ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
(تحریر: سہیل یعقوب)
آج کل سنا ہے کہ ستارے لائن پر آگئے ہیں۔ اب آپ ہی بھلا بتائیے کہ وہ اسٹار ہی کیا ہوا جو لائن پر آگیا ہو۔ اس لیے وہ یقیناً ستارہ نہیں بلکہ سیارہ ہوگا۔ اس پر تصحیح کی گئی کہ ستارے یا سیارے لائن پر نہیں آئے ہیں بلکہ قطار میں آگئے ہیں۔
اب سوال یہ ہوا کہ ستارے اور سیارے میں کیا فرق ہے؟ ستارے کی اپنی روشنی ہوتی ہے کہ جس کا اخراج ہوتا ہے اور سیارہ وہ ہوتا ہے کہ جس کی اپنی روشنی نہ ہو۔ اس لحاظ سے تو واپڈا اور K الیکٹرک بھی ستارے ہوئے۔ واقعی واپڈا اور K الیکٹرک ہمارے ملک کے ستارے ہی تو ہیں اور باقی ہم سب سیارے ہیں، جو ان کے اردگرد گھومتے ہیں اور صرف گھومتے ہی نہیں بلکہ بل کے ذریعے گھما بھی دیے جاتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ یہ سیارے پانچ یا دس سال میں ایک دفعہ قطار میں آتے ہیں اور آج کل چھ سیارے قطار میں آئے ہوئے ہیں، جن میں سے چار یعنی زحل، زہرہ، مشتری اور مریخ کو بغیر کسی ٹیلی اسکوپ کے دیکھا جاسکتا ہے اور باقی دو یعنی نیپچون اور یورینس کو دیکھنے کےلیے نہ صرف طاقتور ٹیلی اسکوپ کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ بہتر ہوتا ہے کہ شہر سے باہر جاکر دیکھا جائے تاکہ آسمان صاف ہو۔ ان چار سیاروں کو دیکھنے کےلیے ہم 23 جنوری کی شام پی آئی اے پلانیٹوریم پہنچے، جہاں کراچی اسپیس آبزرویٹری کے مہدی حسین کے ساتھ وقت طے تھا اور وہ اپنی ٹیم اور ٹیلی اسکوپ کے ساتھ موجود تھے۔
انھوں نے سب سے پہلے تو وہاں موجود تمام لوگوں کو اس حوالے کچھ معلومات بہم پہنچائیں کہ ان سیاروں کو دیکھنے کےلیے پچیس جنوری یا کوئی خاص دن نہیں بلکہ فروری کے ابتدائی دنوں تک ان کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے ہم نے زحل کا نظارہ کیا۔ یہ سورج سے چھٹا سیارہ ہے اور نظام شمسی کا دوسرا بڑا سیارہ ہے۔ سب سے بڑا سیارہ مشتری ہے۔ زحل کے گرد گیس کا بہت بڑا ہالہ بھی دیکھا۔ اس کے بعد زہرہ کو دیکھا۔ یہ زمین سے قریب ترین سیارہ ہے، اس لیے اس کو زمین کی بہن بھی کہا جاتا ہے۔ مقدر کا سکندر میں ریکھا کا نام ’’زہرہ بائی‘‘ شاید اسی سیارے سے متاثر ہوکر رکھا گیا تھا۔
اس کے بعد ہم نے مشتری کو دیکھا اور اس کے چار چاند بھی دیکھے۔ دو مشتری سے اوپر تھے اور دو اس کے نیچے۔ آج کل مشتری کے حوالے سے سماجی ذرائع ابلاغ پر ایک خبر چل رہی ہے کہ ’’نام مشتری، کام اوکاڑہ کی نجمہ کی جاوید سے شادی کو روکنا۔‘‘ بھئی ایمانداری کی بات ہے کہ ہمیں تو کوئی ایسی بات نظر نہیں آئی بلکہ مجھے تو سرے سے مشتری کی اوکاڑہ یا اس کی نجمہ میں ہی کوئی دلچسپی نظر نہیں آئی اور جاوید میں تو ویسے بھی کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔
اس کے بعد ہم نے مریخ دیکھا، جس کو دیکھ کر میٹ ڈیمن کی The Martian یاد آگئی، جو کہ ایک بہت ہی شاندار فلم تھی۔ آج کل ویسے بھی انسان مریخ پر رہائش کا سوچ رہا ہے، اس حوالے سے ماضی میں Total Recall بھی بن چکی ہے۔ ہندوستان نے بھی ’’مشن منگل‘‘ کے نام سے فلم بنائی ہے۔ ہندی میں Mars کو منگل کہتے ہیں۔
سورج اور آٹھ سیارے نظام شمسی کا حصہ ہے۔ ہماری گیلیکسی (Galaxy) کا نام ملکی وے ہے کہ جس میں نامعلوم ایسے کتنے نظام گردش کررہے ہیں۔ اس کائنات میں اربوں کھربوں گلیکسی ہیں کہ جس سے ہم اس کائنات کی وسعت کے بارے میں سوچ تو سکتے ہیں پر اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے اور یقیناً اس پوری کائنات کا ایک ہی خالق اور مالک ہے کہ جس کے تابع یہ پورا نظام ہے۔ پھر یوں ہماری سیاروں کی سیر اپنے اختتام کو پہنچی۔
آخر میں ایک بات اور اس تحریر کا اختتام۔ اگر کسی طرح ہم مریخ یا کسی دوسرے سیارے پر پہنچ بھی گئے اور جب ہم انھیں بتائیں گے کہ ہم آپ کے سیارے پر رہنے آئے ہیں اور اگر انھوں نے ہم سے پوچھا کہ آپ نے اپنے سیارے کے ساتھ کیا کیا؟ تو میرے پاس تو اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اگر آپ کے پاس اس کا جواب ہو تو ضرور بتائیے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہیں بلکہ ہے کہ جس ہیں اور کے ساتھ
پڑھیں:
ایسی دنیا جہاں تقسیم اورچیلنجزبڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اورطاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے ، وزیرخارجہ
نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جولائی2025ء)نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کے لیے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے، ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول، خاص طور پر تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز، بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول پاکستان کی صدارت میں منعقدہ تقریبات کیلئے کلید رہیں گے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کی طرف سے جاری بیان کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین، معزز مہماناں اور دیگر شرکا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی اس ماہ کی صدارت کا جشن منا تے ہوئے استقبالیہ تقریب میں آپ سب کو خوش آمدید کہنا میرے لیے انتہائی مسرت کا باعث ہے۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول بالخصوص تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول ہماری اس ماہ کی صدارت میں بھی سلامتی کونسل کے کام خواہ وہ مباحثے ہوں یا عملی اقدامات ہماری شراکت کو شکل دے رہے ہیں۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آج دنیا میں بڑھتی بے چینی اور تنازعات کے دور میں غیر حل شدہ تنازعات، طویل المدت تصفیہ طلب تنازعات، یکطرفہ اقدامات اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے نتائج ہر خطے میں محسوس کئے جا رہے ہیں، ہمارا یقین ہے کہ عالمی امن و سلامتی صرف کثیرالجہتی، تنازعات کے پرامن حل، جامع مکالمے اور بین الاقوامی قانون کے احترام سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اسی تناظر میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں، پاکستان نے اپنی صدارت کے دوران تین ترجیحات پر توجہ مرکوز کی ہے، اول تنازعات کا پرامن حل اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی اصول ہے لیکن اسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اعلیٰ سطحی کھلے مباحثے اور سلامتی کونسل کی متفقہ قرارداد 2788 میں اس ترجیح کی عکاسی کی گئی ہے۔ دوم کثیرالجہتی، ہم کثیرالجہتی کو نعرے کے بجائے ایک ضرورت سمجھتے ہیں، سلامتی کونسل کو صرف ردعمل کا ایوان نہیں بلکہ روک تھام، مسائل کے حل اور اصولی قیادت کا فورم ہونا چاہیے۔ سوم اقوام متحدہ اور علاقائی تنظیموں کے درمیان تعاون، بالخصوص اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی)جو 57 رکن ممالک کے ساتھ عالمی امن کی تعمیر میں ایک اہم شراکت دار ہے، ہم 24 جولائی کو او آئی سی کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں اس تعاون کو مزید بڑھانے کے منتظر ہیں۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ اور دنیا بھر میں امن اور ترقی کے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے رکن ممالک، دوستوں اور شراکت داروں کے ساتھ فعال طور پر مصروف عمل ہے، یہ مشغولیت اور عہد صرف سلامتی کونسل تک محدود نہیں بلکہ پورے اقوام متحدہ کے نظام میں پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی اور ترقی کے عالمی مباحثے میں ایک اہم آواز ہے، چاہے وہ جنرل اسمبلی ہو، ای سی او ایس او سی ہو یا دیگر فورمز، ہم نے اقوام متحدہ کے تین ستونوں امن و سلامتی، ترقی اور انسانی حقوق کو مضبوط بنانے کی وکالت کی ہے اور عالمی ادارے کی اصلاحات کو سپورٹ کیا ہے تاکہ ہماری تنظیم کو زیادہ موثر، مضبوط اور عام اراکین کے مفادات کے لیے جوابدہ بنایا جا سکے۔ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے 2026-28 کے لیے انسانی حقوق کونسل کے انتخابات میں اپنی امیدواری پیش کی ہے جو ایشیا پیسیفک گروپ کی طرف سے حمایت شدہ ہے، ہم آپ کی قیمتی حمایت کے لئے بھی پر امید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا انسانی حقوق کونسل کے ساتھ تعلق ٹی آر یو سی ای (رواداری، احترام، عالمگیریت، اتفاق رائے اور مشغولیت) کے تصور پر مبنی ہے۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آخر میں میرا پیغام ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں، ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے آپ سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