21ویں ترمیم میں تو سیاسی جماعت کو باہر رکھا گیاتھا،سوال یہ ہےکہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کس پر ہوگا،جسٹس جمال مندوخیل
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) سپریم کورٹ آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل فیصلے کیخلاف اپیلوں پرسماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ 21ویں ترمیم میں تو سیاسی جماعت کو باہر رکھا گیاتھا،سوال یہ ہےکہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کس پر ہوگا۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق سپریم کورٹ آئینی بنچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل فیصلے کیخلاف اپیلوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی بنچ سماعت کررہا ہے،دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ اپنے دلائل محدود رکھیں، کیا مرکزی فیصلہ درست تھا یا نہیں،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ 21ویں ترمیم میں تو سیاسی جماعت کو باہر رکھا گیاتھا،سوال یہ ہےکہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کس پر ہوگا، عدالت نے کہاکہ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ پر حملے کی صورت میں ٹرائل اے ٹی سی میں چلے گا، جی ایچ کیو پر حملے کی صورت میں ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوگا، جسٹس مندوخیل نے کہاکہ میری نظر میں تینوں حملے ایک جیسے ہیں تو تفریق کیوں اور کیسے کی جاتی ہے،خواجہ احمد حسین نے کہاکہ عدالت ایسا دروازہ نہ کھولے جس سے سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو، جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ ہم کوئی دروازہ نہیں کھول رہے،ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے اپیل منظور کی جاتی ہے یا خارج۔
لاہور؛موٹرسائیکل سواروں کی فائرنگ ، وکیل گھر کی دہلیز پر قتل
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: نے کہاکہ
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، جج نے غصے میں فیصلہ دیا
اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے ، جسٹس ہاشم کاکڑ
صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے ۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے ۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے ؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے ۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے ۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