مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہی ہوتا ہے‘جسٹس جمال خان مندوخیل
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
اسلام آباد ( خبر ایجنسیاں+مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں اپنے دلائل ختم کرلوںگا، آئین میں عدالتوں کا ذکر آرٹیکل 175 میں ہے، فوجی عدالتیں الگ قانون کے تحت بنتی ہیں جو تسلیم شدہ ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 175 کے تحت بننے والی عدالتوں کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں، مخصوص قانون کے تحت بننے والی عدالت کا دائرہ اختیار بھی محدود ہوتا ہے، گزشتہ روز میری بات سے کنفیوژن پیدا ہوئی، میڈیا کی فکر نہیں لیکن کچھ ریٹائرڈ ججز نے مجھے فون کرکے رابطہ کیا، وضاحت کرنا چاہتا ہوں کل فیصلہ نہ ماننے کے حوالے سے ججز کا نہیں افراد کا ذکر کیا تھا۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ کہنا چاہ رہا تھا 8 ججز فیصلے کو2 افراد کسی محفل میں کہ دیتے ہیں کہ ایسا ہے ویسا ہے، کچھ میڈیا کے ساتھیوں نے اسے غلط انداز میں رپورٹ کیا، 21ویں آئینی ترمیم اس لیے ہوئی کیونکہ ملک حالت جنگ میں تھا۔وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے مؤقف اپنایا کہ اکیسویں ترمیم اس لیے ہوئی کیونکہ ان واقعات میں جرائم آرمی ایکٹ میں نہیں آتے تھے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ نیکسز کا مطلب کیا ہوتا ہے، نیکسز کا ایک مطلب تو گٹھ جوڑ، تعلق، سازش یا جاسوس کیساتھ ملوث ہونا ہوتا ہے، نیکسز کی دوسری تعریف یہ ہو سکتی ہے کہ ایسا جرم جو فوج سے متعلق ہو۔وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہا کہ نیکسز کا مطلب ورک آف ڈیفنس میں خلل ڈالنا ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ورک آف ڈیفنس کی تعریف کو تو کھینچ کر کہیں بھی لیکر جایا جا سکتا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عدالت عظمیٰ سے ایک شخص کو 34 سال بعد رہائی ملی، کسی کو 34 سال بعد انصاف ملنے کا کیا فائدہ، ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں کسی کے حقوق متاثر نہ ہوں۔وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ 34سال بعد کسی کو رہائی دینا انصاف تو نہیں ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ میں نے پہلے بھی آپ سے ایک سوال پوچھا تھا، ماضی میں جی ایچ کیو اور مہران ائر بیس جیسے حساس مقامات پر بھی حملے ہوئے، اکیسویں ترمیم فیصلے میں کہا گیا 2002 سے لیکر ترمیم تک 16 ہزار مختلف حساس مقامات پر حملے ہوئے۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ ایسے واقعات میں حساس مقامات پر تعینات اہلکاروں کی شہادتیں ہوئیں، ایک واقعے میں 2 کورین طیارے تباہ ہوئے جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کے کا نقصان ہوا، کیا ان واقعات کی شدت زیادہ نہیں تھی، ایسے تمام واقعات کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا یا انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ہوا۔وکیل وزارت دفاع نے استدلال کیا کہ جی ایچ کیو حملہ کیس کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا تھا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ٹرائل 21ویں ترمیم سے قبل ہوا تھا۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ جی ایچ کیو حملے میں مجرمان کا ٹرائل 21ویں ترمیم سے قبل فوجی عدالت میں چلایا گیا، وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ مہران ائربیس پر حملہ کرنے والے تمام دہشت گرد موقع پر ہی ہلاک کردیے گئے تھے، اس لیے وہاں ملٹری ٹرائل کی ضرورت ہی نہیں پڑی، فوجی امور میں مداخلت کی تعریف نہ آنے والے جرائم کے لیے ترمیم کی گئی تھی۔اس کے ساتھ ہی وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوگئے ۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ ہم وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل پر انحصار کرتے ہیں، جواب الجواب میں اپنے دلائل دیں گے، وکیل بلوچستان حکومت نے کہا کہ ہم بھی وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل پر انحصار کرتے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے حکومت بلوچستان کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ کو بتانا ہوگا کہ عدالتی فیصلے سے متاثرہ کیسے ہیں، اکیسویں آئینی ترمیم فیصلے کا پیراگراف 122 پڑھیں، فوجی تنصیبات پر حملوں کے جرائم کو 4 سال کے لیے شامل کیا گیا، پہلے 2 سال کے لیے ملٹری کورٹس بنیں، بعد میں 2 سال توسیع ہوئی، کیا آرمی ایکٹ کا سیکشن ٹو ون ڈی ٹو بھی تک ترمیم کے تناظر میں بحال ہے۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے جرائم کو شامل کرنے کے لیے ترمیم ہوئی تھی، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سیکشن ٹو ون ڈی ٹو پر کسی عدالتی فیصلے میں بحث نہیں ہوئی، سیکشن ٹو ون ڈی ٹو مخصوص افراد کے لیے ہے، جبکہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق بلا تفریق ملک کے تمام شہریوں پر ہوتا ہے۔