ماحولیاتی آلودگی اور بڑھتی ہوئی گرمی
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
امریکی شہر لاس اینجلس میں لگی آگ کے حقائق سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں ، رواں سال جنوری 7کی صبح اس آگ کا آغا ہوا اس کے بعد یہ آگ 40ہزار ایکڑ پر پھیل گئی ۔ 12ہزار سے زیادہ عمارتیں جل چکی ہیں لوگوں کے گھر راکھ کے ڈھیر بن چکے اب تک پچاس بلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے ۔ ایک لاکھ اسی ہزار سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں ۔ جنوبی کیلفیورنیا میں گزشتہ سال جولائی کے بعد کوئی بارش نہیں ہوئی ۔ جون جولائی گرم ترین تھے ۔
اکتوبر بھی گرم ترین رہا۔ اس علاقے میں جولائی کے بعد کوئی بارش نہیں ہوئی ۔ جنوری کا موسم سرد ہوتا ہے لیکن اس مہینے بھی ناکافی بارش ہوئی ۔ پیڑ پودے وغیرہ سوکھ گئے ۔ فضا میں نمی کم ہو گئی ۔ ہوا میں خشکی بڑھ گئی طاقتور خشک ہوائیں چلیں ۔ گرم سوکھی ہوا نے آگ کو مزید بڑھا دیا ۔
ماحولیاتی سائنسدان پیٹر کیل مس اس علاقے میں رہائش رکھتے تھے آگ لگنے سے کچھ عرصہ پہلے انھوں نے اس علاقے کو چھوڑ دیا کیونکہ ان کو آنے والے خطرے سے آگاہی ہو چکی تھی ۔ اس موضوع پر انھوں نے نیو یارک ٹائمز بلکہ دوسرے اخباروں میں لکھ کر عوام کو اس خطرے سے آگاہ کیا۔ خشک سالی اور گرم طاقتور ہواؤں نے پیڑ پودوں میں نہ صرف آگ لگادی بلکہ اس کے پھیلاؤ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ آگ اتنی تیزی سے پھیلی کہ لوگ اپنے آپ کو بڑی مشکل سے بچاسکے ۔ کم از کم چوبیس افراد اس آگ کی نذر ہوئے ۔
یہ سب کلائمیٹ چینج کا نتیجہ ہے یعنی ماحولیاتی تباہی جس نے پوری دنیا کو اپنی تباہ کن گرفت میں جکڑ لیا ہے ۔ بس یہ سمجھیں کہ سورج سوا نیزے پر آگیا ہے ۔ بڑھتی ہوئی حدت بے پناہ حدت جس نے زمین کے کسی کونے کو نہیں چھوڑا۔ ابھی موسم گرما بظاہر دور ہے لیکن اس کی آمد کا طبل ابھی سے بجنا شروع ہو گیا ہے ۔
اندازہ کریں اس دفعہ موسم سرما کا دورانیہ لاہور میں صرف دس سے بارہ دن رہا ہے ۔ سخت سردی جو بظاہر اتنی سخت بھی نہیں تھی صرف دس بارہ جنوری تک رہی اس کے بعد بتدریج گھٹتے ہوئے بیس جنوری تک ختم ہو گئی امکان نہیں بلکہ یہ بات یقینی ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے جب موسم سرما مکمل طور پر غائب ہو جائے گا تو لوگوں کو موسم سرما منانے اور گرم کپڑے پہننے کے لیے پہاڑی علاقوں میں جانا پڑے گا اگر وہ بھی گرم نہ ہو گئے۔ جس کا خدشہ بہت زیادہ ہے ہو سکتا ہے اس سال گرمی فروری سے ہی شروع ہو جائے ۔
اقوام متحدہ کے پانی سے متعلق معاملات کو دیکھنے والے مختلف اداروں کو ’’یو این واٹر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ماحولیاتی تباہی کی وجہ سے مستقبل میں حالات مزید خراب ہو نے والے ہیں ۔ جب زمین انسانوں اور جانداروں کے لیے ناقابل رہائش ہو جائے گی ۔ آپ دیکھیں گے سرمایہ داری نظام کا خوفناک خون آشام مکروہ چہرہ جس نے صرف دولت کمانے کے لیے دنیا کو ایک ایسے خطرے میں دھکیل دیا جس سے نکلنا اب ناممکن ہو گیا ہے ۔
اس کی ذمے دار 57ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں جو دنیا میں فوسل فیول یعنی کول آئل اور گیس کا کاروبار کرتی ہیں ۔ دنیا بھر میں جتنی بھی گرین گیسز پیدا ہوتی ہے اس کا 80فیصد یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں پیدا کر رہی ہیں ان میں زیادہ تر کمپنیوں کا تعلق امریکا سے ہے ۔ مزید یہ کہ اس میں چین ، روس، میکسیکو ، ایران، سعودی عرب اور انڈیا کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ امریکی کمپنیوں کو گرین گیسز کی حقیقت کا پتہ 1954میں ہی چل گیا تھا کہ فوسل فیول سے پیدا ہونے والی زہریلی گیسیں دنیا اور اس میں بسنے والے انسانوں کے لیے موت کا پیغام ہے لیکن انھوں نے اپنی ہی اس ریسرچ کو ظاہر کرنے کے بجائے یہ پروپیگنڈا کرنا شروع کردیا کہ ان گیسز سے ماحولیات کو کوئی خطرہ نہیں ہے تاکہ ان کی دولت میں اضافہ ہی ہوتا جائے ۔
