لیبیا میں 2 اجتماعی قبروں سے 50 تارکین وطن کی لاشیں برآمد
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
کفرہ: لیبیا کے جنوب مشرقی صحرا میں دو اجتماعی قبروں سے تقریباً 50 لاشیں برآمد کی گئی ہیں۔
میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ حکام کے مطابق یہ لاشیں یورپ پہنچنے کے خواہش مند تارکین وطن افراد کی ہیں۔
غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق پہلی اجتماعی قبر ملک کے جنوب مشرقی شہر کفرہ کے ایک فارم سے جمعے کے روز دریافت ہوئی جس میں سے 19 لاشیں نکالی گئیں۔
مقامی سکیورٹی ڈائریکٹوریٹ کے مطابق ان لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا ہے، حکام کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کی گئی تصاویر میں پولیس اہلکاروں اور طبی عملے کو ریت میں دبی لاشیں نکالتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ تارکین وطن افراد کی مدد کرنے والے ایک مقامی فلاحی ادارے کے مطابق جن افراد کی لاشیں ملی ہیں ان میں سے بعض افراد کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا اور پھر اجتماعی قبر میں دفن کر دیا گیا۔
خبر ایجنسی کے مطابق دوسری اجتماعی قبر بھی کفرہ میں ایک انسانی اسمگلنگ کے اڈے پر چھاپے کے دوران دریافت ہوئی جس میں کم از کم 30 لاشیں موجود تھیں۔ ایک مقامی سکیورٹی اہلکار کے مطابق زندہ بچ جانے والے افراد نے بتایا کہ مجموعی طور پر 70 افراد کو اس قبر میں دفن کیا گیا تھا اور حکام مزید لاشوں کو تلاش کررہے ہیں۔
لیبیا میں گزشتہ سال بھی حکام نے شعیرف کے علاقے سے کم از کم 65 مہاجرین کی لاشیں دریافت کی تھیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے مطابق
پڑھیں:
پہلگام حملہ، کشیدگی بڑھ گئی، مقبوضہ کشمیر میں امن کے دعوؤں پر سوالیہ نشان
کراچی (نیوز ڈیسک) پہلگام حملے کے بعد پاک بھارت کشیدگی، مقبوضہ کشمیر میں امن کے دعوؤں پر سوالیہ نشان، عالمی میڈیا کے مطابق فوجی تصادم کا خطرہ ، مقبوضہ وادی کو مستحکم کرنے کے دعووں کے لئے دھچکا ہے، سکیورٹی خامیاں بے نقاب ، امن کے دعوؤں کی قلعی کھل گئی، بھارتی سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ حملہ غیرمتوقع نہیں تھا۔
اکانومسٹ کے مطابق پہلگام حملہ، جو 2019 کے بعد ہمالین خطے میں سب سے مہلک دہشت گرد کارروائی ہے، بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی تصادم کے خطرے کو بڑھا رہا ہے۔
دونوں ایٹمی طاقتیں ماضی میں کشمیر کے تنازع پر دو جنگیں اور ایک محدود تصادم لڑ چکی ہیں۔ اس حملے نے بھارتی حکومت کے مقبوضہ کشمیر میں استحکام کے دعوؤں کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔
ماہرین کے مطابق، حملہ آوروں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے سعودی عرب کے دورے اور وینس سمٹ کے موقع پر یہ کارروائی کرکے عالمی توجہ کشمیر کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی۔
سابق بھارتی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملہ مقبوضہ کشمیر کی سیاحتی صنعت کو نقصان پہنچانے اور اہم ہندو یاترا سے قبل خوف پھیلانے کے لیے کیا گیا۔
نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ اس حملے نے دنیا کے سب سے زیادہ فوجی چھاؤنی والے خطے میں سکیورٹی کی خامیوں کو بے نقاب کردیا، جس سے بھارت کے امن کے دعوؤں کی قلعی کھل گئی۔
2019 میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی نیم خودمختاری ختم کرنے کے بعد، مودی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کی سخت گیر پالیسیوں نے خطے میں امن اور ترقی کو فروغ دیا ہے۔ تاہم، گارجین کے مطابق، یہ حملہ مودی اور ان کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے ان دعوؤں کے لیے شدید دھچکا ہے۔
بھارتی سکیورٹی حکام نے نیوزویک کو بتایا کہ حملہ غیر متوقع نہیں تھا، لیکن اس کے پیمانے اور غیر مسلح شہریوں کو نشانہ بنانے نے حکام کو حیران کردیا۔
بھارتی پولیس نے حملے کی ذمہ داری مقامی عسکریت پسند گروپ ’دی ریزسٹنس فرنٹ‘ پر عائد کی، جس نے سوشل میڈیا پر کارروائی کی ذمہ داری قبول کی۔ تاہم، بھارتی فوجی اور انٹیلی جنس حکام نے پاکستان پر حملے کی منصوبہ بندی کا الزام لگاتے ہوئے فوری اور سخت ردعمل کا مطالبہ کیا ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق، بھارت کے جارحانہ بیانات نے پاکستان کے ساتھ تصادم کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔
نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان کشیدگی پہلے ہی عروج پر تھی، خاص طور پر پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے حالیہ بیان کے بعد، جنہوں نے کشمیر کو ’’پاکستان کی شہ رگ‘‘ قرار دیا تھا۔
Post Views: 5