پشاور؛ 18 سال بعد ویران اسٹیڈیم پھر آباد ہونے کو تیار
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
پشاور کے ارباب نیاز اسٹیڈیم میں 18 سال بعد کرکٹ کی رونقیں بحال ہونے کا امکان پیدا ہوگیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق 2006 کے بعد پشاور میں بین الاقوامی کرکٹ لوٹ آنے کا امکان پیدا ہوگیا ہے، پاکستان کرکٹ بورڈ (پی ایس ایل) کے 2 میچز پشاور میں کرانے کی یقین دہانی کروادی ہے۔
18 سال قبل 2006 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان آخری بین الاقوامی کرکٹ میچ کھیلا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: پی ایس ایل کی 2 ٹیموں کے نئے خریدار مل گئے، مگر کہاں سے؟
پشاور کا ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم میں بین الاقوامی کرکٹ سرگرمیاں بحال ہونے جارہی ہیں، پشاور زلمی اور حکومت خیبرپختونخوا کے اصرار پر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے پی ایس ایل کے 2 میچز پشاور میں کرانے کی یقین دہانی کروائی ہے لیکن مصنوعی روشنیوں کا انتظام نہ ہونے کی باعث دونوں میچز دن کی روشنی میں کرائے جائیں گے۔
مزید پڑھیں: پی ایس ایل میں اسٹارز فرنچائزز کی جیب پر بوجھ نہیں بنیں گے، مگر کیسے؟
پاکستان کرکٹ بورڈ کے مطابق آئی سی سی کی چیمئینز ٹرافی جمعرات کے روز پشاور پہنچے گی اور ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم میں نمائش کی جائے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پی ایس ایل
پڑھیں:
پشاور، سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45لاکھ 80ہزار روپے کا نقصان ہوا۔
اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس،کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5کیسوں میں 4کروڑ 40لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔
مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2کیسز میں حکومت کو 45لاکھ روپے کا نقصان اور 14لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔
رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