ہیومن رائٹس واچ نے امریکہ کو اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات میں شریک جرم قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
ہیومن رائٹس واچ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے درمیان ملاقات کے موقع پر خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ اسرائیل کو بدستور اسلحہ اور فوجی امداد فراہم کرنا جاری رکھتا ہے تو گویا وہ غزہ میں اسرائیلی مجرمانہ اقدامات میں شریک جرم ہونے کو جاری رکھتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد غزہ پر اسرائیل کی فوجی جارحیت کے دوران امریکہ نے بہت وسیع حد تک صیہونی رژیم کو سیکورٹی امداد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اسلحہ اور فوجی سازوسامان فراہم کیا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اگرچہ صیہونی فوج نے امریکہ کے فراہم کردہ اسلحہ اور فوجی سازوسامان کو غزہ میں واضح جنگی جرائم کے ارتکاب میں استعمال کیا تھا لیکن جو بائیڈن کی سربراہی میں امریکی حکومت نے اس کی فوجی امداد جاری رکھی اور بدستور اسرائیل کو بڑی مقدار میں اسلحہ اور فوجی سازوسامان فراہم کرتی رہی۔ ہیومن رائٹس واچ کے اعلی سطحی عہدیدار برونو اسٹیگنو نے اس بارے میں کہا: "اگر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ میں اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات میں جو بائیڈن حکومت کی شراکت اور تعاون کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں فوراً اسرائیل کو اسلحہ کی فراہمی روک دینی چاہیے۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ کی جنگ ہماری جنگ نہیں ہے بلکہ ان کی جنگ ہے لیکن جب تک امریکہ اسرائیل کی فوجی مدد اور حمایت ختم نہیں کرتا اس وقت تک غزہ کی جنگ ٹرمپ کی جنگ بھی جانی جائے گی۔"
امریکہ کی براون یونیورسٹی کی جانب انجام پانے والی ایک تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد ایک سال کے اندر صیہونی رژیم کو فراہم کی جانے والی امریکہ کی فوجی امداد میں 17.
غاصب صیہونی رژیم نے گذشتہ تقریباً 16 ماہ کی جنگ کے دوران بھوک کو فلسطینیوں کے خلاف ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ شدید محاصرے کے باعث غزہ میں مقیم فلسطینی پانی، بجلی، میڈیکل سہولیات اور دیگر ضروری اشیاء سے محروم رہے ہیں۔ اسی طرح صیہونی فوج نے غزہ کا انفرااسٹرکچر بھی تباہ کر دیا ہے جس میں اسکول، یونیورسٹیاں، اسپتال، میڈیکل مراکز اور رہائشی عمارتیں شامل ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کی ویب سائٹ کے مطابق یہ تمام اقدامات جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور مختلف ذرائع ابلاغ جیسے سی این این، این پی آر، نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور فرانس نیوز ایجنسی میں شائع ہونے والی دیگر دسیوں رپورٹس میں واضح کیا گیا ہے کہ صیہونی فوج کی جانب سے غزہ میں بروئے کار لائے جانے والے امریکی ہتھیاروں کے باعث عام شہریوں اور امدادی کارکنوں کا قتل عام ہوا ہے جو بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس کے باوجود سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کو فوجی ہتھیار فراہم کرنا بند نہیں کیے تھے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلحہ اور فوجی سازوسامان صیہونی رژیم اسرائیل کو فوجی امداد جو بائیڈن کی فوجی کی جنگ
پڑھیں:
اسرائیل کی جوہری تنصیبات سے متعلق حساس دستاویزات ایران کو مل گئیں، جلد جاری کرنے کا اعلان
TEHRAN:ایران کے وزیر انٹیلیجینس اسماعیل خطیب نے اسرائیلی کی جوہری تنصیبات اور امریکا، یورپت سمیت دیگر ممالک سے تعلقات سے متعلق حساس دستاویزات ملنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جلد ہی یہ دستاویزات جاری کردی جائیں گی اور اس سے ایران کی دفاعی صلاحیت مضبوط ہوگی۔
غیرملکی خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایران کے وزیر انٹیلیجینس اسماعیل خطیب نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ تہران کو ملنے والی اسرائیلی حساس دستاویزات بہت جلد بے نقاب کردی جائیں گی۔
اسماعیل خطیب نے کہا کہ یہ دستاویزات اسرائیل کی جوہری تنصیبات، دفاعی صلاحیت اور اس کے امریکا، یورپ اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بیش بہا خزانے کی منتقلی وقت طلب اور سیکیورٹی درکار تھی، منتقلی کا طریقہ کار بدستور خفیہ ہوگا لیکن دستاویزات بہت جلد جاری کردی جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ حجم کے اعتبار سے دستاویزات کو ہزاروں میں بتایا جائے تو کم ہوگا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران کے سرکاری میڈیا نے گزشتہ روز رپورٹ کیا تھا کہ ایرانی خفیہ ایجنسیوں کو بڑے پیمانے پر اسرائیلی حساس دستاویزات موصول ہوگئی ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل نے تاحال ایران کے ان دعووں پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔
ایران کو ملنے والی اسرائیلی حساس دستاویزات کے حوالے سے یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ دستاویزات گزشتہ برس ہیک کیے گئے اسرائیلی جوہری ریسرچ سینٹر سے جڑی ہوئی ہیں یا کوئی نئی دستاویزات ہیں۔
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے 2018 میں کہا تھا کہ اسرائیلی ایجنٹوں نے ایرانی دستاویزات کی بڑی تعداد حاصل کرلی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہران پہلے سے زیادہ جوہری کام کر رہا ہے۔