جو آگ لگی ہے تن من میں اس پر نہ تیل گرا بابا!
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
لہو لہان، زخموں سے چور ماں باپ، احباب، رشتے داروں اور دوستوں کی جدائی کا دکھ سمیٹے فلسطینیوں نے ٹرمپ کے اعلان کے جواب میں کہا ہے کہ! ’’غزہ ہماری سرزمین، امریکا سمیت پوری دنیا اسے اپنے دماغ میں بٹھا لے کہ غزہ نہیں چھوڑیں گے‘‘، فلسطینیوں نے ٹرمپ کو پاگل قرار دے دیا ہے۔ اس بیان کو سنتے اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ چند جملے ایسے بھی ہوتے جن کا استعمال بر وقت کیا جائے تو وہ تاریخ میں لکھے جانے والاسنہرے حروف کا حصہ بن جاتے ہیں ایسے ہی یہ جملے ہیں جنہوں دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کر لی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے 2.
ٹرمپ صاحب! دنیا اور عالم اسلام کے عوام کو معلوم ہے کہ 471 دن کی جنگ میں امریکا نے اسرائیل کو اربوں ڈالرز کا اسلحہ، گولہ بارود اور انسانوں کے گوشت کے ٹکڑے کرنے والے بم دیے اور امریکی فضائی فوج کے اہلکاروں نے فلسطین میں معصوم اور بے گناہ شہریوں، بچوں اور خواتین پر برسات کی طرح خطرناک بم برسائے اور آج فلسطینیوں کو روشن مستقبل دکھا کر دھوکا دے رہے ہیں اور اسرائیل کی ہر طرح مدد کے لیے بے قرار ہو رہے ہیں۔ امریکا اسرائیل کا اصل اتحادی ہے جس نے 471 دن لاکھوں فلسطینیوں کو شہید کرنے میں ہر طرح کی سہولت اسرائیل کو فراہم کی ہے۔
جنگ بندی کے باوجود اسرائیل نے غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ اسرائیل کے وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ انہوں نے فوج کو ہدایت کی ہے کہ وہ جنگ زدہ علاقے کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کے مطابق بڑی تعداد میں فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی سے ہٹانے کے لیے منصوبہ تیار کریں۔ وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے جمعرات کو کہا کہ اس منصوبے میں زمینی راستے کے علاوہ سمندری اور فضائی راستے سے فلسطینیوں کو نکالنے کے خصوصی انتظامات شامل ہوں گے۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ وہ ٹرمپ کے اس جرأت مندانہ منصوبے کا خیرمقدم کرتے ہیں، جو غزہ کی ایک بڑی آبادی کو دنیا کے مختلف مقامات پر جانے کی اجازت دے سکتا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ آیا فلسطینی غزہ سے کہاں جائیں گے۔ اسرائیل کے وزیر دفاع سے سوال یہ ہے کہ جو کام اسرائیل 471 دن میں نہ کر سکا وہ ٹرمپ کے اعلان سے کیسے ممکن ہے؟ ٹرمپ کے اس منصوبے کو فلسطینیوں اور بین الاقوامی برادری نے یکسر مسترد کر دیا تھا۔ انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق، اتنی بڑی آبادی کو اْن کے علاقوں سے بے دخل کرنا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
مصر نے غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کو ناکام بنانے کے لیے پردے کے پیچھے سفارتی کارروائی شروع کر دی ہے۔ مصر نے خبردار کیا ہے کہ اس طرح کا منصوبہ اسرائیل کے ساتھ اس کے امن معاہدے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے ٹرمپ کی تجویز کا عوامی طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن عالمی میڈیا کے مطابق مصری عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بند کمرے میں ہونے والی بات چیت حوالے سے بتایا کہ قاہرہ نے ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیل پر واضح کر دیا ہے کہ وہ ایسی کسی بھی تجویز کی مزاحمت کرے گا۔ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ خطرے میں ہے۔ لیکن سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ مصر، اردن، سعودی عرب، اومان اور امارات جیسے ملک امریکا سے ٹکرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ یہ تو قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ ٹرمپ کے اس منصوبے کے مخالفین امریکا کے حکومتی ارکان اور کانگریس، نیز اسرائیل کے مغربی یورپی اتحادی، بشمول برطانیہ، فرانس اور جرمنی، اسپین، آئرلینڈ اور ناروے نے اسرائیلی تجویز کو مسترد کر دیا۔ اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے جمعرات کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ اسپین، ناروے اور آئرلینڈ کو غزہ سے فلسطینیوں کو اپنے ملک لے جانا چاہیے۔ ان ممالک نے گزشتہ سال علامتی طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا تھا اور غزہ میں حماس کے خلاف جنگ کے دوران اسرائیل کے طرز عمل پر تنقید کی تھی۔ کاٹز نے کہا کہ اگر وہ انکار کرتے ہیں تو ان کی منافقت بے نقاب ہو جائے گی۔ تینوں مغربی یورپی ممالک نے اسرائیلی خیال کو یکسر مسترد کر دیا۔
اسپین کے وزیر خارجہ جوز مینوئل الباریس نے ہسپانوی ریڈیو اسٹیشن آر این ای کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ غزہ فلسطینیوں کی سرزمین ہے۔ یہ علاقہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کا حصہ ہونا چاہیے۔ آئرلینڈ کے وزیر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ مقصد یہ ہونا چاہیے کہ فلسطینی عوام بحفاظت اپنے گھروں کو لوٹیں اور اس کے برعکس کوئی بھی تبصرہ غیر مفید اور خلفشار کا باعث ہوگا۔ ناروے کے نائب وزیر خارجہ آندریاس کراوک نے کہا کہ بین الاقوامی قانون شہریوں کو فوج کے زیر قبضہ علاقے سے زبردستی کسی دوسرے ملک میں جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ فلسطینی عوام کو خود ارادیت اور اپنی ریاست کا بنیادی، آزاد حق حاصل ہے۔ سوال یہ مصر اور اردن اس منصوبے سے انحراف کیوں کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصر اور اردن اس منصوبے کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرے کے طور پر دیکھ ر ہے ہیں۔ مصر نے حماس اسرائیل جنگ کے اوائل میں بائیڈن انتظامیہ اور یورپی ممالک کی طرف سے اسی طرح کی تجاویز کو مسترد کر دیا تھا۔ اس سے قبل ایسی تجاویز نجی طور پر پیش کی گئی تھیں، جب کہ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کے ساتھ وائٹ ہاؤس کی ایک پریس کانفرنس میں اپنے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فلسطینیوں کو سے فلسطینیوں مسترد کر دیا ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کے نے اسرائیل امریکا کے وزیر دفاع نے کہا کہ ٹرمپ کے کے وزیر ٹرمپ کی کے ساتھ ہے ہیں کیا ہے غزہ کی کے لیے کہ غزہ جنگ کے
پڑھیں:
فضل الرحمٰن کا فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے لاہور، کراچی، کوئٹہ میں ملین مارچ کا اعلان
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ 11 مئی کو پشاور اور 15 مئی کو کوئٹہ میں ملین مارچ ہوگا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ملک ہے اور حیثیت ایک قابض ملک کی ہے، جمعیت علمائے اسلام فلسطین کی جدوجہد آزادی کی حمایت جاری رکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ کیا کوئی ملک بے گناہ عورتوں اور بچوں کو شہید کرتا ہے، کیا کبھی ملک دفاعی طور پر بے گناہ شہریوں کو شہید کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 27 اپریل کو لاہور میں بہت بڑا ملین مارچ ہوگا، پنجاب کے عوام فلسطینی بھائیوں کے حق میں آواز بلند کریں گے اور ایک قوت بن کر سامنے آئیں جو امت مسلم کی آواز ہوگی، 11 مئی کو پشاور اور 15 مئی کو کوئٹہ میں غزہ کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ملین مارچ ہوگا۔