صرف یہی نہیں انھوں نے بے پناہ دولت کے حصول کے لیے دنیا بھر میں سیاستدانوں اور حکومتوں کو خرید ا۔ من پسند قوانین پاس کروائے ۔متبادل توانائی کے منصوبوں میں رکاؤٹ ڈالی گئی جس میںامریکی ڈیمو کریٹ اور ری پبلکن سنیٹر بھی شامل ہیں ۔ اب یہی کام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ2018 سے کر رہے ہیں جو ماحولیاتی تباہی کو ماننے سے ہی انکاری ہیں ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انھوں نے نے والے کے بعد گیا ہے کے لیے
پڑھیں:
ہر چیزآن لائن، رحمت یا زحمت؟
تیزی سے ترقی کرتی دنیا میں انٹرنیٹ کی ایجاد یقیناً وہ سنگ میل تھا جس کو عبورکرتے ہی بنی نوع انسان نے اپنے لیے نہ صرف کئی سہولتوں کے در وا کر لیے بلکہ لاکھوں کروڑوں میل کے فاصلے کو بھی، گویا پلک جھپکتے طے کر لیا۔
ابتدا میں یہ سہولت صرف ویب کیم کے ذریعے سات سمندر رابطے تک محدود تھی مگر جب فیس بک اور پھر واٹس ایپ کی ایجاد ہوئی تو پھر تو ہفت اقلیم کا خزانہ ہی ہاتھ لگ گیا۔
عزیز و اقارب سے بات چیت، تصاویر کے تبادلے، دور پرے رشتے داروں کو دعوت نامے بھیجنا تو آسان ہوا ہی اب گھر بیٹھے کسی بھی ملک کے علاقے، ثقافت، کھانے، تہذیب و سیاسی حالات الغرض ہر چیز کو جاننا محض ایک اشارے کا محتاج ہوگیا۔
تیزی سے سمٹتی اس دنیا کو مزید قریب آنے کا موقع اس وقت ملا جب کورونا وائرس نے اپنے پنجے گاڑے۔
اندھا دھند چلتی دنیا کو بریک لگ گئے مگر واحد دنیا جو ابھی بھی رواں دواں تھی وہ انٹرنیٹ کی دنیا تھی۔ اس وبا نے باقی دنیا کو تو روک دیا مگر انٹرنیٹ کی دنیا کی رفتار مزید بڑھا دی، آن لائن کاروبار تو مزید بڑھا ہی، اب پڑھائی کے لیے بھی انٹرنیٹ کے استعمال کا رجحان زور پکڑ گیا۔
آن لائن کلاسز جو پہلے صرف کچھ یونیورسٹیز میں ہوتی تھیں، اب گھر، گھر ہونے لگیں کاروباری سرگرمیاں، رقوم کا لین دین، درس و تدریس غرض کئی شعبوں میں آن لائن کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا مگر کیا واقعی یہ جادو اپنے ساتھ صرف مثبت تبدیلیاں لایا ہے یا اس نے ہماری زندگی بظاہر آسان اور درحقیقت مشکل بنا دی ہے؟
پاکستان ایک ترقی پذیر اور کئی شعبہ جات میں زوال پذیر ملک ہے ’’ کوا چلا ہنس کی چال‘‘ کے مصداق ترقی یافتہ دنیا کے طور طریقے ہم نے اپنا تو لیے ہیں مگر ان کے لیے کیا منصوبہ بندی ہوگی؟ کیا نظام ہوگا؟ کسی مسئلے کے نتیجے میں اس کا حل کیا ہوگا؟
اس پر سوچنے کی زحمت کوئی نہیں کرتا۔ نتیجہ صرف یہ ہے کہ کچھ جگہوں پر ہمارا کام دگنا ہوگیا ہے اور کچھ جگہ ہم شدید نقصانات اٹھا رہے ہیں۔
اس ضمن میں سب سے پہلی اور سادہ ترین مثال ہے، آن لائن شاپنگ کی جو بے انتہا مقبول اور با سہولت ہے اس نے نہ صرف بڑے بڑے برانڈز کو چار چاند لگا دیے ہیں بلکہ چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کو بھی پنپنے کا موقع دیا، ہر چیز میں تنوع مزید بڑھا دیا انتخاب کرنا مشکل ہوگیا اور مقابلہ بہت سخت ہوگیا۔
آپ ایک چیزکی تلاش کرتے ہیں اور پھر فیس بک اور انسٹا خود آپ کو مزید بزنس پیجز بتانے لگتے ہیں جہاں پر جہاں وہ چیز دستیاب ہے، اس کے علاوہ شاپنگ گروپس بھی ایک سے بڑھ کر ایک موجود ہیں، نتیجتا آن لائن شاپنگ کا رجحان بہت بڑھ گیا مگر اس کے ساتھ ساتھ دھوکا دہی اور فراڈ بھی عام ہوگیا۔
