Daily Ausaf:
2025-11-13@16:15:35 GMT

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماںہونا

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

انتشاری ٹولہ اور بعض صحافتی گدھ جس طرح سےشیخ مجیب کے وکیل صفائی بنے ہوئے ہیں ،اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ محض اتفاق ہے توبڑی غلط فہمی میں ہے یا سٹریٹجک تبدیلیوں سے لاعلم، بلکہ جہالت کا شکار ۔ حقیقت یہ ہے کہ مجیب کی محبت کا قلونج ہو یا حمود الرحمٰن کمیشن کی درد شقیقہ دونوں کا سبب ایک ہے، ڈھاکہ میں بھارتی مفادات کی چتا سے اٹھتا دھواں اور پاکستان مخالف پروپیگنڈے کی اڑتی ہوئی دھول ، جس نے دہلی کے سائوتھ بلاک میں بیٹھے مکار بڈھو ں کے حواس مختل کر رکھے ہیں، وہ اپنی پون صدی کی سرمایہ کاری کو برباد ہونے سے بچانے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں ۔ ایک جانب ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسی دہشت گرد تنظیمیں ہیں تو دوسری جانب پروپیگنڈے کے محاذ پر ’’1971‘‘ کے آزمودہ بلکہ ایوارڈ یافتہ ’’فارن فرینڈز‘‘ کے وارثوں کو ایک بارپھر راتب ڈال رہے ہیں ، جو اپنی آباء کی رسم غداری اور دشمن سے یاری کی سرشت کے تحت یہ کبھی مہرنگ جیسی کٹھ پتلیوں کے سنگ دہشت گردوں کے ہمنوا ہوتے ہیںتو کبھی مجیب کی مدح خوانی کرکے پرکھوں کی پیروی کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔وقت کے قاضی نے پاکستان اور دو قومی نظریہ کے حق میں جو فیصلہ صادر کیا ہے ،وہ اس تمام پروپیگنڈے کی موت ہے بشرطیکہ ہم بنگلہ دیش کی بیداری اور بھارت مخالف بیانیے کو پاکستان میں درست طریقے سے پیش کر سکیں۔ اب تک ریاست اس میں ناکام دکھائی دیتی ہے ، مگر شائد ۔۔۔ ۔ ؟
حقیقت یہ ہے کہ سقوطِ مشرقی پاکستان کو نصف صدی سے زیادہ کا و قت بیت چکا، اس دوران دنیابھر میں اس سانحہ پر بے پناہ کام ہوا، بھارتی، بنگلہ دیشی اور مغربی ارباب دانش نے سچ کی کھوج لگانے کی پوری کوشش کی،جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے ، اسی سچ نے بنگلہ دیشیوں کی سوچ کو بدلا اوروہا ں بھارت ہی نہیں اس سے منسلک ہر چیز قابل نفرت قرار پاگئی ۔ المیہ مگر یہ ہے کہ ہم نے نہ صرف یہ کہ اس پر اس طرح سے کام نہیں کیا ، جس طرح کرنا چاہئے تھا بلکہ اغیار کا ڈھونڈا ہواسچ بھی اپنی نسل نو کے سامنے رکھنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔جس کی بہت سے ’’معلوم وجوہات‘‘ ہیں ، جن پر بحث کا یہ موقع نہیں ،لیکن سچ یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کے سامنے شاید آج بھی وہ حقائق پوری طرح نہیں لائے جا سکے جن کی بدولت سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا۔ اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے کہ اس سارے خونی کھیل کے پیچھے بھارت کی مکروہ چالیں اور عزائم تھے جنہیں شاید ہماری سیاسی قیادت اس وقت صحیح طریقے سے سمجھ نہ سکی یا بعض خود اس کھیل کا حصہ تھے ۔
کہا جاتا ہے کہ مکتی باہنی کا قیام سقوطِ ڈھاکہ کے پوشیدہ رازوں میں سے ایک تھا جس کا پردہ اب مکمل طور پر چاک ہو چکا ہے اور بات ریسرچ پیپر ز سے آگے نکل کر ان کرداروں کے زبانی حقائق کے اظہار تک آگئی ہے جو کسی غلط فہمی یا ورغلانے پر اس وقت قاتلوں اور دہشت گردوں کے گروہ میں شامل ہوئےاور اب سچ سامنے آنے پر اپنی آنے والی نسلوں کو دشمن کے جال سے بچانا چاہتے ہیں ۔ ان میں ایک نام زین العابدین کا بھی ہے، جو 971 میں مکتی باہنی کا کمانڈر اور پاکستان کے خلاف سازش کا کردار رہا۔ زین العابدین نے سچ بول کر اپنے ماضی کی غلطیوں کا زالہ کرنے کی کوشش کی ہے ، لازم ہے کہ اس سچ کو پاکستانی نوجوانوں میں پھیلایا جائے ، تاکہ میر جعفر و میر صادق کے وارث اور ان کے ممدوح بلوچستان سے فاٹا تک بھارتی ایجنٹ دہشت گردوں کے پروپیگنڈے کے متاثرین کے ساتھ ساتھ ، انتشاری ایجنڈے کے شیطانی سحر کا شکار بے سمت نوجوان جان سکیں کہ انہیں کس آگ میں جھونکنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مکتی باہنی کے 74سالہ سابق کمانڈر زین العابدین نے جو اب پنسلونیا امریکہ میں مقیم ہیں یوٹیوب چینل وائٹ نیوز بنگلہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مشرقی اور مغربی پاکستان کی علیحدگی کے بارے میں چونکا دینے والے انکشافات کئے ہیں۔