کل بہت عرصے بعد لاہور کے مال روڈ سے میرا گزرہوا، مال روڈ کو اب شاہرہ قائداعظم کہا جاتا ہے، یہ بھی اچھا ہے ہم اپنی چھوٹی موٹی سڑکوں کو قائداعظم سے منسوب کرکے یہ سمجھتے ہیں ہم قائداعظم کے راستے پر چل رہے ہیں، میرے نزدیک شاہرہ قائداعظم کو ’’مال روڈ‘‘ کہنا اس لئے زیادہ مناسب اور موزوں ہے کہ مال بنانے کے بہت سے ادارے اسی روڈ پر واقع ہیں، ایک ادارہ آج کل بہت بدنام ہورہا ہے، پہلے صرف سیاسی حکمران بدنام ہوتے تھے اب اْن کے سرپرست اْن سے زیادہ بدنام ہو رہے ہیں, المیہ یہ ہے اْنہیں اس کی کوئی پروا بھی نہیں ہے ، ہمیں بھی اس پر زیادہ نہیں سوچنا چاہئے ورنہ ہمارے لکھنے اور بولنے پر مسلسل پابندیاں لگنے کے بعد ہمارے سوچنے پر بھی پابندیاں لگ سکتی ہیں، جس کے بعد ہم ہر اْس ادارے کے لئے صرف اچھا سوچنے پر مجبورہو جائیں گے جو ہمارے لئے بْرا سوچتا ہے، کل مال روڈ سے گزرتے ہوئے میں یہ سوچ رہا تھا نواز شریف شاید تین بار وزیراعظم رہے، تین بار وزیراعلیٰ پنجاب بھی رہے، اْن کا بس چلتا تین بار آرمی چیف اور تین بار چیف جسٹس بھی وہ رہتے، اْنہوں نے بہت سے کارنامے کئے، مْلک کو ایٹمی قوت بنانے کے بھی وہ دعویدار ہیں، موٹر ویز بھی بنائے، لوگوں کو اْلو بھی جس حد تک بنا سکے بنائے، مگر ایک کارنامہ اللہ جانے وہ کیوں کرنا بھول گئے کہ لاہور کے مال روڈ کا نام بدل کر’’ نواز شریف روڈ ‘‘ نہیں رکھا، یہ نام اس اعتبار سے بڑا موزوں رہنا تھا کہ مال اور اْن کا ہمیشہ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے، میرا خیال ہے یہ کارنامہ کرنا وہ بھول گئے ہوں گے، اب اْن کی صاحبزادی وزیراعلیٰ پنجاب ہیں تو جہاں لاہور میں بننے والے پہلے سرکاری کینسر ہسپتال کا نام اْنہوں نے نواز شریف ہسپتال رکھا ہے اسی طرح ممکن ہے آگے چل کر مال روڈ یا شاہرہ قائداعظم کا نام بدل کر وہ’’شاہراہ قائداعظم ثانی‘‘ رکھ دیں، اس طرح کے دو چار اعلیٰ کارنامے وہ نہیں کریں گی تو بطور وزیراعلیٰ پنجاب اْنہیں یاد کون رکھے گا ؟ کل یوم کشمیر تھا، کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لئے مال روڈ پر اتنے ہولڈنگ بورڈز، بینرز اور پوسٹرز وغیرہ لگے تھے یوں محسوس ہو رہا تھا مقبوضہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے مکمل طور پر آزاد کرا کر ہم مال روڈ پر لے آئے ہیں، ان ہولڈنگ بورڈز، بینرز اور پوسٹرز پر بجائے اس کے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کرانے کی راہ میں شہید ہونے والوں کی یا جدوجہد کرنے والوں کی تصویریں ہوتیں کچھ پر پاکستانی سیاستدانوں کی تصویریں بھی تھیں، اْن سیاستدانوں کی جنہیں دیکھ دیکھ کر لوگ اْکتا چکے ہیں اورمزید اْکتانے کی سکت نہیں رکھتے، مقبوضہ کشمیر کے لئے اْن کی جدوجہد بھی ہمیشہ کھوکھلے نعروں اور دعوؤں تک محدود رہی، یوم کشمیر کو بھی اپنی’’اشتہاری مہم‘‘ کے لئے اْنہوں نے استعمال کر لیا، یہ ’’اعزاز‘‘ اس بہانے وہ حاصل نہ کر سکتے ہوتے سرکاری خزانے سے اتنا خرچا کر کے اتنے ہولڈنگ بورڈ، بینرز یا پوسٹرز وغیرہ بنوانے کی وہ شاید ضرورت ہی محسوس نہ کرتے، مقبوضہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کروانے کے ہمارے مسلسل کھوکھلے نعروں اور دعوؤں کی صورت میں مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط جس طرح مضبوط ہوتا جارہا ہے یہ سلسلہ کچھ دیر کے لئے ہم روک کر دیکھیں یعنی نہتے کشمیریوں کو زبانی کلامی بھی اْن کے حال پر چھوڑ کر دیکھیں ممکن ہے اْن کے لئے کچھ آسانیاں پیدا ہو جائیں اور بھارت اپنی درندگیوں میں کچھ کمی کر دے، ہم نے کشمیریوں کو آج تک سوائے لولی پاپ دینے کے کچھ نہیں کیا، پاکستان میں ہر سال پانچ فروری کو یوم کشمیر ‘’’بھر پور‘‘ انداز میں منانا بھی لولی پاپ ہے جس کا کشمیریوں کو عملی طور پر آج تک کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا، ہر سال پانچ فروری کو یوم کشمیر پر پاکستان میں عام تعطیل ہوتی ہے، مختلف شہروں میں کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے لئے ریلیاں نکالی جاتی ہیں، تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، سیاسی و اصلی حکمرانوں کے بیانات جاری کئے جاتے ہیں، اس بار بھی حسب معمول ہمارے آرمی چیف نے فرمایا ’’مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں امن کے لئے خطرہ ہیں‘‘، کیا ہم اْن سے جان و عزت کی امان پا کر یہ پوچھ سکتے ہیں’’ صرف مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں امن کے لئے خطرہ ہیں یا پاکستان میں بھی خطرہ ہیں ؟