بیرون ممالک میں قائم پاکستانی سفارت خانوں میں یوم یکجہتی کشمیر بھرپورانداز میں منایا گیا
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
بیرون ممالک میں قائم پاکستان کے سفارت خانوں میں یو م یکجہتی کشمیر بھرپورانداز میں منایا گیا اور کشمیر کے دیرینہ تنازع سمیت عالمی مسائل کے حل کے لیے سفارت کاری کو ترجیح دینے کی اہمیت پر زور دیاگیا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ غیر متزلزل یکجہتی کا اعادہ کرتے ہوئے امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارتخانے نے ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس کا عنوان ' دیرینہ، حل طلب اور نامکمل ایجنڈا،مسئلہ کشمیر کے اہم پہلو' تھا۔
اس تقریب کا مقصد اس دیرینہ تنازعہ کے کلیدی قانونی، سیاسی اور سیکورٹی پہلووٴں کو اجاگر کرنا، بین الاقوامی برادری کی توجہ اس کے اثرات کی طرف مبذول کرانا تھا۔
سیمینار میں حل طلب مسئلے کو حل کرنے کے لیے قابل عمل راستے بھی تلاش کیے گئے ۔
اس موقع پر صدر پاکستان، وزیراعظم اور نائب وزیراعظم،وزیر خارجہ کے خصوصی پیغامات پڑھ کر سنائے گئے جس کے بعد ایک دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی جس میں بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی جدوجہد کو دکھایا گیا تھا۔
اپنے خطاب میں سفیر رضوان سعید شیخ نے کشمیر کے دیرینہ تنازعہ سمیت عالمی مسائل کے حل کے لیے سفارت کاری کو ترجیح دینے کی اہمیت پر زور دیا۔
سفیر شیخ نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا پائیدار حل اور دیرپا امن کی امید کو سفارت کاری کے ذریعے بہترین طریقے سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ہمیں ایسی صورتحال پیدا کرنے کی ضرورت ہے جہاں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بات چیت ہو جو بامعنی اور نتیجہ خیز ہو۔ آگے بڑھنے کا یہی واحد راستہ ہے۔ کشمیر اور فلسطین دونوں مسائل کی مشترکہ ابتداء کو اجاگر کرتے ہوئے۔
سفیر پاکستان نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اپنی توجہ دوبارہ مرکوز کرے اور ان دیرینہ تنازعات کو حل کرنے میں فعال کردار ادا کرے۔
انہوں نے کہا کہ 5 اگست 2019 کو اور اس کے بعد ہندوستانی حکومت کے اقدامات قانونی طور پر قابل عمل نہیں ہیں سابق سفیر توقیر حسین نے کہا کہ کشمیریوں کو 2019 کے یکطرفہ اقدامات کو بھارت کے لیے ناقابل برداشت بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مذاکرات کی میز پر واپس آنے پر مجبور ہو۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستان اور پاکستان کو باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے تنازعات کے حل کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔
دی کامن گراوٴنڈز یو ایس اے کے بانی ڈاکٹر ذوالفقار کاظمی، جارج ٹاوٴن یونیورسٹی کے ایڈجنکٹ پروفیسراور مسٹر لارس رائز، سابق نارویجن ایم پی۔ چوہدری محمد یاسین صدر آزادکشمیر پی پی پی نے بھی شرکاء سے خطاب کیا۔
ادھر کینیڈا کے دارالحکومت اوٹاوا میں پاکستانی ہائی کمیشن اور ٹورنٹو، وینکوور اور مونٹریال میں اس کے تین قونصل خانوں نے یوم یکجہتی کشمیر منایا، جس میں مقبوضہ جموں و کشمیرکے لوگوں کے حق خود ارادیت کی منصفانہ جدوجہد میں پاکستان کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا گیا۔
اس موقع پر کئی پروگرام ترتیب دیئے گئے جن میں تصویری نمائش، دستاویزی فلموں کی اسکریننگ اور میڈیا سے بات چیت کا اہتمام کیا گیا تاکہ بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا جا سکے اور غیر قانونی بھارتی قبضے کے تحت بدترین قسم کے جبر کا سامنا کرنے والے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا جا سکے۔
ہائی کمیشن میں منعقدہ خصوصی تقریب میں پاکستانی اور کشمیری باشندوں، میڈیا، ماہرین تعلیم اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے شرکت کی۔
اس موقع پر صدر مملکت اور وزیراعظم پاکستان کے پیغامات حاضرین کو پڑھ کر سنائے گئے۔
علاوہ ازیں کشمیریوں کی جدوجہد پر مختلف دستاویزی فلمیں دکھائی گئیں اور سوشل اور مقامی الیکٹرانک میڈیا پر نشر کی گئیں۔
پاکستان کے ہائی کمشنر محمد سلیم نے نہتے کشمیریوں کو نہ ختم ہونے والے مظالم کا نشانہ بنانے والی بھارتی ڈھٹائی پر روشنی ڈالی۔
ایک ویڈیو پیغام میں، ہائی کمشنر نے اس بات پر زور دیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکری خطہ ہے۔
انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بھارت کو مقبوضہ جموں و کشمیرمیں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کو روکے، یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو واپس لے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی رائے عامہ کو متحرک کرنے کے لیے ٹھوس کوششوں کی ضرورت ہے کہ کشمیر کے لوگوں کو حق خودارادیت دیے بغیر اس طویل تنازع کو حل نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری جانب مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں پاکستانی سفارتخانہ میں یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا۔
سفارتخانہ پاکستان، قاہرہ نے یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پرکشمیریوں کی حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کو خراج تحسین کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔
سیمینار کے دوران صدر، وزیراعظم اور نائب وزیراعظم/وزیر خارجہ پاکستان کی طرف سے یکجہتی کے پیغامات پڑھ کر سنائے گئے، بھارت کے غیر قانونی طور پر زیرقبضہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی حالت زار، بھارتی سیکیورٹی فورسز کے مظالم اور کشمیریوں کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کے حصول کے لیے عالمی برادری کے وعدوں کو اجاگر کرنے والی ایک دستاویزی فلم چلائی گئی، مقبوضہ کشمیر اور غزہ کے شہداء کے لیے بھی ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔
سفارتخانہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پینلسٹس نے اپنی پراثر پریزنٹیشنز میں بھارتی غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کے معصوم لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جو دہائیوں سے بھارتی ریاستی جبر کا شکار ہیں۔
ناظم الامور ڈاکٹر رضا شاہد نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جموں و کشمیر تنازعہ کے پرامن حل کے بغیر جنوبی ایشیا میں پائیدار امن حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے بھارتی غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کے لوگوں کے حق خودارادیت کے لیے پاکستان کی غیر متزلزل اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت کا اعادہ کیا۔ تقریب میں بڑی تعداد میں مصری ماہرین تعلیم، دانشوروں، صحافیوں، سول سوسائٹی کے کارکنوں، طلباء اور مصر میں پاکستانی کمیونٹی کے ارکان نے شرکت کی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یوم یکجہتی کشمیر جموں و کشمیر کے کشمیر کے لوگوں پر زور دیا کہ میں پاکستانی میں پاکستان پاکستان کے بھارت کے انہوں نے کو اجاگر کے لیے کیا جا
پڑھیں:
مقبوضہ وادی میں اسلامی لٹریچر نشانہ
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے ایک بیان میں منوج سنہا کی زیرقیادت ہندوتوا حکومت کی طرف سے اسلامی لٹریچر کو نشانہ بنانے کی شدید مذمت کی۔ منوج سنہا کی زیر قیادت قابض انتظامیہ آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے جس کا مقصد سکولوں میں ہندوتوا نظریہ مسلط کرکے مقبوضہ کشمیر کے اسلامی تشخص کو تبدیل کرنا ہے۔بھارتی پولیس نے سرینگر میں کتب فروشوں کیخلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے 6 سوسے زائد دینی کتب ضبط کر لیں۔ ضبط شدہ تصانیف میں جماعت اسلامی کے بانی ابوالاعلیٰ مودودی، امین احسن اصلاحی اور تحریک آزاد ی کشمیر کے معروف قائد سید علی گیلانی شہید کی تصانیف شامل ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے سینئر رہنما اور بھارتی پارلیمنٹ کے رکن روح اللہ مہدی نے بھی کتابوں کی ضبطی کو کھلا ریاستی جبر قرار دیتے ہوئے اسکی مذمت کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما التجا مفتی نے کہا کہ اب مقبوضہ جموں وکشمیرمیں معلومات تک رسائی کے بنیادی حق کی بھی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی نے بھارتی پولیس کی طرف سے اسلامی لٹریچر کے خلاف جاری کریک ڈائون کی مذمت کرتے ہوئے اسے مذہبی آزادی پر براہ راست حملہ قرار دیا ہے۔ ڈی ایف پی کے ترجمان ایڈووکیٹ ارشد اقبال نے کہا کہ یہ اقدام ہندوتوا کی ذہنیت کا عکاس ہے جو مسلمانوں کی شناخت، تاریخ اور ثقافت کو مٹانے پر تلی ہوئی ہے۔
کل جماعتی حریت کانفرنس نے سکول بچوں کو صبح کی اسمبلیوں میں بھارت کاقومی ترانہ گانے کے لئے مجبور کرنے پر مودی حکومت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس حکم نامے کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعلیمی اداروں کے خلاف بی جے پی حکومت کی طرف سے شروع کی گئی ریاستی دہشت گردی قرار دیا ہے۔بی جے پی کی حکومت نے مقبوضہ علاقے کے تمام اسکولوں کو صبح کی اسمبلیوں میں بھارت کاقومی ترانہ گانے کا حکم دیا ہے تاکہ کشمیری مسلمان طلبا کو اپنے مذہبی اور ثقافتی ورثے کو ترک کرنے پر مجبورکیا جائے۔حریت ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ اس اقدام کا مقصد علاقے کی مسلم شناخت کو مٹانا اور مسلم اکثریت والے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں ہندوتوا نظریہ مسلط کرنا ہے۔
