٭ڈی جی کا سسٹم چلانے والے مہروں کے خلاف گھیرا تنگ، نئے ڈی جی کے لیے بولیاں
٭ انسپکٹر خالد جمالی،انسپکٹر نعیم ڈپٹی ڈائریکٹر حفیظ الدین سمیت 9کرپٹ ترین اہلکار ملوث

( خصوصی رپورٹ )2024کے آغاز سے ڈی جی ایس بی سی اے کی کرسی پر براجمان اور سسٹم کا اہم مہرہ سمجھے جانے والے رشید سولنگی کی رخصتی کا پروانہ جاری کردیا گیا،چیف سیکریٹری سندھ سید آصف حیدر شاہ کی جانب سے 3فروری کو 21 گریڈ کے افسر عبدالرشید سولنگی کی ریٹائرمنت کا باقاعدہ خط جاری کیا گیا تھا۔ رشید سولنگی کی ہیڈ آفس میں الوداعی ملاقاتوں کے دوران ان کی ریٹائرمنٹ کا خط منظر عام پر لایا گیا، گڑھی یاسین سے اسکول ٹیچر سے ڈی جی ایس بی سی اے کے منصب پر آنے والے رشید سولنگی کے 60سالہ کیریئر میں سوائے بدعنوانیوں کی داستان کے علاوہ کچھ نہیں ہے ، رشید سولنگی اپنے محکمے میں اس بات کی شہرت رکھتے تھے کہ اگر کسی کو قومی خزانہ خالی کرانا ہو تو انہیں سسٹم کا حصہ بنا دیا جائے ،موصوف ریٹائرمنٹ سے قبل اپنی مدت بڑھانے کے لیے اسلام آباد کی یاترا بھی کرکے آئے مگر سسٹم والوں نے انہیں آئندہ اور مزید کسی سسٹم کا حصہ بنانے کے بجائے ریٹائرڈ کرنا ہی بہتر سمجھا، ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی سرکاری خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے اور عبدالرشید سولنگی کے سسٹم کا حصہ بننے والے کرپٹ افسران و اہلکاروں کو قربانی کا بکرا بنانے کی تیاری کرلی گئی ہے ، حساس اداروں کو موصول خفیہ رپورٹ پر سسٹم چلانے والے اہم کارندوں کے نام ایگزیکٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال کر انہیں جلد گرفتار کیے جانے کی اطلاعات ہیں ۔ڈی جی ایس بی سی اے دن رات اپنے دفتر اور گھر میں بیٹھ کر سسٹم کے ذریعے ٹھیکیداروں اور بلڈرز کے نقشے پاس کرنے اور رقم منظور کرکے قومی خزانے کو اربوں روپے کا ٹیکا لگا چکے ہیں ۔ڈی جی کے سسٹم کا حصہ بننے والوں میں گریڈ پانچ کے چپڑاسی سے لے کر سالوں سے معطل انسپکٹرخالد جمالی ، ڈپٹی ڈائریکٹر حفیظ الدین، انسپکٹر نعیم سمیت انسپکٹر سطح کے گیارہ افراد براہ راست اس گھناؤنے جرائم میں شریک ہیں حالیہ دنوں میں ڈی جی نے کئی افسران اور انسپکٹرز کو اپنے عہدوں پر ترقیاں دے کر ایس بی سی اے یونین کو اپنا گرویدہ کرلیا گیا تھا تاکہ محکمے کے تمام ملازمین انہی کے گن گانے لگیں ۔(مذکورہ سسٹم کی بدعنوانیوں کی تفصیلات ان صفحات پر آئندہ دنوں میں شائع کی جائیںگی)۔ یہاں یہ واضح رہے کہ ڈی جی ایس بی سی اے کا منصب پانے کے لیے ایک دوسرے بدعنوان ترین افسر اور سابق ڈی جی ایس بی سی اے اسحق کھوڑو سمیت محکمے کے سینئر افسر نے کروڑوں کی بولیاں لگا دی ہیں۔

.

ذریعہ: Juraat

پڑھیں:

