دبئی میں پاکستانی قونصلیٹ میں یوم یکجہتی کشمیر کی مناسبت سے تقریب
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
دبئی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 6فروری2025ء) قونصلیٹ جنرل آف پاکستان، دبئی کے زیر اہتمام یوم یکجہتی کشمیر 2025 کے موقع پر ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی کے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تقریب کے دوران صدر پاکستان، وزیر اعظم، اور نائب وزیر اعظم/وزیر خارجہ کے پیغامات پڑھ کر سنائے گئے، جن میں حکومت پاکستان کی جانب سے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا گیا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے قونصل جنرل، حسین محمد نے کہا کہ یوم یکجہتی کشمیر عالمی برادری کی توجہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مبذول کروانے کا ایک موقع ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو ان کا بنیادی حق خودارادیت دینے سے انکار کر رہا ہے، جو بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔(جاری ہے)
"ہمارے کشمیری بھائی اور بہنیں بھارتی قابض افواج کے مسلط کردہ خوف، جبر اور مظالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی ترقی اور خوشحالی کے راستے غیر قانونی اور جابرانہ اقدامات کے ذریعے روکے جا رہے ہیں۔ کسی قوم کی آواز کو دباکر پائیدار امن حاصل نہیں کیا جا سکتا،" قونصل جنرل نے کہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کا انحصار مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل پر ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ کشمیری عوام کو ان کا پیدائشی حق – اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کی آزادی دے۔ انہوں نے واضح کیا کہ کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے اور پاکستان ہمیشہ کشمیری عوام کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔ قونصل جنرل نے کشمیری عوام کی عظیم قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بہادری رائیگاں نہیں جائے گی۔ اپنی تقریر کے اختتام پر حسین محمد نے متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانی اور کشمیری برادری کو تلقین کی کہ وہ مقامی قوانین کا احترام کریں، معاشرے میں مثبت کردار ادا کریں اور آپس میں اتحاد و یگانگت کو فروغ دیں۔ انہوں نے زور دیا کہ تمام پاکستانی کمیونٹی کو متحد رہ کر اپنے ملک کی نیک نامی میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ تقریب میں کشمیری کمیونٹی کے نمائندوں نے بھی خطاب کیا اور اپنے عزم کا اعادہ کیا کہ وہ کشمیر کاز کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اس موقع پر یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے ایک ڈاکیومنٹری اور خصوصی نغمہ بھی پیش کیا گیا، جس میں کشمیری عوام کے مصائب اور ان کی جدوجہد کو اجاگر کیا گیا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یوم یکجہتی کشمیر کشمیری عوام انہوں نے
پڑھیں:
بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن
اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دہشتگردی، کشمیر، فاٹا کے انضمام اور سود کے خاتمے سے متعلق حکومت کی پالیسیوں پر اپنے تحفظات اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا مسئلہ 11 ستمبر کے بعد نہیں بلکہ 40 سال سے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ علما کی جانب سے امریکا کے افغانستان پر قبضے کے باوجود پاکستان میں مسلح جدوجہد کو ناجائز قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوج نے مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف کئی آپریشن کیے، جن کی وجہ سے آج بھی لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اب دوبارہ لوگوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ شہر خالی کر دیے جائیں، اور سوال اٹھایا کہ جو لوگ افغانستان گئے تھے، وہ واپس کیسے آئیں گے۔ انہوں نے دہشتگردی کے خاتمے میں سیاسی ارادے کی کمی پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بھارت کو 4 گھنٹے میں شکست دے دی گئی لیکن دہشتگردی کو 40 سال سے شکست کیوں نہیں دی جا سکی۔
مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمن نے بھی 28 اگست کی ملک گیر ہڑتال کی حمایت کردی
کشمیر کے حوالے سے انہوں نے پاکستان کی پالیسی پر نکتہ چینی کی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کشمیر پر پاکستان مسلسل پیچھے ہٹتا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنے کردار اور کشمیر کمیٹی کی صدارت کے حوالے سے کہا کہ انہیں کہا جاتا تھا کہ انہوں نے کشمیر کمیٹی کے لیے کیا کچھ کیا، لیکن اب کئی برس سے وہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین نہیں، تو سوال اٹھتا ہے کہ اب کیا کیا گیا؟
انہوں نے کشمیر کی 3 حصوں میں تقسیم، جنرل پرویز مشرف کے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے پیچھے ہٹنے کے فیصلے اور 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کے خاتمے پر قرارداد میں اس کا ذکر شامل نہ ہونے پر سوالات اٹھائے۔ فاٹا کے انضمام پر بھی حکومت کی حالیہ پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ فاٹا کے لوگوں پر فوج اور طالبان دونوں کے ڈرون حملے ہو رہے ہیں۔
فلسطینی حماس کے رہنما خالد مشعل کے فون کال کا ذکر کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر پاکستان جنگ میں مدد نہیں کر سکتا تو کم از کم انسانی امداد میں کردار ادا کرے۔
مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی وعدے سے نہ پھرتی تو الیکشن بروقت ہو جاتے، مولانا فضل الرحمن
سود کے خاتمے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جمیعت علمائے اسلام نے 26ویں آئینی ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبردار کرایا اور مزید 22 نکات پر مزید تجاویز دیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے 31 دسمبر 2027 کو سود ختم کرنے کی آخری تاریخ دی ہے اور آئندہ یکم جنوری 2028 تک سود کا مکمل خاتمہ دستور میں شامل کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے حکومت کو خبردار کیا کہ اگر وہ اپنے وعدے پر عمل نہ کرے تو عدالت جانے کے لیے تیار رہیں کیونکہ آئندہ عدالت میں حکومت کا دفاع مشکل ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کوئی اپیل معطل ہو جائے گی، اور آئینی ترمیم کے تحت یکم جنوری 2028 کو سود کے خاتمے پر عمل درآمد لازمی ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت جمیعت علمائے اسلام سود فلسطینی حماس کشمیر کشمیرکمیٹی ملی یکجہتی کونسل مولانا فضل الرحمن