عالمی بینک کی دس سالہ سرمایہ کاری
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
پاکستان کی حکومت نے اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ورلڈ بینک کی طرف سے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے پاکستان بلندیوں کو چھوئے گا۔ اس سے چند یوم قبل ’’ اڑان پاکستان‘‘ منصوبے کا افتتاح کیا گیا تھا۔ بلندیوں کو چھونے کا مقصد اڑان بھرنا ہوتا ہے، اب یہ نہیں معلوم کہ دونوں مدوں کے تحت الگ الگ اڑان بھری جائیں گی۔ البتہ عالمی بینک کی سرمایہ کاری جوکہ 10 سال کے لیے ہوگی، اس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عام آدمی کی معاشی حالت بدل سکتا ہے۔
10 برس کو ابھی سے شروع کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بات وہی پرانی ہے۔ البتہ بلندیوں پر لے جانے کا مقصد اگر 10 برس میں سے سابقہ عادت کے مطابق جیساکہ عالمی بینک ہر سال ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر تک فنڈز مختلف شرائط، اونچی شرح سود کے ساتھ فراہم کرتا ہے تو یہ رقم اس وقت حجم میں بلند دکھائی دے گی جب اس کو کل جمع کر کے بیان کریں گے یعنی تقریباً 20 ارب ڈالر کے قریب بنتی ہے۔
لہٰذا کسی شد و مد میں رہے بغیر کہ تقریباً اندازہ ہے کہ یا تخمینہ کو چھوڑکر اس مرتبہ آیندہ 10 برسوں کے لیے مجموعی رقم کو بالکل واضح صاف بیان کر دیا گیا ہے۔ یہ آئی ایم ایف ہی ہے کہ وہ لگی لپٹی رہنے دیتا ہے بعد میں جب قرض میں پھنسی ہوئی کوئی حکومت پھنس جاتی ہے تو وہ اپنی تشریح سامنے لا کر اس ملک کو مزید شکنجے میں پھنسا لیتا ہے، لیکن ورلڈ بینک نے بات صاف کر دی ہے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی سادہ لوحی ہے کہ وہ ان اداروں کو اپنا مخلص سمجھ بیٹھے ہیں۔
پاکستان بننے کے کچھ عرصے بعد عالمی بینک نے پاکستان کو امداد کے نام پر یا پروجیکٹ فنڈ کے نام پر قرض فراہم کرنا شروع کیا۔ البتہ یہ رقوم پہلے 3 سال کے تخمینے پر مبنی ہوا کرتی تھیں، لیکن اس مرتبہ 10 سال کے دورانیے کو سامنے رکھا گیا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے اس وقت انتہائی بہتر ثابت ہو سکتا ہے جب حکومتی ٹیم چاہے اس کا تعلق کسی بھی آنے جانے والی حکومت سے ہو انتہائی مخلص اور ماہرانہ طریقوں کو اپنا کر کام کرتی ہے۔
قرض کسی منصوبے کے لیے لیا جائے وہ بذات خود بدتر نہیں ہوتا بشرطیکہ منصوبے کے مقاصد کی تکمیل کے لیے ہو۔ منصوبے کی مدت تکمیل کو سامنے رکھ کر اس کی پلاننگ کی گئی ہو۔ البتہ موجودہ حکومت اس کے مثبت اور بہتر نتائج کے حصول کے لیے ایسے حکام، افسران اور ماہرین پر مشتمل ٹیم کو متعین کرے جن کی مدت ملازمت یا کنٹریکٹ میں کم از کم 11 سے 12 سال باقی رہتے ہوں تاکہ وہ لوگ دلجمعی سے اس فنڈ کے استعمال کے لیے کام کر سکیں۔
کیونکہ صرف قرض حاصل کرتے رہنا اور اس سے کام چلانا، اس سے نہ معیشت بہتر ہوتی ہے نہ ہی عوام کی معاشی حالت بہتر ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف سے بھی قرض لے رہے ہیں اس کے ساتھ دیگر اداروں سے بھی قرض حاصل کرتے رہیں گے تو معاشی حالت کو قرض میں وہ بھی جس میں شرح سود کا نقصان دہ پہلو بھی موجود ہو، ایسے قرض سے کس طرح عوام کی معاشی حالت میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ البتہ پہلے کی اور بات تھی جب پاکستان کو عالمی بینک نے کئی ترقیاتی، توانائی کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے فنڈز کے ساتھ مشینری، ٹیکنالوجی اور ماہرین فراہم کیے تھے جن کی بنیاد پر ہم نے بہت سے ترقیاتی پروجیکٹ مکمل کیے۔
