امریکا اور ہالینڈ نے سائٹس ہیکنگ ٹولز بیچنے اور مالی فراڈ کرنیوالے پاکستانی گروہ کیخلاف شکنجہ کس دیا
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
امریکی اور ڈچ حکام نے ایک مشترکہ کارروائی کے ذریعے پاکستان سے چلنے والے ایک گروہ کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 39 سائبر کرائم ویب سائٹس بلاک کر دی ہیں۔
یہ ویب سائٹس ہیکنگ ٹولز کی فروخت اور مالی فراڈ میں ملوث تھیں، جو دنیا بھر میں پھیل کر غیر قانونی سرگرمیاں کر رہی تھیں۔
امریکی محکمہ انصاف کے مطابق ان ویب سائٹس کے سرورز کو بند کر دیا گیا ہے، جو کہ ہیکنگ اور مالیاتی دھوکے کے بین الاقوامی گروپوں کو ویب ٹولز فراہم کر رہی تھیں۔
ان ویب سائٹس کو چلانے والا گروہ جسے “صائم رضا گروپ” یا “ہارٹ سینڈر” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے نے آن لائن مارکیٹ پلیسز کے ذریعے ان ٹولز کو فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے استعمال کی تفصیل پر مبنی ویڈیوز بھی اپ لوڈ کی تھیں۔
تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ نیٹ ورک 2020 سے سرگرم تھا اور اس دوران اس نے امریکی شہریوں کو نشانہ بنا کر 30 لاکھ ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچایا۔
ان سائٹس پر فروخت ہونے والے ٹولز میں فشنگ کٹس، اسکیمنگ پیجز اور ای میل ایکسٹریکٹرز شامل تھے، جو کاروباری ای میل فراڈ (business email compromise) کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔
ان ٹولز کا مقصد کمپنیوں کو جعلی ادائیگیوں کے لیے دھوکا دینا تھا، جس کے نتیجے میں پیسے ہیکرز کے کنٹرول میں آنے والے اکاؤنٹس میں منتقل ہو جاتے تھے۔
یہ کارروائی ڈچ نیشنل پولیس کے تعاون سے کی گئی، اور اس کے ذریعے ان سائبر کرائمز کے نیٹ ورک کو مکمل طور پر بے نقاب کر دیا گیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ویب سائٹس
پڑھیں:
کیا امریکا نے تجارتی جنگ میں فیصلہ کُن پسپائی اختیار کرلی؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایک بات تو پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے اور وہ یہ کہ اُن کے بارے میں کوئی بھی بات پورے یقین سے نہیں کہی جاسکتی۔ وہ کب کیا کر بیٹھیں کچھ اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ پالیسی کے حوالے سے اُن کے بہت سے اقدامات نے انتہائی نوعیت کی کیفیت راتوں رات پیدا کردی اور پھر اُنہوں نے یوں پسپائی اختیار کی کہ دنیا دیکھتی ہی رہ گئی۔
بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے اُن کی سوچ انتہائی متلون ہے۔ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ جاتے ہیں اور عواقب کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ انتہائی غیر یقینی شخصیت ہیں اور اِس وصف کے ذریعے امریکا کے لیے مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
ٹیرف کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ اُنہوں نے پہلے تو چین، کینیڈا اور میکسیکو سمیت بارہ سے زیادہ ممالک پر بھاری درآمدی ڈیوٹی تھوپ دی۔ اُن کا خیال تھا کہ درآمدات کو امریکی صارفین کے لیے مہنگا کرکے وہ ملکی صںعتوں کو زیادہ تیزی سے پنپنے کا موقع فراہم کریں گے مگر جو کچھ ہوا وہ اِس کے برعکس تھا۔ جب دوسرے ملکوں نے بھی جوابی ٹیرف کا اعلان کیا تو امریکی مصنوعات اُن ملکوں کے لیے صارفین کے لیے مہنگی ہوگئیں اور یوں امریکی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔
صدر ٹرمپ نے جب دیکھا کہ اُن کا اٹھایا ہوا قدم شدید منفی اثرات پیدا کر رہا ہے تو اُنہوں نے قدم واپس کھینچ لیا۔ یوں امریکا نے ٹیرف کے محاذ پر واضح پسپائی اختیار کی۔ اِس پسپائی نے ثابت کردیا کہ امریکا اب من مانی نہیں کرسکتا۔ وہ کوئی یک طرفہ اقدام کرکے کسی بھی ملک کے لیے بڑی الجھن پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ دھونس دھمکی کا زمانہ جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا کو مذاکرات کی میز پر آنا پڑ رہا ہے۔
طاقت کا معاملہ بھی “وڑتا” دکھائی دے رہا ہے۔ چین اور روس ڈٹ کر میدان میں کھڑے ہیں۔ اُنہوں نے ثابت کردیا ہے کہ اب امریکی فوج کے لیے کہیں بھی کچھ بھی کرنا آسان نہیں رہا۔ منہ توڑ جواب دینے والے میدان میں کھڑے ہیں۔ دور افتادہ خطوں کو زیرِنگیں رکھنے کی امریکی حکمتِ عملی اب ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ افریقا میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یورپ کی ہچکچاہٹ نے امریکا کی مشکلات مزید بڑھادی ہیں۔
ہمارے سامنے اب ایک ایسی دنیا تشکیل پارہی ہے جس میں امریکا اور یورپ ہی سب کچھ نہیں۔ پوری دنیا کو مٹھی میں بند کرکے دبوچے رکھنے کا زمانہ جاچکا ہے۔ بہت سے ممالک نے خود کو عسکری اعتبار سے مضبوط بنایا ہے۔ پاکستان کو انتہائی کمزور سمجھا جارہا تھا مگر اُس نے فضائی معرکہ آرائی میں بھارت کو ناکوں چنے چبواکر امریکا اور یورپ کو پیغام دے دیا کہ اُسے تر نوالہ نہ سمجھا جائے۔ دنیا بھر میں بھارت کی جو سُبکی ہوئی ہے اُس نے یہ بھی واضح اور ثابت کردیا کہ بھارت عالمی طاقت تو کیا بنے گا، وہ علاقائی طاقت بننے کے قابل بھی نہیں ہے۔
یہ تمام تبدیلیاں دیکھ کر امریکی قیادت بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ ٹیرف یا کسی اور معاملے میں من مانی سے گریز ہی بہتر ہے۔ صدر ٹرمپ نے چند ہفتوں کے دوران جو طرزِ فکر و عمل اختیار کی ہے وہ اِس بات کی غماز ہے کہ اب سب کچھ امریکا کے حق میں نہیں رہا۔