بھارت کا جنگی جنون ، دفاعی بجٹ میں 9.5فیصد اضافہ، 21کھرب 94 ارب روپے مختص WhatsAppFacebookTwitter 0 2 February, 2025 سب نیوز

نئی دہلی (آئی پی ایس )بھارت کا جنگی جنون عروج پر ہے، دفاعی بجٹ میں 9.5فیصد اضافہ کردیا، جس کے بعد مجموعی بجٹ 78 ارب ڈالر تک پہنچ گیا،بھارت کی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کردیا، جس میں دفاعی بجٹ میں ساڑھے نو فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ 9.

5 فیصد کے اس اضافے سے بھارت کا کل دفاعی بجٹ 21 کھرب 94 کروڑ تک پہنچ گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اس بجٹ میں سے دو تہائی حصہ تنخواہوں اور پیشن کی مد میں استعمال ہوگا اور 1.8 ارب بھارتی روپے سے جنگی ہتھیار خریدے جائیں گے۔رواں مالی سال کے لیے وزارت دفاع کے 681210.27 کروڑ روپے (78.70ارب ڈالر)مختص کیے گئے ہیں، جو کہ مجموعی بجٹ کا 8 فیصد بنتا ہے۔ گزشتہ سال دفاعی بجٹ 621940 کروڑ روپے تھا۔بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق مالی سال 2025-26 کے دفاعی بجٹ میں 4.88 لاکھ کروڑ روپے ریونیو اخراجات کے لیے جبکہ 1.92 لاکھ کروڑ روپے کیپٹل اخراجات کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
کیپٹل اخراجات میں 1.80 لاکھ کروڑ روپے نئے ہتھیاروں، طیاروں اور جنگی جہازوں کی خریداری کے لیے رکھے گئے ہیں، جبکہ 12,387 کروڑ روپے سول سروسز اور وزارت دفاع کے دیگر اخراجات کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔اس سال تحقیق و ترقی کے لیے 14,923.82 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں، جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 12 فیصد زیادہ ہے۔بھارت نے اپنی بحری طاقت میں اضافے پر بھی توجہ دی ہے۔ اس سال بحری بیڑے کی توسیع کے لیے 249 ارب روپے روپے مختص کیے گئے ہیں۔ فضائیہ کے لیے486 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔وزارت دفاع کے ریونیو اخراجات کے لیے 3.11 لاکھ کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، جو کہ گزشتہ سال 2.87 لاکھ کروڑ روپے تھے۔ فوج کے اگنی پتھ اسکیم کے تحت اخراجات میں بھی 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
دفاعی پنشن کے لیے تقریبا 1608 ارب روپے روپے مختص کیے گئے ہیں، جس میں سے سب سے زیادہ حصہ بھارتی فوج کو دیا گیا ہے جو 1400 ارب سے زیادہ ہے۔ فضائیہ کو 175 ارب اور بحریہ کو 94 ارب روپے دیے گئے ہیں۔

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: مختص کیے گئے ہیں لاکھ کروڑ روپے اخراجات کے لیے دفاعی بجٹ میں فیصد اضافہ روپے مختص بھارت کا ارب روپے

پڑھیں:

نسل کشی کا جنون

اسلام ٹائمز: آج غزہ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی وجہ صرف جنگ نہیں ہے بلکہ وہ ایک منصوبہ بیندی کے تحت نسل کشی کا نتیجہ ہے جو یا تو مغرب کی خاموشی اور یا اس کے براہ راست تعاون سے جاری ہے۔ امریکہ غاصب صیہونی رژیم کو دھڑا دھڑ اسلحہ فراہم کر رہا ہے جبکہ فلسطینیوں کی حمایت کرنے والے مغربی اور بین الاقوامی تعلیمی، قانونی، انسانی حقوق اور دیگر اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کے ذریعے فلسطینیوں کی نسل کشی میں برابر کا شریک ہے۔ آزاد میڈیا ذرائع کی اخلاقی اور انسانی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان مجرمانہ اقدامات کو برملا کریں اور غزہ میں فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی اور فلسطینیوں کی نسل کشی میں ملوث حکمرانوں کے خلاف عدالتی کاروائی کے لیے موثر اقدامات انجام دیں۔ تحریر: رسول قبادی
 
غزہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا کھلا زندان بن چکا ہے۔ ایسا زندان جس کے قیدیوں کا واحد جرم فلسطینی ہونا ہے اور انہیں اس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ مارچ 2025ء سے غزہ کی پٹی کا مکمل گھیراو جاری ہے اور حتی بنیادی ضرورت کی انسانی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن کی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی تقریباً تمام آبادی جو 22 لاکھ افراد پر مشتمل ہے غذائی قلت کا شکار ہو چکی ہے۔ اعداد و شمار دل دہلا دینے والے ہیں: 9 لاکھ 24 ہزار افراد غذائی بحران جبکہ 2 لاکھ 44 ہزار افراد غذائی اشیاء کی قلت کے باعث موت کے خطرے سے روبرو ہیں۔ اس خاموش جنگ کی بھینٹ چڑھنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد بچوں کی ہے اور اب تک سینکڑوں بچے غذائی قلت کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
 
اسی طرح 60 ہزار بچے غذائی قلت کے باعث شدید خرابی صحت کا شکار ہیں۔ فلسطینی مہاجرین کی امداد رسانی کرنے والے ادارے نے رپورٹ دی ہے کہ اس کے طبی مراکز میں معائنہ ہونے والے ہر 10 بچوں میں سے ایک غذائی قلت کے باعث خرابی صحت کا شکار ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کے معیارات کی روشنی میں یہ صورتحال مرحلہ وار نسل کشی ہے اور بین الاقوامی ادارے واضح طور پر اسرائیل پر قحط کو جنگی ہتھیار کے طور پر بروئے کار لانے کا الزام عائد کر چکے ہیں۔
بھوکے افراد کا قتل عام، بے مثال جرم
گذشتہ کچھ عرصے سے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف ایک نئی قسم کا مجرمانہ اقدام انجام پا رہا ہے جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ وہ یہ کہ غذائی امداد تقسیم کرنے کے بہانے مخصوص مراکز میں بھوکے فلسطینیوں کو بلایا جاتا ہے اور پھر صیہونی فوج ان پر فائرنگ کر کے ان کا قتل عام کرتی ہے۔
 
جی ایچ ایف، اسرائیل کے چہرے پر امریکی نقاب
حال ہی میں امریکہ اور اسرائیل نے مل کر غزہ میں انسانی امداد کی تقسیم کے لیے ایک نیا ادارہ بنایا ہے جس کا نام جی ایچ اف (Gaza Humanitarian Foundation) رکھا گیا ہے۔ یہ ادارہ اس وقت غزہ میں "قاتل انسانی امداد" کی علامت بن چکا ہے۔ اس ادارے نے وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا اور تشہیر کے ذریعے غزہ میں بھوکے فلسطینیوں کو اپنے امدادی مراکز آ کر امداد وصول کرنے کی ترغیب دلائی ہے اور جب ان مراکز میں فلسطینیوں کا اکٹھ ہو جاتا ہے تو صیہونی فوجی فائرنگ کر کے دسیوں فلسطینیوں کو شہید اور زخمی کر دیتے ہیں۔ یہ ادارہ وسیع پروپیگنڈے کے ذریعے خود کو اہل غزہ کا نجات دہندہ ظاہر کرتا ہے اور اس کا ماہیانہ بجٹ 140 ملین ڈالر ہے۔ ماہرین کی نظر میں اس ادارے کی تشکیل کا اصل مقصد غزہ میں فلسطینیوں کی مدد نہیں بلکہ انہیں کنٹرول کرنا ہے۔
 