1937ء میں ہونیوالے انتخابات کے بعد کانگریس نے کئی صوبوں میں اپنی حکومتیں قائم کیں تو انہیں اپنے انتہاپسندانہ نظریات مسلمانوں پر مسلط کرنے کا موقع میسر آگیا، اسی تناظر میں ایک حکمنامہ کے تحت تمام سکولوں میں بندے ماترم گانا لازمی قرار دے دیا جس کی قائداعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے شدید مزاحمت کی تھی۔ مسلمان اس فیصلہ کیخلاف سراپا احتجاج بن گئے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ بندے ماترم بت پرستی کا شاہکار اور مجموعی طور پر مسلمانوں کیخلاف اعلان جنگ ہے۔ ”بندے ماترم” ایک نفرت انگیز گیت ہے۔ اس کا پس منظر ایک ایسے ڈرامے سے جڑا ہوا ہے جس میں مرکزی نظریہ مسلمانوں کی مسجدوں کو برباد کرنا اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔ یہ ان انتہا پسند ہندو تنظیموں کا نعرہ بھی رہاجو خانہ کعبہ پر قبضہ کر کے وہاں ”اوم” لکھنا چاہتے تھے۔ اس میں درگا دیوی کو ماں کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے بنیادی عقائد کے خلاف ہے۔
بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں سرکاری سکولوں میں آٹھویں جماعت تک کشمیری زبان کی نصابی کتابوں کی جان بوجھ کر عدم دستیابی نے ماہرین تعلیم میں بڑے پیمانے پر تشویش کو جنم دیا ہے۔ معاملے کو کشمیر کی تہذیب و ثقافت کو مٹانے کے مذموم بھارتی منصوبے کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔جاری تعلیمی سیشن میں طلباء کا کشمیری مضمون کا امتحان بھی لیا گیا لیکن اسکی کتابیں دستیاب نہیں ہیں جس کی وجہ سے ساتذہ اور طلبائ پرانے نوٹوں اور خود تیار کردہ اسباق پر انحصار کرنے پر مجبور تھے۔انسانی حقوق کے کارکن راسخ رسول بٹ نے اس صورتحال کو "انتہائی پریشان کن” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے محکمہ سکول ایجوکیشن اور بورڈ آف سکول ایجوکیشن کی بے حسی کو بے نقاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری زبان ہماری شناخت کا ایک اہم حصہ ہے۔ماہرین تعلیم، والدین اور سول سوسائٹی کے اراکین نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندی اور سنسکرت کو فروغ دینا اور کشمیری زبان کی نصابی کتب سے طلباکو محروم کرنا علاقے کو اپنی تہذیب و ثقافت سے محروم کرنے کے نوآبادیاتی بھارتی ایجنڈے کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے تعلیمی نظام میں کشمیری زبان اور شناخت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا۔
بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں 25 کتابوں پر حالیہ پابندی علاقے کی انتظامیہ کے اندر بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کو ظاہر کرتی ہے اور یہ پابندی مودی حکومت کے ترقی کے دعووں سے متصادم ہے۔بھارتی انگریزی روزنامے ” انڈین ایکسپریس ”نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ یہ پابندی لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے حکم پر عائد کی گئی ہے اور پولیس نے کتب کی ضبطگی کے لیے بڑا کریک ڈاؤن کیا۔ اخبار نے لکھا کہ حکومت کشمیر میں امن کے دعوے کررہی تھی لیکن یہ اچانک کیا ہوا ہے کہ اسے کتابوں پر پابندی عائد کرنا پڑی، سینسر شپ اور جبر سے صرف اور صرف مایوسی اور عدم اعتماد بڑھتا ہے، کتابوں پر پابندی پریشان کن ہے۔ دفعہ 370کے خاتمے کے بعد تو علاقے میں امن و ترقی کے دعوے کیے جا رہے ہیںمگر پابندی ان دعوؤں کو جھٹلاتی ہے۔ دیرپا امن کے لیے تاریخ کے ساتھ جڑے رہنا ضروری ہے ، استحکام لانے اور مایوسی کو دور کرنے کا موثر ذریعہ جمہوریت کو مضبوط کرنا اور فیصلہ سازی میں لوگوں کی شرکت کو یقینی بنانا ہے۔اخبار مزید لکھتا ہے کہ اگرچہ ادبی ذوق مختلف ہوتے ہیں لیکن لکھنے اور پڑھنے کا حق محفوظ رہنا چاہیے۔ کشمیر میں حقیقی پیش رفت جامع بات چیت اور انفرادی آزادیوں کے احترام کا تقاضا کرتی ہے، سینسر شب سے ہرگز کوئی مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
بھارت کے غیرقانونی زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں کل جماعتی حریت کانفرنس نے اسلامی اور تاریخی کتابوں کے خلاف کریک ڈائون پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ اس کا مقصد کشمیریوں کو ان کی اسلامی شناخت سے دور کرنا ہے۔