ذکر امام حسین علیہ السلام اور عزاداری ہماری شہہ رگ حیات ہے، علامہ مقصود ڈومکی
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
سکھر میں ایم ڈبلیو ایم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رہنماؤں نے کہا کہ عزاداری ونگ ایم ڈبلیو ایم کا دست و بازو ہے۔ مجلس کے دستور اور اہداف کی روشنی میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ عزاداری ہماری پہچان ہے۔ مجلس کے دستور اور اہداف کی روشنی میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ عزاداری ونگ کی فعالیت سے عزاداروں کا قومی جماعت ایم ڈبلیو ایم سے رابطہ مستحکم ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی اور ملک اقرار حسین علوی نے سکھر میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ عزاداری سندھ کی صوبائی شوریٰ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ عزاداری ونگ کے صوبائی شوریٰ اجلاس کی صدارت مرکزی صدر ملک اقرار حسین علوی کر رہے تھے، جبکہ اجلاس میں ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی، مجلس علماء مکتب اہل بیت سندھ کے صدر علامہ عبداللہ مطہری، مرکزی کوآڈینیٹر آصف رضا، صوبائی رہنماء عزاداری ونگ سید غلام شبیر نقوی اور طارق بدوی نے خطاب کیا۔ اس موقع پر صوبائی کابینہ کے اراکین ضلعی و ڈویژن صدور اجلاس میں شریک ہوئے۔
عزاداری ونگ کے صوبائی شوریٰ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ملک اقرار حسین علوی نے کہا کہ عزاداری تشیع کی پہچان ہے اور عزاداری ونگ ایم ڈبلیو ایم کا دست و بازو ہے۔ مجلس کے دستور اور اہداف کی روشنی میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مدر سیٹ اپ اور ونگز کے درمیان کوارڈینیشن کے لئے صوبہ اور ضلع کی سطح پر کوآرڈینیشن کمیٹیز تشکیل دی گئی ہیں، تاکہ مکمل ہم آہنگی قائم رہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ آٹھ فروری 2024 کو پاکستان کے عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا اور ایک جعلی مینڈیٹ کی حامل حکومت عوام پر زبردستی مسلط کی گئی۔ جس کے سبب اس وقت ملک متعدد بحرانوں کا شکار ہے۔ ملک بھر میں سیاسی کارکن جیلوں میں سڑ رہے ہیں، اور ملکی آئین اور قانون کو پامال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذکر امام حسین علیہ السلام اور عزاداری ہماری شہہ رگ حیات ہے، اسی لئے عزاداری ونگ کی بڑی اہمیت ہے۔ عزاداری ونگ کی فعالیت سے عزاداروں کا قومی جماعت ایم ڈبلیو ایم سے رابطہ مستحکم ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم علامہ مقصود کہ عزاداری نے کہا کہ رہے ہیں
پڑھیں:
وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء
متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ مجلس علماء نے بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے وقف ترمیمی قانون پر عبوری حکم کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ بعض دفعات کو معطل کیا گیا ہے تاہم اس حوالے سے آئینی اور مذہبی خدشات جوں کے توں برقرار ہیں، جس نے ملت کو اضطراب اور بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے، مسلمانوں کے ان مقدس اوقاف پر ان کا حق انتظام و اختیار کمزور کرنا یا ان کی تاریخی حیثیت کو زائل کرنا ملت کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ آئین میں درج ان اصولوں کے منافی ہے جو ہر مذہبی گروہ کو اپنے دینی معاملات خود چلانے کا حق دیتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ عدالت نے کچھ عبوری راحت فراہم کی ہے جو ایک مثبت قدم ہے لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں اور بنیادی خدشات کو دور نہ کرتے، قانون کی متعدد دفعات بدستور شدید تشویش کا باعث ہیں، زیر استعمال وقف املاک کے طویل عرصے سے مسلمہ اصول کا خاتمہ صدیوں پرانی مساجد، زیارت گاہوں، قبرستانوں اور دیگر اداروں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے جو مسلسل عوامی استعمال کے سبب وقف تسلیم کیے جاتے رہے ہیں، چاہے ان کے پاس تحریری دستاویزات موجود نہ ہوں۔ وقف نامہ کی لازمی شرط تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتی ہے جہاں اکثر دستاویزات یا تو ضائع ہو چکی ہیں یا کبھی بنی ہی نہیں تھیں اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان جائیدادوں کی مسلمہ حیثیت چھین لی جائے گی۔اسی طرح سروے کے اختیارات کو آزاد کمشنروں سے منتقل کر کے ضلع کلکٹروں کو دینا غیرجانبداری کو متاثر کرتا ہے اور ریاستی مداخلت کو بڑھاتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ مجلس علماء سمجھتی ہے کہ یہ ترمیم دراصل اوقاف کو کمزور کرنے اور انہیں ہتھیانے کی دانستہ کوشش ہے جس کے نتیجے میں ناجائز قابضین کو قانونی جواز مل سکتا ہے اور اس سے حقیقی دینی و سماجی اداروں کو نقصان ہو گا۔ یہ اقدامات امتیازی ہیں کیونکہ کسی اور مذہبی برادری کے معاملات میں ایسی مداخلت نہیں کی جاتی۔مجلس علماء نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ جلد از جلد اس معاملے کی حتمی سماعت کرے اور مسلمانوں کے آئینی و مذہبی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے کیونکہ موجودہ صورت میں یہ قانون تشویشناک ہے اور پرانے وقف ایکٹ کو بحال کیا جانا چاہیے، حکومت کو چاہیے کہ وہ وقف کی حرمت کو پامال کرنے کے بجائے ان مقدس اوقاف کے تحفظ، بقا اور ترقی کے لئے عملی اقدامات کرے تاکہ یہ آنے والی نسلوں کے دینی و سماجی مفاد میں کام کرتے رہیں۔