وقفے کے بعدبلوچستان حکومت کے وکیل سکندر بشیر مہمند روسٹرم پر آئے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کیسے بلوچستان حکومت کی نمائندگی کر سکتے ہیں جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کوئی رولز آف بزنس یا قانون بتا دیں نجی وکیل حکومت کی نمائندگی کیسے کرتا ہے،وکیل بلوچستان حکومت سکندر بشیر مہمند نے جواب دیا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے موجود ہیں جس میں نجی وکیل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ چلیں اس مسئلے کو چھوڑیں اپنا حق دعویٰ ثابت کریں، سکندر بشیر مہمند نے کہا کہ بلوچستان حکومت کو مرکزی کیس میں فریق بنایا گیا تھا۔بلوچستان حکومت اور پنجاب حکومت نے خواجہ حارث کے دلائل اپنا لیے، وزارت داخلہ اور وزارت قانون نے بھی خواجہ حارث کے دلائل اپنا لیے، شہدا فورم کے وکیل شمائل بٹ عدالت میں پیش ہوئے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ شہدا فورم فریق نہیں تھی تو اپیل کیسے دائر کر دی؟ شمائل بٹ نے مؤقف اپنایا کہ شہری کی درخواست پر 2 قوانین کالعدم قرار دیے گئے، میں شہدا کی لواحقین کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ شہدا فورم نے بھی خواجہ حارث کے دلائل اپنا لیے، جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل کا آغاز کر دیا۔وکیل سابق چیف جسٹس نے کہا کہ 9 مئی واقعات کے جرم میں ملوث ملزمان کو نہ کبھی بری کرنے کا کہا نہ یہ ہمارا کیس ہے، خواجہ احمد حسین نے کہا کہ ہمارا کیس صرف اس حد تک ہے کہ سویلین کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوگا، سمجھ نہیں آ رہی کہ حکومت کا سول عدالتوں کے بجائے فوجی عدالتوں پر اعتماد کیوں ہے۔بعد ازاں سماعت آج ساڑھے 9 بجے تک کے لیے ملتوی کردی گئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین دلائل جاری رکھیں گے۔
جمال مندوخیل
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث جسٹس جمال خان مندوخیل نے جسٹس جمال مندوخیل نے خواجہ حارث کے دلائل نے ریمارکس دیے کہ وکیل وزارت دفاع بلوچستان حکومت خواجہ حارث نے ہے جسٹس جمال عدالت عظمی اپنے دلائل فوجی عدالت نے کہا کہ کا ٹرائل نے دلائل ہوتا ہے کے لیے کے تحت کیا کہ
پڑھیں:
9 مئی کیس،عدالتی فیصلے سے آئین اور قانون کا بول بالا ہوا، عقیل ملک
وزیرِ مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک نے 9 مئی سے متعلق کیسز پر سرگودھا کی عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہو ئےکہا ہے کہ عدالت نے انصاف کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جس سے آئین اور قانون کا بول بالا ہوا۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وزیرِ مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک کا کہنا تھا کہ 9 مئی 2023 کو منصوبہ بندی کے تحت 200 سے زیادہ مقامات پر حملےکیےگئے، قائد حزبِ اختلاف پنجاب اسمبلی ملک احمد بھچر سمیت 32 ملزمان کو 10، 10 سال کی سزا میں قانون اور انصاف کے تقاضے پورے کیے گئے۔
انہوں نےکہا کہ سرگودھا کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں تمام ملزمان کا شفاف ٹرائل ہوا، گواہان کے بیان ریکارڈ ہوئے، اُن پر جرح ہوئی اور پھر آئین اور قانون کے مطابق عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا۔
بیرسٹر عقیل ملک کا مزیدکہنا تھا کہ 9 مئی میں ملوث ملزمان میں سے بیشتر کیخلاف ثبوت موجود ہیں، سیاسی جماعت کے عہدیدران اور کارکنان کی ویڈیو، آڈیو اور تصویروں کے ساتھ ساتھ سی سی ٹی وی فوٹیجز کے ذریعے حقائق موجود ہیں۔
وزیرِ مملکت برائے قانون نےکہا کہ جب آپ قانون ہاتھ میں لیں گے تو پھر آپ چاہے ایم این اے ہوں یا ایم پی اے، اپوزیشن لیڈر ہوں یا پھر کسی اور اہم عہدے پر براجمان شخصیت، قانون آپ کیخلاف حرکت میں آئے گا اور قانون سب کے لیے برابر ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایک مخصوص سیاسی جماعت نے منصوبہ بندی کے تحت حساس مقامات پر حملے کیے، سیاسی جماعت کے عہدیداروں نے اپنے کارکنان کی ذہن سازی کر کے انہیں سرکاری املاک پر حملوں کے لیے اُکسایا۔
بیرسٹرعقیل ملک نے مزید کہا کہ جب آپ ریاست کی رِٹ کو چیلنج کریں گے، حساس، فوجی مقامات اور یادگار شہدا پر حملے کریں گے تو پھر ریاست ایکشن لے گی اور اپنی رِٹ کو بھی برقرار رکھےگی۔
انہوں نے کہا کہ ایک مخصوص سیاسی جماعت کہتی تھی کہ کیسز کے فیصلے کیوں نہیں ہو رہے تو آج فیصلہ ہو گیا ہے، جس میں قانون کا بول بالا ہوا ہے۔
خیال رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت سرگودھا نے 9 مئی 2023 کو میانوالی میں احتجاج کے مقدمے میں اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی ملک احمد بچھر اور دیگر ملزمان کو 10،10 سال قید کی سزا سنائی ہے۔
سرگودھا کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے سانحہ 9 مئی 2023 کے حوالے سے میانوالی کے تھانہ موسیٰ خیل میں درج مقدمہ نمبر 72 کا فیصلہ سنایا۔
انسداد دہشت گردی عدالت نے اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان بچھر سمیت پی ٹی آئی کے 32 رہنماؤں اور کارکنوں کو 10، 10 سال قید کی سزا سنادی۔