زین العابدین نے کہا کہ’’ ہمیں اپنے ہی ملک اور اپنے ہی بھائیوں کے خلاف لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ہم کبھی نہیں سوچاتھا کہ ہمارے آبائو اجداد کی بے مثال قربانیوں اور جدوجہدکے بعد حاصل ہونیوالاملک ایک دن ہمیں آپس میں لڑتے ہوئے دیکھے گا۔انہوں نے انکشاف کیا کہ مکتی باہنی کے ارکان کو بھارت میں مسلح ٹریننگ دی گئی، ’’دہرادون‘‘ اور ’’ہافلانگ‘‘ میں دہشت گردی کے تربیتی مراکز قائم کئے گئے تھے ۔بنگلہ دیش کے موجودہ سیاسی منظر نامے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے اقتدار سے بے دخلی کے بعد فرار ہوکر بھارت میں قیام کے بارے میں بھی اہم انکشافات کئے اور بتایا کہ حسینہ بھارت میں آزاد نہیں ہےبلکہ گھر میں نظر بند اور مودی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ بھارت اسے کبھی رہا نہیں کرے گا۔ اگر اسے رہا کر دیا جاتا ہے تو وہ سب کچھ ظاہر کر دے گی کہ کس طرح بھارت نے اسے بنگلہ دیش پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کیا اور کس طرح بھارت معصوم لوگوں کے قتل میں ملوث تھا۔ زین العابدین کا عزم ہے کہ وہ اپنی تحریریوں کے ذریعے دنیا کے سامنے “بھارت کا بدصورت چہرہ ‘‘بے نقاب کررہا ہے، اسے یقین ہے کہ ایک دن ضرور بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہو گا۔عالمی طاقتیں بھارت کو بنگلہ دیش پر غلبہ حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گی، نہ پاکستان، چین یا روس اسے برداشت کریں گے ۔ بھارت کے عوام جانتے ہیں کہ مودی کا ہندوستان پاکستان یا بنگلہ دیش کے ساتھ جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ انہوں نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان جوہری معاہدے کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہاکہ دونوں ممالک کے درمیان جوہری معاہدے ہوں گے ۔ پاکستان 1971 میں ملک کو دوٹکرے کرنے کا جواب دے گا ، اگر آج پاکستان متحد ہوتا تو بھارت پہلے ہی تقسیم ہو چکا ہوتا۔ اگر بھارت بنگلہ دیش کے لیے مسائل پیدا کرتا رہا تو اسے تقسیم ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔انہوں نے پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کے درمیان دشمنی کے تصور کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہ’’ہم مشترکہ مذہبی اور ثقافتی رشتوں میں بندے ہوئے ہیں ۔ بنگالی پاکستان کے خلاف نفرت کے جذبات نہیں رکھتے ۔ ہم ایک قوم ہیں،ہمارا مذہب بھی ایک ہے، پاکستانی ہم بنگلہ دیشیوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں، ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے آبائو اجداد نے جو ملک بنایا تھا وہ متحد نہیں رہ سکا۔ اگر 1971 کا المناک واقعہ رونما نہ ہوتا تو ہم ایک مضبوط اور بہتر قوم بن سکتے تھے۔بھارت میں تربیت کے دوران اپنے تجربات کا ذکر کرتے ہوئے،زین العابدین نےانکشاف کیا،”ہمارے ٹرینر آسام اور اترپردیش سے تھے۔ انہوں نے کبھی بھی اپنے نام ظاہر نہیں کیے، لیکن ہم انہیں ابتدائی ناموں سے جانتے تھے جیسے ایس کے ، سی پی اور بی ایم ۔ ان میں ایک بمل مکھرجی تھا جس کا نام مجھے بنگلہ دیش بننے کے بعد معلوم ہوا۔انہوں نے بتایاکہ انہیں چھوٹے دستی بم بنانے، بم نصب کرنے اور پلوں اور عمارتوں کو تباہ کرنے کے علاوہ ایل ایم جی چلانے اور فوجی حکمت عملیوں سے متعلق تربیت دی گئی ۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: زین العابدین نے بنگلہ دیش کے مکتی باہنی بھارت میں کرتے ہوئے انہوں نے یہ ہے کہ

پڑھیں:

ایسی جمہوریت کی ضرورت نہیں جس کے فوائد عوام تک نہ پہنچ سکیں، خالد مقبول صدیقی

ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ پاکستان کو ایسی جمہوریت کی ضرورت نہیں جس کے ثمرات عوام عوام تک نہ پہنچ سکیں۔

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے چیئرمین اور وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے قومی اسمبلی میں 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے موقع پر اپنے خطاب میں واضح طور پر کہا کہ پاکستان کو ایسی جمہوریت کی قطعی ضرورت نہیں ہے جس کے ثمرات ملک کے عام عوام تک نہ پہنچ سکیں۔

انہوں نے حکمران طبقے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے مفادات عوامی مفادات سے براہِ راست متصادم ہیں اور یہ امر ملک میں ایک غیر متوازن سیاسی اور معاشی ڈھانچہ پیدا کر رہا ہے۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے صوبائی خودمختاری کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس سے کہیں زیادہ اہم عوام کی خودمختاری ہے، جسے یقینی بنانا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔

انہوں نے 18 ویں ترمیم پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس ترمیم کا مقصد بلاشبہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی تھا، مگر عملی طور پر یہ طاقت کے ارتکاز کا سبب بن گئی ہے، جس نے ملک کے وفاقی ڈھانچے کو کمزور کیا ہے۔

انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے میں آرٹیکل 140-اے کی وضاحت کی حمایت کرتے ہوئے اسے من و عن لاگو کرنے کا مطالبہ کیا، ساتھ ہی ان عناصر کو جمہوریت اور عوام کا دشمن قرار دیا جو آئین کے اس اہم آرٹیکل کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ آرٹیکل 140-A کی مخالفت دراصل آئینِ پاکستان کی توہین کے مترادف ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایک جانب بھارت تو دوسری جانب افغانستان دہشت گردوں کی سرپرستی کررہا ہے، ملک عثمان ڈوگر 
  • شکریہ سری لنکا!
  • القاعدہ کا بہانہ، بھارت بھر میں بنگلہ دیشی اور مقامی مسلم آبادیوں کو نشانہ
  • دہشت گردی کی نئی لہر
  • ایسی جمہوریت کی ضرورت نہیں جس کے فوائد عوام تک نہ پہنچ سکیں، خالد مقبول صدیقی
  • حسینہ واجد کے متنازع انٹرویو پر بنگلہ دیش کا بھارت سے احتجاج، میڈیا رسائی محدود کرنے کا مطالبہ
  • کیا پاک افغان ایک اور لڑائی ناگزیر ہے، بھارت افغانستان تزویراتی الحاق کیا رنگ دکھائے گا؟
  • وانا، اسلام آباد حملے بھارت اور افغان طالبان گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہیں، دفاعی تجزیہ کار
  • پاکستان پر حملے افغان طالبان کی سہولت کاری کے بغیر ممکن نہیں،وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ
  • بھارت کے ساتھ نیا تجارتی معاہدہ دونوں ملکوں کے لیے تاریخی ہوگا، ٹرمپ کا اعلان