سندھ طاس معاہدہ ہو یا منگلا و تربیلا اور دیگر ڈیمز کی تعمیر و ترقی ان تمام کے لیے عالمی بینک کا تعاون حاصل رہا ہے، لیکن اب خاص وجوہات کی بنا پر ایسے پروگرام لائے جا رہے ہیں جن سے برائے نام ہی معاشی اصلاحی مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ معیشت کی اصلاح جب ہوتی اور جب کہیں جا کر عوام کی حالت بدلتی جب پاکستان کو دیگر ممالک کی طرح بڑے بڑے صحرا، ریگستانی علاقے، پتھریلے علاقے، دور دراز پسماندہ علاقوں کی تعمیر و ترقی کے لیے فنڈز کا اجرا کیا جاتا جس سے غربت میں خاتمے کے عارضی اقدامات کے بجائے مستقل حل تلاش کیا جاتا۔ وقتی طور پر امداد دینا، عوام کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے کچھ پروجیکٹ تو مکمل کرنے میں تعاون کرنا یہ سب باتیں اچھی ہیں لیکن ان کا مکمل حل نکالنا اصل ہے۔
بعض علاقوں میں نہری نظام ہونے کے باوجود یہ شکایات عام ہیں کہ نہر کے آخری علاقوں میں پانی نہیں پہنچتا یا جس مقدار میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے وقت ضرورت اس قدر پانی میسر نہیں آتا۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ اب گیس کی لوڈ شیڈنگ کے علاوہ پینے کا پانی، اس کی قلت، اس کے بحران کی طرف تیزی سے جا رہے ہیں۔ زرعی مقاصد کے لیے پانی کی فراہمی کے لیے پروجیکٹ بنانا، اس کے ذریعے غیر کاشت رقبے کو قابل کاشت بنانا، پن بجلی کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کرنا، تیل و گیس کے نئے ذخائر کی تلاش کے لیے منصوبہ بندی کرنا اس کے لیے فنڈز کی فراہمی اور اس کا اس طرح سے استعمال کہ جس سے عام آدمی کی حالت مستقل بنیادوں پر حل ہو کر رہے، جبھی بہتری آ سکتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی معاشی حالت عالمی بینک عوام کی کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
پی آئی اے کی نجکاری، حکومت کا ایک بار پھر درخواستیں طلب کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد: حکومت نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی نجکاری کے لیے ایک بار پھر اظہار دلچسپی کی درخواستیں 24 اپریل کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کو کم از کم ایک ماہ کی مہلت دی جائے گی۔
نجکاری کمیشن نے بتایا کہ اس عمل میں صرف سنجیدہ سرمایہ کاروں کو شامل کرنے کے لیے پری کوالیفکیشن کے معیار سخت کر دیے گئے ہیں۔
مزید کہا گیا کہ نج کاری کے لیے پی آئی اے کے 51 فیصد سے 10 فیصد تک شیئرز فروخت کیے جائیں گے، نج کاری کے عمل میں ملازمین کا تحفظ اور سروس اسٹرکچر برقرار رکھا جائے گا۔
اس ضمن میں کہا گیا کہ پی آئی اے کے اثاثوں اور مالی حیثیت کا جائزہ جولائی تک مکمل کرلیا جائے گا، درخواستوں کی جانچ پڑتال ستمبر 2025 تک اور نج کاری کا عمل دسمبر 2025 تک مکمل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ۔
نج کاری کمیشن نے بتایا کہ پری کوالیفکیشن کے معیار سخت کر دیے گئے ہیں تاکہ صرف سنجیدہ سرمایہ کار ہی اہل ہوں۔
حکام کے مطابق پری کوالیفکیشن میں سرمایہ کار کمپنیوں کو ملٹی ایئر ریونیو کی شرط پوری کرنا ہوگی، یورپ کے لیے پروازوں کی بحالی کے بعد پی آئی اے سرمایہ کاروں کے لیے مزید پرکشش بن چکی ہے اور خلیجی ریاستوں اور ترک ایئر لائن سمیت متعدد اداروں کی جانب سے دلچسپی متوقع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بار کلین پی آئی اے کا ماڈل اپنایا گیا اور حکومت پہلے ہی پی آئی اے کا قرضہ اپنے ذمہ لے چکی ہے، وفاقی کابینہ نج کاری کمیشن کی سفارش پر نج کاری کی منظوری دے چکی ہے۔