڑی ہے اور بیانات کو نظر انداز کر کے عملی کردار دیکھا جائے تو بل کی مخالفت کے دعویدار تمام پارٹی رہنمائوں نے قومی اسمبلی اور سینٹ میں پیکا ایکٹ کے حق ہی میں ووٹ دیے ہیں!!
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی پیکا ایکٹ پارٹی کی
پڑھیں:
آزاد کشمیر میں تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کار طے ہو گیا
میاں عبدالوحید بتایا کہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورتی عمل کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے میں تاخیر ہوئی، آزاد کشمیر میں ہونے والے حالات و واقعات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آزاد کشمیر کے وزیرِ قانون میاں عبدالوحید نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر میں تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کار طے ہو گیا ہے۔ وزیر قانون آزاد کشمیر میاں عبدالوحید نے اگلی ممکنہ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتے کے اندر تحریک عدم اعتماد پیش کر دی جائے گی۔ میاں عبدالوحید نے ایوان کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ بیرسٹر سلطان محمود کے حمایت یافتہ ارکان کی پیپلز پارٹی میں شمولیت ہو چکی ہے اور اب قانون ساز اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے اپنے ممبران کی تعداد 27 ہو گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب نواز لیگ تحریک عدم اعتماد میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دے گی اور پیپلز پارٹی عددی برتری کے باعث بغیر اتحادی حکومت بنائے گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورتی عمل کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے میں تاخیر ہوئی، آزاد کشمیر میں ہونے والے حالات و واقعات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ وزیرِقانون آزاد کشمیر نے کہا کہ پی ٹی آئی آزاد کشمیر میں 2 سال سے رجسٹرڈ ہی نہیں اور فاروڈ بلاک کے ممبران پر فلور کراسنگ ایکٹ نہیں لگ سکتا اور اب نئے قائد ایوان کے فیصلہ کا اختیار چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کریں گے۔ وزیر قانون آزاد کشمیر نے لائحہ عمل واضح کرتے ہوئے کہا کہ 3 سے 4 دن کے اندر تحریک عدم اعتماد پیش کر دی جائے گی اور تحریک عدم اعتماد جمع کرواتے وقت پیپلز پارٹی نئے وزیراعظم کا نام جاری کرے گی۔