ایم ٹیگ استعمال نہ کرنے والی گاڑیوں سے 25 فیصد اضافی ٹول ٹیکس غیر قانونی؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
نینشل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کی جانب سے موٹر ویز پر ایم ٹیگ استعمال نہ کرنے یا کم بیلنس رکھنے والی گاڑیوں پر 25 فیصد ٹیکس این ایچ اے ایکٹ سے متصادم ہے جس کے باعث عوام سے کروڑوں روپے کی اضافی وصولی کو ماہرین غیر قانونی قرار دے رہے ہیں۔
این ایچ اے کی ویب سائٹ پر موجود نوٹس کے مطابق یکم فروری سے ایم ٹیگ استعمال نہ کرنے والی یا ناکافی بیلنس رکھنے والی گاڑیوں سے 25 فیصد ایکسٹرا ٹول ٹیکس لیا جارہا ہے۔
مگر این ایچ اے پالیسی کے مطابق یہ اضافہ غیر قانونی ہے کیونکہ این ایچ اے کی ٹولنگ پالیسی میں ایم ٹیگ کا ذکر تک نہیں ہے جبکہ این ایچ اے ایکٹ کے مطابق اس طرح کا پالیسی فیصلہ این ایچ اے کونسل اور این ایچ اے بورڈ کی منظوری اور وفاقی کابینہ کی تائید سے ہی ہوسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: ہائی ویز اور موٹرویز کے ٹول ٹیکس میں 30 فیصد تک اضافہ
تاہم ذرائع کے مطابق یکطرفہ طور پر ہی این ایچ اے افسران نے ایسا فیصلہ کیا ہے جس کی بدولت ہر ماہ کروڑوں کا اضافی ٹول ٹیکس غیر قانونی طور پر عوام کی جیبوں سے وصول کیا جائے گا۔۔
اس حوالے سے رابطہ کرنے پر این ایچ اے کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشن مظہر حسین کا کہنا تھا کہ این ایچ اے کی جانب سے 25 فیصد اضافی ٹول ٹیکس کا مقصد زیادہ پیسے اکٹھے کرنا نہیں بلکہ لوگوں کو ایم ٹیگ استعمال کرنے کی طرف راغب کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ این ایچ اے نے اضافی ٹیکس لگانے سے قبل ڈیڑھ ماہ سے عوامی آگاہی کی مہم شروع کر رکھی ہے جو اخبارات اور ٹی وی پر بھی نشر کی جارہی ہے تاکہ لوگ موٹروے پر ایم ٹیگ استعمال کریں اور آلودگی اور رش سے بچاو ممکن ہوسکے۔
تاہم ذرائع کے مطابق این ایچ اے کا حالیہ اقدام اس کے اپنے ایکٹ سے متصادم ہے کیونکہ اتھارٹی کے قواعد حکومت بناسکتی ہے جس کا مطلب سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں وزیراعظم اور ان کی کابینہ کی منظوری ہے۔
مزید پڑھیں: سال نو پر عوام کو تحفہ، 7 ماہ میں تیسری بار ٹول ٹیکس میں اضافہ کردیا گیا
ذرائع کے مطابق حالیہ فیصلے کو این ایچ اے کونسل اور این ایچ اے بورڈ سے بھی منظور نہیں کروایا گیا۔
اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ پری پیڈ اکاؤنٹ میں بیلنس زیادہ رکھنے سے ٹول وصول کرنے والی کمپنیوں کو کروڑوں روپے ایڈوانس میں ملیں گے جبکہ این ایچ اے کو صرف ادا شدہ ٹول ٹیکس کی رقم ہی وصول ہوگی۔
ذرائع کے مطابق این ایچ اے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے میں زیادہ سنجیدہ ہوتی تو اس حوالے سے تحقیق کے بعد قومی شاہراہوں پر گاڑیوں کی آلودگی کے حوالے سے کچھ دیگر اقدمات بھی نظر آتے۔
ذرائع کے مطابق ای ٹیگ کے نظام میں بھی نقائص ہیں اور کئی بار ٹیگ ریڈ نہ کرنے کے باعث اور دیگر وجوہات کی بنا پر گاڑیوں کی قطاریں ایم ٹیگ والی لائنوں پر بھی نظر آتی ہیں اور گاڑیوں کے سامنے خودکار رکاوٹ اٹھنے کا وقت بھی دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔
ذرائع کے مطابق انڈیا میں قانون ہے کہ اگر ٹول پلازہ پر 7 یا زیادہ گاڑیاں آپ کی گاڑی کے سامنے آجائیں اور آپ کا انتظار طویل ہو تو ٹول ٹیکس معاف کردیا جاتا ہے تاہم پاکستان میں این ایچ اے عوام کو اس طرح کی کوئی رعایت بھی نہیں دیتی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ذرائع کے مطابق حوالے سے
پڑھیں:
ایشیائی ترقیاتی بینک کی پاکستان کے لیے 33 کروڑ ڈالر اضافی فراہم کرنے کی نوید
ایشیائی ترقیاتی بینک نے سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ پاکستان کو سماجی تحفظ کے لیے 33 کروڑ ڈالر اضافی فراہم کریں گے۔
اے ڈی بی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سماجی تحفظ پروگرام سے 93 لاکھ افراد مستفید ہوں گے، جس کے لیے ملک کو 33 کروڑ ڈالر اضافی فراہم کیے جائیں گے، اس پروگرام میں غریب خواتین اور ان کے خاندان شامل ہیں۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق نئی مالی معاونت سے گھریلو غربت کی امداد کی بہتر نشان دہی کی جائے گی، رقم سے غریب خواتین اور بچوں کی بہتر غذائیت تک رسائی میں اضافہ ہوگا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وسطی اور مغربی ایشیا کو اب بھی ترقی اور سماجی بہبود کے چیلنجز کا سامنا ہے، اس خطے میں افغانستان، کرغزستان اور پاکستان کو غربت اور سماجی تحفظ کے مسائل ہیں۔
2024 میں پاکستان کو 2 ارب 99 کروڑ ڈالر سے زائد کی فنانسنگ، اور 2 ارب 31 کروڑ ڈالر سے زائد قرض اور گرانٹس فراہم کی گئیں، پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے 50 کروڑ ڈالر فراہم کیے گئے، سندھ ایمرجنسی ہاؤسنگ منصوبے کے لیے 40 کروڑ ڈالر فراہم کیے گئے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی استعداد کار بڑھانے کے لیے 40 کروڑ ڈالر فراہم کیے گئے، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پروگرام کے لیے 25 کروڑ ڈالر فراہم کیے گئے، کےپی میں شاہراہوں کی تعمیر و مرمت کے لیے 32 کروڑ ڈالر فراہم کیے گئے۔