کراچی میں 4سال قبل چوری شدہ موٹرسائیکل کا چالان مالک کو بھیج دیا گیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (خصوصی تحقیقاتی رپورٹ) ٹریفک پولیس کے ای چالان سسٹم میں سنگین خامیاں سامنے آ گئی ہیں۔ چار سال قبل چوری ہونے والی موٹر سائیکل کا نیا چالان اصل مالک کے پتے پر بھیج دیا گیا، جس نے دعویٰ کیا ہے کہ موٹر سائیکل اس کے قبضے میں نہیں بلکہ 2019ء میں ٹیپو سلطان روڈ سے چوری ہوگئی تھی۔متاثرہ شہری محمد وقاص بن عبدالرؤف جوکہ اسکیم
33، گلشن معمار، سیکٹر 6-اے) کے رہائشی ہیں انہوں نے بتا یا کہ موٹر سائیکل نمبر 9487۔KMC- 2019ء میں ٹیپو سلطان تھانے کی حدود سے چوری ہوئی تھی، جس کی ایف آئی آر نمبر 384/2019 درج کرائی گئی تھی تاہم 27 اکتوبر 2025ء کو محمد وقاص کے پتے پرای چالان موصول ہوا، جس میں لکھا تھا کہ مذکورہ موٹر سائیکل کلفٹن تین تلوار کے قریب صبح 9 بج کر 45 منٹ پربغیر ہیلمٹ کے چلائی جا رہی تھی۔چالان میں 5 ہزار روپے جرمانہ اور 6 ڈی میرٹ پوائنٹس عاید کیے گئے حالانکہ متاثرہ شہری نے واضح کیا کہ وہ اس وقت گھر پر موجود تھا اور موٹر سائیکل 4 سال سے اس کے قبضے میں نہیں۔محمد وقاص کا کہنا ہے کہ میں نے چوری کے فوراً بعد رپورٹ درج کرائی تھی۔ اس کے باوجود آج 4 سال بعد چالان میرے نام پر بھیج دیا گیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ای چالان سسٹم میں تصدیق کا کوئی مؤثر طریقہ نہیں۔ای چالان سسٹم کی خامیاں نمایاں ہوگئیں۔تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ٹریفک پولیس کا ای چالان سسٹم چوری شدہ گاڑیوں کا ڈیٹا پولیس کے مرکزی ریکارڈ سے لنک نہیں کرتا۔ یعنی اگر کسی گاڑی کی چوری کی رپورٹ درج ہے، تو بھی چالان سسٹم اس کو ‘‘چوری شدہ’’ کے طور پر شناخت نہیں کرتا۔نمبر پلیٹ اسکیننگ میں انسانی غلطی یا جعلی نمبر پلیٹ کے امکانات موجود ہیں۔ای چالان کے تصدیقی مراحل میں کوئی انسانی ویریفی کیشن شامل نہیں، تمام کارروائی خودکار کیمروں اور سافٹ ویئر پر انحصار کرتی ہے۔غلط چالان کی اپیل یا منسوخی کا نظام غیر مؤثر ہے۔ شہریوں کو بارہا تھانوں یا ٹریفک ہیڈ آفس کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ڈیجیٹل عدم ربط شہریوں کے لیے نیا مسئلہ بن گیا ہے ۔ٹریفک پولیس اور محکمہ ایکسائز کے مابین ڈیجیٹل ربط نہ ہونے کے باعث چوری شدہ یا منتقل شدہ گاڑیوں کی معلومات ای چالان سسٹم میں اپڈیٹ نہیں ہوتیں۔نتیجتاًغلط موٹر سائیکل یا گاڑی نمبر پر چالان جاری ہو جاتے ہیں۔ جس سے نہ صرف شہری مالی نقصان اٹھاتے ہیں بلکہ بے قصور لوگ ریکارڈ میںقانون شکن بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ترجمان ٹریفک پولیس سے رابطہ کرنے پر بتایا گیا کہ ای چالان خودکار کیمروں کے ذریعے جاری ہوتا ہے اور اگر کسی شہری کو چالان پر اعتراض ہو تو وہ ڈی آئی جی ٹریفک آفس یا ای چالان ایپ کے ‘Dispute Section’ کے ذریعے شکایت درج کرا سکتا ہے تاہم ترجمان نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ‘‘چوری شدہ یا منتقل شدہ گاڑیوں کا ڈیٹا ای چالان سسٹم میں فوری اپڈیٹ نہیں ہوتا اس پر کام جاری ہے۔

جسارت نیوز گلزار

متعلقہ مضامین

  • بنیادی  انفرا اسٹرکچر کے بغیر ای چالان سسٹم کا نفاذ: کراچی کی سڑکوں پر سوالیہ نشان
  • ٹیکس چوروں کے گرد گھیرا تنگ، اربوں کے اثاثوں والے افراد کی لسٹ جاری
  • ایکسکلیوسیو انٹرویوز اکتوبر 2025
  • 20 برس کی محنت، مصر میں اربوں ڈالر کی مالیت سے فرعونی تاریخ کا سب سے بڑا میوزیم کھل گیا
  • ساونڈ سسٹم ایکٹ کی خلاف ورزی: راولپنڈی میں ایک شہری پر مقدمہ درج
  • راولپنڈی میں ساونڈ سسٹم ایکٹ کی خلاف ورزی پر مقدمہ درج
  • لاڑکانہ: سندھ بار ایسوسی ایشن کے رہنما ایڈووکیٹ اطہر سولنگی کی امیر صوبہ کاشف سعید شیخ سے وفد کے ساتھ ملاقات ، ایڈووکیٹ نادر علی کھوسو ، قاری ابوزبیر جکھرو بھی موجودہیں
  • لاہورہائیکورٹ :شیخ رشید کو بیرون ملک جانے کی اجازت
  • کراچی میں 4سال قبل چوری شدہ موٹرسائیکل کا چالان مالک کو بھیج دیا گیا
  • ملک کے 8 ہوائی اڈوں پر جدید انٹیگریٹڈ بارڈر مینجمنٹ سسٹم فعال