‘‘، صدر زرداری نے فرمایا ’’کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت جاری رکھیں گے‘‘، کتنے میں جاری رکھیں گے ؟ یہ اْنہوں نے نہیں بتایا، وزیراعظم شہباز شریف فرماتے ہیں’’کشمیری عوام کی غیر متزلزل حمایت جاری رکھیں گے‘‘،’’غیر متزلزل‘‘ کے معنی بھی اْنہیں شاید معلوم نہیں ہوں گے، اس قسم کے روایتی کمزور بیانات کا سلسلہ 1990ء سے جاری ہے جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط مزید مضبوط ہوا اور کشمیریوں پر بھارتی مظالم مزید بڑھتے گئے، ایسی ہو میو پیتھک کارروائیوں کے بجائے حکمرانوں نے کشمیریوں پر بھارت کی مسلسل درندگیوں کے خلاف کوئی واضح اور مؤثر حکمت عملی اپنائی ہوتی کم از کم یہ نہ ہوتا کشمیری خود کو بالکل تنہا تصور کرنے لگتے، رہی بات یوم یک جہتی کشمیر منانے کی وہ چونتیس سال مسلسل منانے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اگلے چونتیس سال مزید منا کر دیکھ لیں، آخری گزارش اپنے حکمرانوں سے یہ ہے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے آزاد کرانے سے پہلے پاکستانی عوام کو اپنے تسلط سے آزاد کریں جو آپ کی بدمعاشیوں، بدکاریوں، مکاریوں، عیاریوں اور بدحواسیوں کا مسلسل نشانہ بنتے جا رہے ہیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: مقبوضہ کشمیر کو بھارتی تسلط سے یوم کشمیر ا نہوں نے تین بار مال روڈ کے لئے
پڑھیں:
لبنان پر اسرائیلی حملے قابل مذمت: مقبوضہ کشمیر پر مودی کا بیان مسترد کرتے ہیں، پاکستان
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) پاکستان نے 5 جون 2025ء کو بیروت اور لبنان جنوبی مضافاتی علاقوں پر اسرائیلی افواج کے فضائی حملوں کی پر زور مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عید الاضحی کے موقع پر شروع کیے گئے یہ حملے بین الاقوامی قانون، لبنان کی خودمختاری اور 24 نومبر کے جنگ بندی کے معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہیں۔دفتر خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ طاقت کا لاپرواہی سے استعمال شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے، علاقائی عدم استحکام کو فروغ دینے اور دیرپا امن کی کوششوں کیلئے نقصاندہ ہے۔ پاکستان مشکل کی اس گھڑی میں لبنان کی حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔پاکستان نے بین الاقوامی برادری بالخصوص اقوام متحدہ اور جنگ بندی کے ثالثوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی قابض افواج کو جوابدہ ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ کشیدگی میں اضافہ کو روکنے کے لیے فوری کارروائی کی جائے۔ پاکستان امن، انصاف اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کے لیے پرعزم ہے۔مزید براں پاکستان نے نریندر مودی کا بیان مسترد کر دیا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے بارے میں مودی کا گمراہ کن بیان مسترد کرتا ہے۔ ایسے بیانات کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں مظالم سے عالمی توجہ ہٹانا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ مودی نے ایک بار پھر پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر لگایا ہے۔ مودی بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر الزام تراشی کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلم شدہ متنازعہ علاقہ ہے۔ بیان بازی سے کشمیر کی قانونی اور تاریخی حیثیت تبدیل نہیں ہو سکتی۔ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں‘ کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہئے۔ اقوام متحدہ‘ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی برادری مظالم بند کرائے۔