Daily Ausaf:
2025-06-09@22:15:12 GMT

ٹرمپ کی خارجہ پالیسی، وعدے اور حقیقت

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
سٹیفن ملر23 اگست1985ء کو سانتامونیکا، کیلیفورنیامیں پیداہوا۔ اس کے والدین روسی یہودی مہاجرین کی اولادتھے،جوخودایک امیگریشن پس منظر رکھتے تھے۔تاہم ملرنے اپنی ابتدائی عمر سے ہی امیگریشن کےخلاف سخت موقف اپنایا۔ ڈیوک یونیورسٹی سےگریجویشن کرنے کے بعد،وہ قدامت پسند سیاست میں شامل ہوگیااوربعد میں ٹرمپ کی صدارتی مہم کے اہم رکن بنا۔وہ ٹرمپ کے’’سب سے پہلے امریکا‘‘کے ایجنڈے کانمایاں حمایتی رہااورامیگریشن کو امریکی معیشت، سکیورٹی اورثقافت کے لئے خطرہ قرار دینے کی کوشش کی۔ملرکی نگرانی میں ٹرمپ انتظامیہ نے کئی سخت گیرامیگریشن اقدامات متعارف کرائے، جن میں مسلم اکثریتی ممالک پرسفری پابندی،جنوبی سرحد پردیوارکی تعمیر اورپناہ کے قوانین میں سختی شامل تھی۔ان پالیسیوں کامقصدبظاہرغیرقانونی تارکین وطن کوروکنااورقانونی امیگریشن کوبھی محدود کرنا تھا ۔ ملرنےان پالیسیوں کوامریکی معیشت اورثقافت کے تحفظ کےلئے ضروری قرار دیالیکن ناقدین نے انہیں نسل پرستی اورتعصب پرمبنی قراردیا۔
امریکامیں ’’پیدائش پرشہریت‘‘کاقانون آئین کی چودھویں ترمیم کے تحت حاصل ہے،جس کے مطابق امریکامیں پیداہونے والاہربچہ خودبخودامریکی شہری بن جاتاہے۔تاہم ٹرمپ اورملرنے اس قانون کوختم کرنے کے لئے ایگزیکٹوآرڈرپردستخط کرنے کاارادہ ظاہر کیا۔ان کامؤقف ہے کہ یہ قانون غیرقانونی تارکین وطن کے بچوں کوغیرضروری طورپرشہریت فراہم کرتاہے جوکہ امریکی وسائل پربوجھ بنتے ہیں۔آئینی ماہرین کے مطابق’’پیدائش پرشہریت‘‘کاقانون چودھویں ترمیم کے تحت محفوظ ہے اوراسے ایگزیکٹوآرڈرکے ذریعے تبدیل کرناممکن نہیں۔قانون میں ترمیم کے لئے کانگریس کی منظوری یاسپریم کورٹ کی تشریح ضروری ہے۔اگرچہ ٹرمپ نے یہ معاملہ قانونی سطح پرچیلنج کرنے کی دھمکی دی تھی لیکن اس کے عملی امکانات محدودنظرآتے ہیں۔
سٹیفن ملرکی پالیسیاں اوراس کے سخت گیر اور متعصبانہ نظریات امریکی سیاست میں امیگریشن کے حوالے سے گہرے اختلافات کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کامقصدامریکی مفادات کاتحفظ قراردیا گیا لیکن ان کے اقدامات نے انسانی حقوق،آئینی اصولوں، اور سماجی مساوات کے مسائل کوبھی اجاگر کیا ہے۔ٹرمپ کے دورحکومت میں یہ کوششیں توجہ کامرکزرہے گی لیکن آئندہ حکومتوں کے لئے یہ ایک متنازعہ ورثہ چھوڑجائے گی۔
مزیدمسلم ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیاں عائد کرنے کے اقدامات سے امریکا کے مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کوشدید نقصان پہنچاہے۔ان پالیسیوں نے امریکامیں موجود مسلم کمیونٹی کوالگ تھلگ کردیاہے اورانسانی حقوق کی تنظیموں کوشدید تشویش میں مبتلا کیا ہے۔یہ اقدامات امریکاکے عالمی اثرورسوخ کوکمزور کر سکتے ہیں، کیونکہ مسلم ممالک میں ان پالیسیوں کے خلاف سخت ردعمل دیکھنے کوملاہے۔