جبری منتقلی اور اندھی بمباری
غزہ میں شدید قحط کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی جنگی مشینری بھی پوری طرح سرگرم عمل ہے اور آئے دن نہتے فلسطینیوں پر زمین اور ہوا سے وحشیانہ حملے جاری ہیں۔ 20 اور 21 جولائی کی بات ہے جب اسرائیلی ٹینک غزہ کے مرکزی حصے میں واقع دیر البلح شہر میں گھس گئے اور شہری علاقوں پر شدید گولہ باری شروع کر دی۔ اس حملے میں کم از کم تین عام شہری شہید اور ہزاروں دیگر شہری وہاں سے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے تھے۔ اس وقت غزہ کا تقریباً 90 فیصد حصہ غاصب صیہونی رژیم کے فوجی تسلط یا وہاں سے شہریوں کی جبری جلاوطنی کا شکار ہے۔ امریکی اور صیہونی حکام نے حال ہی میں ایک اور منصوبہ بنایا ہے جسے "انسان پسند شہر" نام دیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت غزہ کے جنوب میں 6 لاکھ فلسطینیوں کو جمع کرنا ہے۔ انسانی حقوق کے اداروں نے اس کی مذمت کی ہے۔
 
مغرب کی مجرمانہ خاموشی اور تعاون
عالمی سطح پر غزہ میں فلسطینیوں کی جاری نسل کشی کے ردعمل میں دنیا کے اکثر ممالک نے زبان کی حد تک مذمت کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ پاپ کوئی چہاردھم نے بھی اپنے سرکاری بیانیے میں اسرائیلی اقدامات کو "وحشیانہ" قرار دیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ اور اسرائیل کے دیگر مغربی اتحادی ممالک کھل کر اس کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ امریکہ نے تو تمام حدیں پار کرتے ہوئے عالمی فوجداری عدالت پر بھی اسرائیلی حکمرانوں کے خلاف فیصلہ سنانے کے جرم میں پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ یورپی یونین نے غزہ کے لیے امدادرسانی کے معاہدے پر دستخط کے باوجود اب تک غزہ میں فلسطینیوں تک امداد پہنچنے کی یقین دہانی کے لیے کوئی موثر اقدام انجام نہیں دیا ہے۔ انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں نے یورپی یونین پر بھی اسرائیلی جرائم میں شریک ہونے کا الزام لگایا ہے۔
 
فلسطینیوں کی نسل کشی میں مغرب کا کردار
آج غزہ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی وجہ صرف جنگ نہیں ہے بلکہ وہ ایک منصوبہ بیندی کے تحت نسل کشی کا نتیجہ ہے جو یا تو مغرب کی خاموشی اور یا اس کے براہ راست تعاون سے جاری ہے۔ امریکہ غاصب صیہونی رژیم کو دھڑا دھڑ اسلحہ فراہم کر رہا ہے جبکہ فلسطینیوں کی حمایت کرنے والے مغربی اور بین الاقوامی تعلیمی، قانونی، انسانی حقوق اور دیگر اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کے ذریعے فلسطینیوں کی نسل کشی میں برابر کا شریک ہے۔ آزاد میڈیا ذرائع کی اخلاقی اور انسانی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان مجرمانہ اقدامات کو برملا کریں اور غزہ میں فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی اور فلسطینیوں کی نسل کشی میں ملوث حکمرانوں کے خلاف عدالتی کاروائی کے لیے موثر اقدامات انجام دیں۔

متعلقہ مضامین

  • ہفتہ وار مہنگائی کی شرح بڑھ کر 4.07فیصد ہو گئی ، 14اشیائے ضروریہ مزید مہنگی
  • پاکستانی روپے کی قدر میں بہتری، ڈالر کے مقابلے میں 76 پیسے کا اضافہ
  • ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل تیسرے روز اضافہ
  • سعودی عرب میں ٹرین سے سفر کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ
  • مچھلی اور اس کی مصنوعات کی برآمد میں جون کے دوران سالانہ بنیاد پر 25.58 فیصد اضافہ ،حجم 10.8 ارب روپے رہا
  • بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم میں ہوش رُبا اضافہ، مودی راج میں انصاف ناپید
  • بگ باس 19 کی میزبانی کے لیے سلمان خان کتنے کروڑ لیں گے؟
  • قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے والی 10 پاور کمپنیاں کون سی ہیں؟
  • نسل کشی کا جنون
  • راولپنڈی میں گھر سے 1 کروڑ 70 لاکھ روپے اور 15 تولے زیورات چوری