آخری رسومات کے پیسے نہیں، غریب بہنیں ایک ہفتہ ماں کی لاش کے ساتھ رہتی رہیں
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
بھارت کی ریاست تلنگانہ کے علاقے سکندرآباد میں 2 نوجوان بہنیں مالی مشکلات کے دوران آخری رسومات کے لیے رقم نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً ایک ہفتہ تک اپنی ماں کی لاش کو گھر میں رکھنے پر مجبور ہوگئیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق واراسی گوڈا کی رہنے والی خاتون گزشتہ ہفتے بیماری کی وجہ سے انتقال کرگئی، اس کی بیٹیاں، 25 سالہ راولیکا، ایک ساڑھی کی دکان پر کام کرتی ہے اور دوسری بیٹی 22 سالہ اشویتا ایک ایونٹ پلانر ہے، وہ دونوں اپنی والدہ کی آخری رسومات ادا کرنے کے اخرجات برداشت کرنے کے قابل نہیں تھیں۔
رپورٹس کے مطابق ان کے والد نے 2020 میں تنازعات کے بعد خاندان کو چھوڑ دیا تھا، اس کے بعد والد نے کی کوئی مالی مدد نہیں کی، پورے ہفتے کے دوران بہنیں الگ کمرے میں رہیں جب کہ انہوں نے اپنی والدہ کی لاش دوسرے کمرے میں رکھا۔
یہ افسوسناک صورتحال اس وقت سامنے آئی جب پڑوسیوں نے بدبو محسوس کرنے کے بعد پولیس کو اطلاع دی، اس کے بعد حکام نے لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال منتقل کیا۔
رپورٹ کے مطابق پولیس کو معاملے کی رپورٹ ہونے سے قبل بہنوں نے اپنی والدہ کی آخری رسومات کے لیے ایک مقامی کثیر المقاصد ہال سے مدد طلب کی تھی، ہال انتظامیہ نے پولیس سے رابطہ کیا، اس کے بعد پولیس ٹیم نے جائے وقوع پر پہنچ کر معاملے کی تفتیش شروع کی۔
رپورٹس کے مطابق یہ خاندان صرف 2 ماہ قبل اس علاقے میں منتقل ہوا، دونوں بہنوں نے اپنے ایک رشتہ دار سے مدد کے لیے رابطہ کیا لیکن انھوں نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے مطابق کے لیے کے بعد
پڑھیں:
تنوشری دتہ کی چیخیں سنائی نہیں دے رہیں: می ٹو موومنٹ کی بانی اب خود مدد کی طلبگار
ایک وقت تھا جب بالی وڈ کی نڈر اداکارہ تنوشری دتہ نے بھارت میں ’می ٹو‘ تحریک کا آغاز کر کے پورے معاشرے کو جھنجھوڑ دیا تھا۔ ان کی آواز نے برسوں سے دبے سچ کو زبان دی، اور خواتین کو طاقتور مردوں کے خلاف کھڑے ہونے کا حوصلہ دیا۔ مگر افسوس کہ آج وہی تنوشری دتہ اپنی زندگی کی سب سے تنہا اور پرخطر جنگ لڑ رہی ہیں، اور ان کی مدد کو کوئی نہیں آ رہا۔
تنوشری دتہ نے حال ہی میں ایک جذباتی ویڈیو پیغام میں انکشاف کیا ہے کہ وہ گزشتہ چار سے پانچ سال سے اپنے ہی گھر میں ذہنی اور جسمانی طور پر ہراسانی کا شکار ہیں۔ یہ ویڈیو نہ صرف ان کے درد کو ظاہر کرتی ہے بلکہ بالی وڈ کی چمکتی دنیا کے سیاہ پہلو کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔
View this post on Instagram
A post shared by Tanushree Dutta Miss India Universe (@iamtanushreeduttaofficial)
2018 کی ’می ٹو‘ تحریک کا پس منظر