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیاتھاکہ وہ نئی جنگوں سے گریزکریں گے اورجاری جنگوں سے باہرنکلیں گے۔تاہم،ان کی خارجہ پالیسی ان وعدوں سے متصادم نظرآئی۔ایران کے ساتھ کشیدگی، افغانستان سے مکمل انخلامیں امریکاجیسی سپرپاورکی ناکامی،اورشام میں امریکی مداخلت کے جاری رہنے نے ان وعدوں کی حقیقت پرسوال اٹھائے ہیں۔اگر آپ کویادہوتوٹرمپ نے اپنے پہلے دورِاقتدارمیں افغانستان میں جس بہیمانہ اندازمیں ’’بموں کی ماں‘‘ کابے دریغ استعمال کیاتھا، لیکن اس کے باوجود انہیں پاکستان کے توسط سے دوحہ میں انہی طالبان کے سامنے ان کی تمام شرائط تسلیم کرنے کے بعدامریکی افواج کابراستہ پاکستان انخلا ممکن ہو سکا تھا۔
ٹرمپ کابینہ کے خارجہ سیکرٹری کی جانب سے اسامہ بن لادن کے سرکی قیمت سے زیادہ افغانستان کے حکمران طالبان لیڈروں کے سروں کی قیمت لگانے کاعندیہ ایک نیاموڑہے ۔ یہ پالیسی خطے میں عدم استحکام کاباعث بن سکتی ہے کیونکہ طالبان کے خلاف اس قسم کے اقدامات ان کے ردعمل کومزیدشدت دے سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف افغانستان میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچا سکتاہے بلکہ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے ممالک پربھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
امریکا کی چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے پاکستان پردباؤڈالنے کی امریکی کوششیں بھی ناکام دکھائی دیتی ہیں کیونکہ سی پیک چین کے بیلٹ اینڈروڈانیشیٹوکاایک اہم حصہ ہے اوراس پردباؤڈالنے کا مقصدچین کے اثرورسوخ کومحدودکرناہے۔تاہم یہ دباؤ پاکستان کے داخلی سیاسی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے،جونہ صرف پاک امریکا تعلقات کو متاثر کر سکتا ہے بلکہ خطے میں امریکاکے لئے مزیدمشکلات پیدا کر سکتاہے۔
صدرٹرمپ نے دعویٰ کیاکہ ان کے برطانیہ کے وزیراعظم سرکیئرسٹارمرکے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں،باوجوداس کے کہ وہ لبرل ہیں لیکن ان کی پالیسیاں برطانیہ میں مقیم برٹش مسلمانوں میں شکوک وشبہات کوبڑھارہی ہیں،جوان کے بیانات اورپالیسیوں کے اثرات کی عکاسی کرتی ہیں۔یہ بات ظاہرکرتی ہے کہ ٹرمپ اپنے عالمی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں لاناچاہتے ہیں لیکن وہ اپنے ان مذموم مقاصدمیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے تاہم ایک کاروباری ذہن کے مالک نے اپنے ووٹرز کو خوش کرنے کے لئے یہ بیان تودیاہے لیکن وقت آنے پریہ خوش گمانی ختم ہوجائے گی اورٹرمپ اپنے حامیوں سے یہ کہہ کربری الذمہ ہوجائیں گے کہ انہوں نے توپوری کوشش کی لیکن مقامی حالات ان کے راستے کی رکاوٹ بن گئے۔
ٹرمپ نے اپنی وائٹ ہائوس واپسی کے ابتدائی دنوں میں واضح کردیاکہ وہ ایگزیکٹو اختیارات کابڑی حدتک استعمال کرکے ملک کو بدلنے کاارادہ رکھتے ہیں۔ یہ تبدیلیاں وقتی طورپرتو امریکی معیشت یاسیاست میں کچھ فوائد فراہم کرسکتی ہیں،لیکن طویل مدت میں یہ امریکاکے جمہوری ڈھانچے کونقصان پہنچاسکتی ہیں۔اس لئے ٹرمپ کی پالیسیوں کے اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ کہنامشکل ہے کہ ان کادورحکومت امریکاکومضبوط کرے گایاکمزور۔