راولپنڈی: والدین کو آگ لگا کر قتل کرنیوالے بیٹے کو 2 مرتبہ عمر قید کی سزا
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
راولپنڈی کی ایڈیشنل سیشن نے والدین کو آگ لگا کر جان سے مار دینے والے بیٹے کو 2 بار عمر قید کی سزا سنادی۔
راولپنڈی کی ایڈیشنل سیشن جج فرحت جبین رانا نے جرم ثابت ہونے پر مجرم وسیم کو 2 بار عمر قید کی سزا سنادی۔
عدالت نے ملزم محمد وسیم کو 6 لاکھ روپے ہرجانے دینے کا بھی حکم دیا۔
عدالت نے مجرم کی سزا پر عملدرآمد کے احکامات جیل انتظامیہ کو بھجوادیئے۔
واضح رہے کہ مجرم نے جون 2022ء میں گھریلو رنجش کے باعث پیٹرول چھڑک کر والدین کو آگ لگا دی تھی، جس کا مقدمہ مقتولین کے دوسرے بیٹے کی مدعیت میں درج کیا گیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی سزا
پڑھیں:
عظیم ماں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آپ کی جدوجہد کا بہت اہم میدان آپ کے بچے ہیں۔ بچوں کی بہترین نشوو نما کے لیے اپنی توانائیوں کا بڑا حصہ لگادیں۔ ان کی شخصیت سازی میں بھرپور حصہ لیں۔ ان کی جسمانی نشو و نما عمدہ ہو اس کے لیے صحت و غذا کے تمام اصولوں کا ممکنہ حد تک خیال رکھیں۔ ان کی دماغی نشو و نما اچھی ہو اس کے لیے دماغی صحت اور ریاضت کے جتنے نسخے استعمال کرسکتی ہوں ضرور کریں۔ اس کے ساتھ ان کے دل کی بہترین نشو و نما پر بھی پوری توجہ دیں۔ ان کے دل میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت اور انسانوں کا درد کوٹ کوٹ کر بھر دیں۔
اسلامی تاریخ کے درخشاں ستاروں کو ان بلند مقامات پر پہنچانے میں ان کی عظیم ماؤں کا زبردست کردار رہا ہے۔
امام سفیان ثوریؒ بڑے محدث اور فقہ میں امام تھے۔ اس دور کے اکابر ان کی امامت کے معترف تھے۔ ان کی علمی نشو و نما میں ان کی والدہ کا زبردست کردار تھا۔ وہ جب کم سِن تھے تو ان کی والدہ ان سے کہتی تھیں کہ میرے بیٹے تم علم حاصل کرتے رہو میں سوت کات کر تمھاری ضرورتیں پوری کرتی رہوں گی۔ سفیان ثوری کی والدہ علم دین کا بہت عظیم اور مثالی تصور رکھتی تھیں اور اپنے بیٹے کو اس کے مطابق دیکھنا چاہتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں: بیٹا جب تم دس حدیثیں لکھ لینا تو دیکھنا کہ تمھاری چال میں، تمھارے ظرف میں اور تمھارے وقار میں اضافہ ہوا ہے، اگر ایسا نہ ہوا ہو تو سمجھ لینا کہ یہ علم تمھارے لیے نفع بخش نہیں نقصا ن دہ ہے (صفۃ الصفوۃ)۔
امام مالکؒ کی عظمت سے کون واقف نہیں ہے، جب وہ بچے تھے تو ان کی والدہ انھیں کپڑے پہناتیں، سر پر عمامہ باندھتیں اور امام ربیعہ کی مجلس میں بھیجتیں، اس وقت یہ نصیحت بھی کرتیں: میرے بیٹے، ربیعہ کی مجلس میں جاؤ اور دیکھو ان سے حدیث اور فقہ کا علم سیکھنے سے پہلے ان کے سلیقے اور ادب کو سیکھنا (ترتیب المدارک)۔
امام شافعیؒ یتیم تھے، ان کی والدہ بہت تنگ دست تھیں۔ مگر اپنے بیٹے کو دینی تعلیم دلانے کے لیے اپنا گھر گروی رکھ کر قرض حاصل کیا اور امام شافعی کو دور دراز علمی مراکز میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا (تاریخ دمشق)۔
امام احمد بن حنبلؒ کے والد ان کے بچپن میں انتقال کرگئے۔ والدہ نے بیٹے کی بہترین تربیت کرنے کی ٹھانی۔ وہ فجر سے پہلے انھیں اٹھاتیں، کم سن بچہ اور اس کی ماں دونوں مل کر دیر تک تہجد کی نماز پڑھتے، پھر جب فجر کی اذان ہوتی تو ان کا ہاتھ پکڑتیں اور مسجد لے جاتیں، نماز ختم ہونے تک انتظار کرتیں پھر انھیں لے کر گھر واپس لوٹتیں۔ انھوں نے بچپن میں ہی قرآن حفظ کرلیا۔ اس کے بعد جب بارہ سال کے ہوئے تو والدہ نے کہا: بیٹا اب علم کی جستجو میں نکلو۔
کتنے ہی جلیل القدر علمائے کرام ہیں، جن کے علم وبزرگی کے عظیم الشان محل ان کی ماؤں کی خواہش و کوشش کا مرہون منت تھے۔ بہت سی بلند و بالا شخصیتوں کی پہلی اینٹ ماں کے دل میں پلنے والی امنگ ہوتی ہے۔