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ پاکستانی عوام خاص طور پر تاجر برادری مالی طور پر جہاد میں شریک ہوں، سیاسی طور اس جہاد میں عوام کی پشت پر کھڑا ہوں گا، ہم ان کی آزادی کے لیے اپنی جنگ اور جدوجہد جاری رکھیں گے۔
’عوام مالی طور پر جہاد میں شریک ہوں‘
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں خاص طور پر بلوچستان، خیبرپختونخوا اور سندھ میں بدامنی کی صورتحال ناقابل بیان ہے، کہیں پر بھی حکومتی رٹ نہیں ہے اور مسلح گروہ دنداتے پھر رہے ہیں اور عام لوگ نہ اپنے بچوں کو اسکول بھیج سکتے ہیں اور نہ مزدوری کرسکتے ہیں جب کہ کارباری طبقہ بھی پریشان ہے کہ ان سے منہ مانگے بھتے مانگے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کی کارکردگی اب تک زیرو ہے، وہ کسی قسم کا ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے، ہماری جماعت اس مسئلے کو بھی اجاگر کررہی ہے، ہمارا یہ موقف ہے کہ حکومتی اور ریاستی ادارے عوام کے جان و مال کو تحفظ دینے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
’وفاقی اور صوبائی حکومتیں ناکام ہوچکی ہیں‘
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ دھاندلی کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومتیں چاہے وفاق میں ہو یا صوبے میں، وہ عوام کے مسائل کے حل اور امن وامان کے قیام میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے 2018 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر مسترد کردیا تھا اور 2024 کے الیکشن پر بھی ہمارا وہی موقف ہے، ہم ان اسمبلیوں کو عوام کی نمائندہ اسمبلیاں نہیں کہہ سکتے، اس بات پر زور دے رہے ہیں، قوم کو شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر مسلسل عوام کی رائے کو مسترد کیا جاتا ہے اور من مانی نتائج سامنے آتے ہیں اور سلیکٹڈ حکومتیں قوم پر مسلط کی جاتی ہیں، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اہم اپنے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
’اپوزیشن کا باضابطہ کوئی اتحاد موجود نہیں‘
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا کہ اگر صوبوں کا حق چھینا جاتا ہے تو ہم صوبوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور اپنے پلیٹ فارم سے میدان میں رہے گی، البتہ آئے روز کے معاملات میں کچھ مشترکہ امور سامنے آتے ہیں اس حوالے سے مذہبی جماعتوں یا پارلیمانی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ سے ملکر اشتراق عمل کی ضرورت ہو، اس کے لیے جمعیت کی شوریٰ حکمت عملی طے کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا اب تک کوئی باضابطہ کوئی موثر اتحاد موجود نہیں لیکن ہم باہمی رابطے کو برقرار رکھیں گے تاکہ کہیں پر بھی جوائنٹ ایکشن کی ضرورت پڑے تو اس کے لیے راستے کھلے ہیں اور فضا ہموار ہے۔
’مائنز اینڈ منرلز بل کو مسترد کرتے ہیں‘
انہوں نے کہا کہ مائنز اینڈ منرلز بل خیبرپختونخوا میں پیش کیا جانا ہے اور بلوچستان میں پیش کیا جاچکا ہے اور شاید پاس بھی ہوچکا ہے، جمعیت علمائے اسلام کی جنرل کونسل نے اس کو مسترد کردیا ہے، بلوچستان اسمبلی میں ہمارے کچھ پارلیمانی ممبران نے بل کے حق میں ووٹ دیا، ان سے وضاحت طلب کرلی گئی ہے اور ان کو شوکاز نوٹس بھی جاری کردیا گیا ہے اگر ان کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے تو ان کی رکنیت ختم کردی جائے گی۔