ان کے اقدامات نے اندرون ملک عوام کوتقسیم کیاہے اورامریکاکی عالمی حیثیت کوچیلنجز کا سامنا ہے۔ تاہم ٹرمپ کے ٹیکس کٹوتیوں کے حکم سے امریکی معیشت میں بہتری دیکھنے کوملی ہے۔انہوں نے قومی مفادات پرتوجہ دیتے ہوئے اس کواولین ترجیح دی ہے جوان کے ووٹرزکے لئے ایک مثبت پہلوتھالیکن دوسری طرف انسانی حقوق کے چیمپئن ہونے کادعویٰ کرنے والے ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں نے امریکاکی اخلاقی حیثیت کوکمزورکردیاہے۔
ٹرمپ کی یورپی اتحادیوں، کینیڈا اور میکسیکوکے ساتھ تعلقات میں کشیدگی نے جہاں امریکا کی سفارتی طاقت کونقصان پہنچایاوہاں ٹرمپ کی پالیسیوں نے چین اورروس کوعالمی سطح پراپنااثرور سوخ بڑھانے کاموقع فراہم کیاہے۔ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیوں اور ایگزیکٹو اختیارات کے غیرمعمولی استعمال نے امریکا کو ایک ایسی راہ پرڈال دیاہے جہاں اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کمزورہو رہے ہیں اورعالمی سیاست میں تنازعات بڑھ رہے ہیں۔یہ پالیسیزوقتی طور پر امریکا کے مفادات کو فائدہ پہنچاسکتی ہیں لیکن طویل المدتی میں یہ امریکاکی عالمی حیثیت کونقصان پہنچاسکتی ہیں۔دنیاایک پیچیدہ اورباہم جڑی ہوئی جگہ ہے،اورکسی بھی عالمی طاقت کو اپنی مرضی سے چلانے کی خواہش بالآخرمشکلات کوجنم دیتی ہے۔امریکاکی کامیابی باہمی تعاون، سفارتی حکمت عملی اور اندرونی استحکام پرمنحصرہے اوریہی اصول اس کی عالمی قیادت کوبرقراررکھنے کے لئے ناگزیرہیں۔
ٹرمپ اپنی مرضی سے دنیاکوتونہیں چلاسکتے لیکن وہ عالمی نظام کوچیلنج ضرورکرسکتے ہیں۔ان کی پالیسیوں کے طویل مدتی اثرات امریکاکی ساکھ اور عالمی قیادت کی حیثیت پربھی اثر اندازہوں گے۔ ان کایہ رویہ وقتی طورپرداخلی حمایت حاصل کرسکتا ہے لیکن طویل المدتی میں اس کااثرنقصان دہ ہوسکتا ہے۔ٹرمپ کے جارحانہ بیانات اورپالیسیوں سے یہ تاثر ملتاہے کہ وہ دنیاکواپنی مرضی کے مطابق چلانے کی خواہش رکھتے ہیں۔تاہم عالمی سیاست میں یکطرفہ فیصلے اکثرردعمل اورمخالفت کوجنم دیتے ہیں۔ چین،روس،ایران،اور دیگر طاقتیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اقدامات اٹھارہی ہیں۔ شمالی کوریاکاخطرہ،سی پیک کی مضبوطی اور مشرق وسطی میں چین اورروس کی شراکت داری امریکاکے لئے چیلنجز پیدا کرسکتی ہیں۔ٹرمپ کی موجودہ جارحانہ پالیسیوں پر کیا چین خاموشی اختیارکرتے ہوئے پسپائی اختیارکرے گایاایک مرتبہ پھرشمالی کوریاکا خطرہ سامنے آکر ٹرمپ کو پسپائی اختیارکرنے پرمجبورکردے گا۔کیاچین پاکستان میں جاری سی پیک کوامریکی خطرات کامقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کے ساتھ کوئی نیامعاہدہ کرے گااورایران، افغانستان کے علاوہ روس کی مددسے گردوپیش کی ریاستوں میں اپنااثرورسوخ مزیدبڑھادے گا۔اس کا جواب اگلے چندمہینوں میں اس وقت واضح ہوجائے گاجب ٹرمپ کے جاری کردہ بہت سے ایگزیکٹو آرڈر منہ چھپاتے پھریں گے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے ساتھ تعلقات امریکی معیشت ان پالیسیوں پالیسیوں کے کے اقدامات اپنی مرضی سیاست میں ہیں لیکن کے مطابق کرنے کے ٹرمپ کی ٹرمپ کے کے لئے

