ایس بی سی اے کو اربوں کا جھٹکا،بدعنوان ترین ڈی جی رشید سولنگی رخصت
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
٭ڈی جی کا سسٹم چلانے والے مہروں کے خلاف گھیرا تنگ، نئے ڈی جی کے لیے بولیاں
٭ انسپکٹر خالد جمالی،انسپکٹر نعیم ڈپٹی ڈائریکٹر حفیظ الدین سمیت 9کرپٹ ترین اہلکار ملوث
( خصوصی رپورٹ )2024کے آغاز سے ڈی جی ایس بی سی اے کی کرسی پر براجمان اور سسٹم کا اہم مہرہ سمجھے جانے والے رشید سولنگی کی رخصتی کا پروانہ جاری کردیا گیا،چیف سیکریٹری سندھ سید آصف حیدر شاہ کی جانب سے 3فروری کو 21 گریڈ کے افسر عبدالرشید سولنگی کی ریٹائرمنت کا باقاعدہ خط جاری کیا گیا تھا۔ رشید سولنگی کی ہیڈ آفس میں الوداعی ملاقاتوں کے دوران ان کی ریٹائرمنٹ کا خط منظر عام پر لایا گیا، گڑھی یاسین سے اسکول ٹیچر سے ڈی جی ایس بی سی اے کے منصب پر آنے والے رشید سولنگی کے 60سالہ کیریئر میں سوائے بدعنوانیوں کی داستان کے علاوہ کچھ نہیں ہے ، رشید سولنگی اپنے محکمے میں اس بات کی شہرت رکھتے تھے کہ اگر کسی کو قومی خزانہ خالی کرانا ہو تو انہیں سسٹم کا حصہ بنا دیا جائے ،موصوف ریٹائرمنٹ سے قبل اپنی مدت بڑھانے کے لیے اسلام آباد کی یاترا بھی کرکے آئے مگر سسٹم والوں نے انہیں آئندہ اور مزید کسی سسٹم کا حصہ بنانے کے بجائے ریٹائرڈ کرنا ہی بہتر سمجھا، ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی سرکاری خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے اور عبدالرشید سولنگی کے سسٹم کا حصہ بننے والے کرپٹ افسران و اہلکاروں کو قربانی کا بکرا بنانے کی تیاری کرلی گئی ہے ، حساس اداروں کو موصول خفیہ رپورٹ پر سسٹم چلانے والے اہم کارندوں کے نام ایگزیکٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال کر انہیں جلد گرفتار کیے جانے کی اطلاعات ہیں ۔ڈی جی ایس بی سی اے دن رات اپنے دفتر اور گھر میں بیٹھ کر سسٹم کے ذریعے ٹھیکیداروں اور بلڈرز کے نقشے پاس کرنے اور رقم منظور کرکے قومی خزانے کو اربوں روپے کا ٹیکا لگا چکے ہیں ۔ڈی جی کے سسٹم کا حصہ بننے والوں میں گریڈ پانچ کے چپڑاسی سے لے کر سالوں سے معطل انسپکٹرخالد جمالی ، ڈپٹی ڈائریکٹر حفیظ الدین، انسپکٹر نعیم سمیت انسپکٹر سطح کے گیارہ افراد براہ راست اس گھناؤنے جرائم میں شریک ہیں حالیہ دنوں میں ڈی جی نے کئی افسران اور انسپکٹرز کو اپنے عہدوں پر ترقیاں دے کر ایس بی سی اے یونین کو اپنا گرویدہ کرلیا گیا تھا تاکہ محکمے کے تمام ملازمین انہی کے گن گانے لگیں ۔(مذکورہ سسٹم کی بدعنوانیوں کی تفصیلات ان صفحات پر آئندہ دنوں میں شائع کی جائیںگی)۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ڈی جی ایس بی سی اے کا منصب پانے کے لیے ایک دوسرے بدعنوان ترین افسر اور سابق ڈی جی ایس بی سی اے اسحق کھوڑو سمیت محکمے کے سینئر افسر نے کروڑوں کی بولیاں لگا دی ہیں۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
بھارت کو بڑا جھٹکا، چین نے نایاب دھاتوں کی برآمد پر پابندی عائد کردی
چین نے بھارت کو نایاب دھاتوں کی برآمد پر پابندی عائد کر دی ہے، جس کے بعد بھارت کی آٹو انڈسٹری ایک سنگین بحران سے دوچار ہوگئی ہے۔ اخبار اکانومک ٹائمز کے مطابق یہ اقدام بھارتی معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو رہا ہے کیونکہ بھارت کی الیکٹرک گاڑیوں اور روایتی آٹو مصنوعات کی پیداوار کا دار و مدار انہی نایاب دھاتوں پر ہے، جن میں چین دنیا کا سب سے بڑا سپلائر ہے۔
چین کی پابندی کے باعث بھارت میں ای وی (الیکٹرک وہیکل) موٹرز کے لیے ضروری میگنٹس کی سپلائی معطل ہو گئی ہے، جس سے نہ صرف الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری متاثر ہوئی ہے بلکہ روایتی گاڑیوں کی پیداوار پر بھی منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ بھارتی آٹو انڈسٹری میں ہلچل مچ گئی ہے اور کارخانوں کی بندش کے خدشات کے ساتھ روزگار پر بھی گہرے منفی اثرات سامنے آ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے جنوبی ایشیا میں بھارت کے اثرورسوخ میں کمی، چین نے بازی پلٹ دی، امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ
یہ صورتحال مودی سرکار کے میک ان انڈیا کے دعوے کو ایک بڑا جھٹکا دے رہی ہے اور صنعتی خودمختاری کے حوالے سے سوالیہ نشان لگا رہی ہے۔ صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی آٹو انڈسٹری چین کی نایاب دھاتوں پر مکمل انحصار کرتی ہے اور اس کا کوئی فوری متبادل موجود نہیں، جو بھارت کے صنعتی خواب کو چکنا چور کر سکتا ہے۔
مودی حکومت پر سوال اٹھنے لگے ہیں کہ کیا صنعتی خود کفالت کا نعرہ صرف دعوے تک محدود ہے؟ کیا حکومت نے غیر ملکی انحصار کے خطرات کو نظر انداز کیا؟ اگر جلد متبادل نہ ملا تو بھارت کی آٹو صنعت کو مزید بڑے معاشی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے بھارت کو شدید دھچکا، چین نے لداخ کے اہم حصے اپنے نام کر لیے
ماہرین اور صنعتکار حکومت سے فوری مداخلت کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ اس بحران سے نمٹا جا سکے اور بھارت کی صنعتی خودمختاری کو یقینی بنایا جا سکے۔ سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا مودی سرکار چینی انحصار سے نکلنے میں کامیاب ہو پائے گی یا یہ نعرے صرف ’میک ان انڈیا‘ کے دعوے تک ہی محدود رہیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بزنس بھارت چین