تنوشری دتہ کا نام اس وقت ہر زبان پر آیا جب انہوں نے 2018 میں سینئر اداکار نانا پاٹیکر پر سیٹ پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا۔ ان کے انکشافات نے بھارت میں ’Me Too Movement‘ کا آغاز کیا، جس میں درجنوں خواتین نے مشہور ہستیوں کے خلاف جنسی استحصال کے واقعات بیان کیے۔
انہوں نے فلمساز وویک اگنی ہوتری پر بھی نازیبا رویے کا الزام لگایا، اگرچہ بعد میں ان الزامات پر قانونی کارروائیوں میں کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آئے۔
اب تنوشری خود ہے خوف، تنہائی اور دباؤ کا شکار
تنوشری دتہ نے اپنی ویڈیو میں بتایا کہ وہ شدید ذہنی دباؤ، ہراسانی اور شک کی فضا میں زندگی گزار رہی ہیں۔ ان کے مطابق:
انہیں اپنے ہی گھر میں مسلسل پریشان کیا جا رہا ہے
ملازمہ رکھنے سے قاصر ہیں کیونکہ انہیں شک ہے کہ ملازمائیں دانستہ طور پر ان کے خلاف بھیجی گئیں
ان کے اپارٹمنٹ میں 2020 سے مسلسل شور شرابہ اور پراسرار آوازیں سنائی دیتی ہیں
وہ بلڈنگ انتظامیہ سے بارہا شکایت کر چکی ہیں، لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی
انہوں نے کہا کہ مسلسل ذہنی دباؤ کے باعث وہ “کرونک فیٹیگ سنڈروم” جیسے مرض میں مبتلا ہو چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ سکون حاصل کرنے کے لیے روزانہ ہندو مذہبی منتر پڑھتی ہیں۔
پولیس شکایت اور قانونی اقدام
تنوشری دتہ نے ویڈیو میں بتایا کہ وہ پولیس سے رابطہ کر چکی ہیں اور جلد ہی باضابطہ شکایت درج کرانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ ان کے مطابق پولیس نے انہیں اسٹیشن آ کر درخواست دینے کا مشورہ دیا ہے، لیکن ان کی خراب صحت فی الحال اس میں رکاوٹ ہے۔
سوشل میڈیا پر خاموشی؟
یہ حیرت انگیز امر ہے کہ 2018 میں جس تحریک نے لاکھوں آوازوں کو ایک پلیٹ فارم دیا، آج وہی پلیٹ فارم تنوشری دتہ کی پکار پر خاموش ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کی ویڈیو کے بعد چند تبصرے تو ضرور آئے، لیکن کوئی نمایاں حمایت یا ہیش ٹیگ مہم سامنے نہیں آئی۔
ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
تنوشری دتہ ہراسانی کیس نہ صرف ایک انفرادی کہانی ہے بلکہ یہ کئی بڑے سوالات کھڑے کرتا ہے:
کیا سچ بولنے والی خواتین کو نظام تحفظ فراہم کرتا ہے؟
کیا ’می ٹو‘ جیسی تحریکیں وقتی جذباتی ردعمل تھیں؟
کیا ہم صرف وائرل ہیش ٹیگ کی حد تک انصاف کی حمایت کرتے ہیں؟
کیا ہم ایک اور آواز کو خاموش ہونے دیں گے؟
تنوشری دتہ ہراسانی کیس ہمیں ایک بار پھر یاد دلاتا ہے کہ جب ایک عورت طاقتور حلقوں کے خلاف کھڑی ہوتی ہے، تو اس کی زندگی آسان نہیں رہتی۔ آج، تنوشری صرف انصاف نہیں بلکہ بنیادی انسانی ہمدردی کی طلبگار ہیں۔
اگر ہم واقعی خواتین کے حقوق، انصاف اور مساوات کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اس وقت بولنا ہوگا، جب آواز دبائی جا رہی ہو — نہ کہ صرف تب جب وہ ٹرینڈنگ ہو۔
Post Views: 4