پڑھیں:

امریکی ٹینس اسٹار نے ورلڈ نمبر ون کھلاڑی کو شکست دیکر فرنچ اوپن جیت لیا

امریکا کی ٹینس اسٹار 21 سالہ کوکو گوف نے فرنچ اوپن 2025 کا خواتین سنگلز ٹائٹل جیت لیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی ٹینس اسٹار نے فائنل میں بیلاروس کی عالمی نمبر ایک کھلاڑی آریانا سبالینکا کو سخت مقابلے کے بعد شکست دی۔

یہ کوکو گوف کا دوسرا گرینڈ سلم ٹائٹل ہے اس سے قبل وہ 2023 کا یو ایس اوپن بھی جیت چکی ہیں۔

فائنل میچ تقریباً 2 گھنٹے اور 38 منٹ جاری رہا اور دونوں کھلاڑیوں کے درمیان شاندار کھیل دیکھنے کو ملا۔

پہلے سیٹ میں سبالینکا نے ٹائی بریک میں برتری حاصل کی، لیکن کوکو گوف نے شاندار کم بیک کرتے ہوئے اگلے دو سیٹس جیت کر پہلی بار رولان گیروس کا تاج اپنے نام کیا۔

یہ 30 برسوں میں صرف دوسرا موقع ہے کہ فرنچ اوپن ویمنز سنگلز کا فائنل عالمی نمبر ایک اور دو کھلاڑیوں کے درمیان کھیلا گیا۔

اس سے پہلے 2013 میں سرینا ولیمز نے ماریا شراپووا کو شکست دی تھی۔

کوکو گوف کی یہ کامیابی ان کے کیریئر کا ایک نیا باب ہے، اور وہ ایک بار پھر یہ ثابت کر چکی ہیں کہ وہ عالمی ٹینس کی سب سے بڑی اسٹارز میں شامل ہو چکی ہیں۔

عالمی نمبر ایک ٹینس کھلاڑی آریانا سبالینکا نے کہا کہ یہ شکست بہت تکلیف دہ ہے۔ کوکو آج مجھ سے بہتر کھیلی تھی، میں اسے مبارکباد دیتی ہوں۔

میچ کی فاتح کوکو گوف نے کہا کہ تین سال پہلے جب میں یہاں فائنل ہاری تھی۔ میں بہت مشکل وقت سے گزر رہی تھی۔ آج میں دوبارہ یہاں آکر فتح حاصل کرنے پر بہت خوش ہوں۔

انہوں نے 2022 میں اِگا شفیونٹیک سے شکست کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت ذہنی دباؤ کا شکار تھیں، لیکن آج وہ اپنے کیریئر کی سب سے اہم فتح حاصل کرچکی ہیں۔

 

 

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کیخلاف جاری مظاہرے پرتشدد ہوگئے، لاس اینجلس میں گاڑیوں کو آگ لگادی گئی
  • ٹرمپ کی متنازع امیگریشن پالیسیوں کیخلاف پرتشدد مظاہرے؛ گاڑیاں نذر آتش
  • لاس اینجلس فسادات: نیشنل گارڈز کی تعیناتی کے بعد مظاہروں کی شدت میں اضافہ
  • کیلیفورنیا، ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں کیخلاف احتجاج
  • ٹرمپ اور ایلون مسک کی دوستی ختم، امریکی صدر کی سخت نتائج کی دھمکی
  • طاقتور شخصیات کی جنگ، ٹرمپ کی مسک کو ڈیموکریٹس کی حمایت پر سنگین نتائج کی دھمکی
  • ایلون مسک کیساتھ تعلقات ختم ہوچکے، اب اس سے بات کرنیکا کوئی ارادہ نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکی ٹینس اسٹار نے ورلڈ نمبر ون کھلاڑی کو شکست دیکر فرنچ اوپن جیت لیا
  • ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
  • امریکی صدر اور ایلون مسک جھگڑا،’ٹرمپ کو مسک سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں’