ججز کی تعیناتی مؤخر ،26 ویںترمیم پر فل کورٹ بنایا جائے، جسٹس منصور سمیت 4 ججز کاچیف جسٹس کو خط
اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT
اسلام آباد(نمائندہ جسارت)عدالت عظمیٰ کے 4 ججز نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر ججز تعیناتی مؤخر کرنے کا مطالبہ کردیا۔تفصیلات کے مطابق خط لکھنے والوں میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں جو کہ چیئرمین جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کو لکھا گیا ہے۔ججز نے خط میں لکھا ہے کہ عدالت عظمیٰ میں ججز تعیناتی کے معاملے میں 26ویں ترمیم کیس میں آئینی بینچ فل کورٹ کا کہہ سکتا ہے، نئے ججز آئے تو فل کورٹ کون سی ہو گی یہ تنازع بنے گا، اسلام آباد ہائیکورٹ میں3 ججز ٹرانسفر ہوئے، آئین کے مطابق نئے ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں دوبارہ حلف لازم تھا۔ججز نے لکھا کہ آئینی ترمیم کا کیس ترمیم کے نتیجے میں بننے والا آئینی بینچ سن رہا ہے، آئینی ترمیم کا مقدمہ فوری طور پر فل کورٹ میں مقرر ہونا چاہیے، پہلے بھی آئینی ترمیم کا کیس فل کورٹ میں مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تھا، آئینی بینچ نے بھی کیس کافی تاخیر سے مقرر کیا گیا، آئینی ترمیم کیس کی آئندہ سماعت سے قبل ہی نئے ججز کی تعیناتی کے لیے جلدبازی میں اجلاس بلا لیا گیا، آئینی ترمیم کیس زیر سماعت ہے، ترمیم سے فائدہ اٹھانے والے ججز کے آنے سے عوامی اعتماد متاثر ہوگا۔خط میں کہا گیا ہے کہ آئینی بینچ اگر فل کورٹ کی درخواستیں منظور کرتا ہے تو فل کورٹ تشکیل کون دے گا؟ اگر فل کورٹ بنتی ہے تو کیا اس میں ترمیم کے تحت آنے والے ججز شامل ہوںگے؟ اگر نئے ججز شامل نہ ہوئے تو پھر سوال اٹھے گا کہ تشکیل کردہ بینچ فل کورٹ نہیں، اگر موجودہ آئینی بینچ نے ہی کیس سنا تو اس پر بھی پہلے ہی عوامی اعتماد متزلزل ہے، عوام کو موجودہ حالات میں ’’کورٹ پیکنگ‘‘ کا تاثر مل رہا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
نینو ٹیکنالوجی سے بنایا گیا دنیا کا سب سے چھوٹا وائلن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سائنس اور نینو ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک اور غیر معمولی کارنامہ سرانجام پا گیا، جب برطانیہ کی معروف لافبورو یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے دنیا کا سب سے چھوٹا وائلن بنا کر سب کو حیران کر دیا۔
یہ وائلن نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کیا گیا ہے اور اتنا چھوٹا ہے کہ اسے عام آنکھ سے تو دیکھا جا سکتا ہے، لیکن اس کی تفصیلات دیکھنے کے لیے مائیکرو اسکوپ درکار ہوگی۔
ماہرین کے مطابق یہ ننھا سا وائلن صرف 35 مائیکرون لمبا اور 13 مائیکرون چوڑا ہے۔ یاد رہے کہ ایک مائیکرون ایک میٹر کا 10 لاکھ واں حصہ ہوتا ہے، یعنی یہ وائلن انسانی بال سے بھی پتلا ہے، جن کا قطر اوسطاً 17 سے 180 مائیکرونز کے درمیان ہوتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وائلن کا سائز اتنا چھوٹا ہے کہ یہ مشہور خوردبینی جاندار ٹارڈیگریڈ سے بھی کم لمبا ہے، جو 50 سے 1200 مائیکرونز کے درمیان ہوتے ہیں۔
سائنسدانوں نے اس وائلن کی تیاری نینولِیتھوگرافی (Nanolithography) کے ذریعے ممکن بنائی، جو نینو اسکیل پر ڈھانچے بنانے کی جدید ٹیکنالوجی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی بدولت نہایت باریک اشیا، جیسے کہ وائلن، چِپ اجزا یا خلیاتی پیمانے پر ماڈل، انتہائی درستگی سے تیار کیے جا سکتے ہیں۔
محققین کے مطابق یہ وائلن صرف فنکارانہ مظاہرہ نہیں بلکہ سائنسی کامیابی کا عملی ثبوت بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نینولِیتھوگرافی سسٹم کی یہ صلاحیت مستقبل میں بایومیڈیکل انجینئرنگ، مائیکرو روبوٹکس اور نینو سینسرز جیسے شعبوں میں انقلابی تبدیلیاں لا سکتی ہے۔
اگرچہ یہ وائلن موسیقی بجانے کے قابل نہیں ہے، لیکن اس کی تیاری اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ سائنس دان کتنی نفاست اور باریکی سے نینو سطح پر اشیا ڈیزائن کر سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایجاد طلبہ اور محققین کو نینو اسکیل فزکس اور ڈیزائننگ کی تربیت دینے کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔
یہ ننھا سا وائلن نہ صرف سائنسی دنیا کے لیے ایک علامتی کامیابی ہے بلکہ یہ انسانی مہارت، فن اور نینو ٹیکنالوجی کے ملاپ کی خوبصورت مثال بھی بن چکا ہے۔