خریدار تو چیزکے خراب نکلنے رقم ضایع ہونے کا شکوہ کرتا نظر آتا ہی ہے، مگرکچھ دکاندار بھی پارسل کینسل کرنے اور ڈلیوری چارجز اپنے گلے پڑنے کا رونا روتے نظر آتے ہیں، بڑے برینڈز کے نام پر اپنے پیجز بنا کر لوٹ مار کرنا بھی آن لائن شاپنگ میں عام ہے۔
ان سارے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے، فراڈ کرنے والے اپنے پیج پر فالوورز اور اچھے ریویوز بھی خرید لیتے ہیں کسی کی رپورٹ کرنے پر فیس بک ان کا پیج ڈیلیٹ بھی کر دے تو یہ کسی اور نام سے ظاہر ہوجاتے ہیں مگر ان سب کے باوجود آن لائن شاپنگ کچھ لوگوں کے لیے مجبوری بھی ہے اورکچھ کے لیے تفریح بھی تو اس کا خاتمہ تو ممکن نہیں ہے، البتہ بہتری ضرور لائی جا سکتی ہے۔
دوسرا شعبہ تعلیم کا ہے جو اس آن لائن نظام کی بھینٹ چڑھا، آن لائن کلاسز یونیورسٹیز میں تو نئی بات نہیں تھی مگر جب لاک ڈاؤن ہوا تو ہر گھر میں ہر بچے کے پاس موبائل نظر آنے لگا کہ بھئی پڑھائی، اب آن لائن ہوگی۔
اب وہ الگ بات ہے کہ پڑھائی ہوئی ہو یا نہیں ہوئی ہو، مگر ان بچوں کو بھی موبائل فون استعمال کرنے کی لت لگ گئی جن کو موبائل دینا ہی نہیں چاہیے تھا، پڑھائی کو تو محض بہانہ ہوتا تھا، اصل دلچسپی تو انٹرنیٹ کی رنگینیوں میں پیدا ہوئی جو چند سنجیدہ طالب علم تھے وہ بھی بروقت بجلی اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کا شکار ہوئے اور پھر یہی وجہ پڑھائی سے دوری کی بنی،کووڈ کے بعد طلبہ کے لازمی مضامین کے تو پرچے لیے ہی نہیں گئے اور جو اختیاری مضامین کے پرچے لیے گئے، اس میں بھی ان کو رعایتی نمبروں سے پاس کرکے گویا تعلیم کا جنازہ ہی نکال دیا گیا۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس ملک میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ معمول ہے، وہاں آن لائن پڑھائی کا نظریہ دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ پھر ایک اور نیا شور اٹھا کے اب انٹر کے داخلے بھی آن لائن ہوں گے، یہ سہولت یقینا پوش علاقوں اور بہت اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کے لیے تو بہت اچھی ہے مگر پسماندہ علاقے جن میں اکثریت ناخواندہ اورکمپیوٹر کے استعمال سے ہی نابلد ہے داخلے کا یہ طریقہ بہت بڑی درد سری ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ سارا عمل آن لائن کروانے کے بعد ساری دستاویزات کی فوٹو کاپی کروا کے بھی جمع کروائی جاتی ہیں یعنی آن لائن داخلے کا محض نام ہے اور اس نام نے صرف کام بڑھایا یا تو آپ آن لائن داخلے کی پخ نہ لگائیں یا پھر مزید دستاویزات جمع کروانے کا عمل نہ کروائیں، یہ شعبہ بھی آن لائن کے نام پر مزید مشکل بنا دیا گیا۔
آن لائن بینکنگ کی بات کریں تو یہ تو اتنا بڑا رسک بن گیا ہے کہ اس کو تو سہولت کہنا ہی غلط ہے بلوں کی ادائیگی، فیسوں کی ادائیگی کسی کو رقم دینے کی حد تک تو یقینا سہولت ہوگئی ہے، مگر اس کے بعد جو اسکیم اور جعل سازی کر کے لوٹ مار کر ڈیجیٹل طریقہ ایجاد ہوا ہے، اس نے آن لائن بینکنگ کو بہت زیادہ غیر محفوظ بنا دیا ہے۔
آئے دن کوئی نہ کوئی فراڈ منظر عام پر آجاتا ہے مگر اس کا کوئی ازالہ نہیں ہو سکتا۔ کسی جعلسازی سے اگر آپ کے اکاؤنٹ سے رقم چلی گئی تو بہت مشکل ہے کہ بینک اس کو واپس دلوا سکے، ان تمام مسائل اور خامیوں کے باوجود ہم آن لائن نظام استعمال کرنے کے لیے مجبور ہیں کیونکہ بہت ساری جگہوں پر ہمارے پاس کوئی دوسرا حل موجود ہی نہیں، مگر پاکستان جیسے ملک میں کوئی بھی نظام آن لائن کرنے سے پہلے اس کے سقم دور اور ممکنہ مسائل کا حل پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس نظام کو ہر شعبے میں محفوظ اور آسان بنایا جا سکے۔