سوجائو ورنہ ’’گبر‘‘ آجائے گا
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
میں: رات خواب میں دیکھا کہ قائداعظم کے مزار پر ایک ہجوم جمع ہے، ہر شخص قائد سے اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے لیے دیوانہ وار لپک رہا ہے اور ان کے پرجوش نعرے ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا معاملہ ہے، کیا ۱۴ اگست یا ۲۵ دسمبر کا دن ہے جو اتنے لوگ ایک ساتھ آگئے ہیں۔ بڑی مشکل سے جگہ بنا کر قبر کے احاطے کے قریب پہنچے تو دیکھا ان کی قبر سے لگ کر کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ’’قائد اب آپ سکون سے سوجائیں، کیوں کہ اب ہم بیدار ہوچکے ہیں‘‘۔ ہڑبڑا کر آنکھ کھلی تو دیکھا کہ ہم ہاتھ پائوں ہلا ہلا کر نعرے لگا رہے ہیں ’’ہوگئے ہم بیدار، ہوگئے ہم بیدار‘‘۔ غور کیا تو خود کو بستر سے نیچے گرا ہوا پایا اور بیگم بچے ہمارے گرِد پریشان کھڑے ہیں۔ چھوٹے بیٹے نے کہا پاپا ابھی تو ہر طرف گھپ اندھیرا ہے، فی الحال صبح ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ویسے بھی ساری قوم کسی ضروری کام سے سورہی ہے، لہٰذا آپ بھی سوجائیں اور ہمیں بھی سونے دیں۔ تب ہمارا سارا جوش ٹھنڈا پڑ گیا اور بیوی بچوںکی نیند خراب کرنے پر اُن سے معذرت کرکے دوبارہ سوگئے۔
وہ: شکرکرو کہ تمہاری اور قوم کی بیداری کا یہ عمل محض خواب ہی تک محدود رہا اور موقع پر موجود تمہارے گھر والوں نے تمہیں کسی مشکل صورت حال سے بچا لیا۔ ورنہ آج تک نیند سے بیدار ہوکر بستر سے اٹھنے کی کسی میں ہمت نہیں ہوئی، زیادہ تر تو نیند ہی کو اپنی عافیت سمجھتے ہوئے آرام سے ایسے سورہے ہیں کہ اب اسرافیل ہی اٹھائیں تو اٹھیں گے اور رہی بات حالت ِ نیند میں امت اور قوم کی بیداری کا خواب دیکھتے ہوئے بستر سے گرنے والی پرجوش اور بے چین روحوں کی تو ان کے لیے بس ایک جملہ ہی کافی ہوتا ہے، جیسے سو رہے تھے، سوتے رہو، ورنہ ’’گبر‘‘ آجائے گا۔
میں: مجھے ایک بات اکثر پریشان کرتی ہے کہ ہر ایسے موقع پر جب مظلوم اس دنیا میں کہیں بھی ذرا کروٹ لیتے ہیں یا اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں تو بیچ میں اچانک یہ گبر کیوں آجاتا ہے؟
وہ: اصل میں گبر ظلم کا استعارہ ہے، جدید ہتھیاروں سے لیس گبر کے دربارِ عالیہ میں ہر ایک سجدہ ریز اور سرنگوں ہے، اس کے سامنے سب خاموش ہیں، وہ ہرقانون سے بالاتر ہے بلکہ وہ تو قانون کے رکھوالوں پر بھی جب چاہے اپنی مرضی کی کوئی بھی قدغن لگا دیتا ہے اور کس کی مجال ہے جو اس سے کوئی باز پرس کرسکے۔
میں: میرے خیال سے تمہارا اشارہ امریکا کے صدر ٹرمپ کی طرف ہے؟
وہ: ہاں کہہ سکتے ہو لیکن یہ ٹرمپ بیچارہ تو بس ایک نام ہے، جو ایک مقررہ مدت کے لیے اعزازی فن کار کی حیثیت سے گبر کا کردار ادا کررہا ہے، ورنہ اصل میں تو یہ کردار امریکی ریاست دنیا میں ہر جگہ برسوں سے بخوبی نبھا رہی ہے۔
میں: لیکن غزہ کی تعمیر نو کے لیے ٹرمپ نے جو حالیہ بیان جاری کیا ہے کہ امریکا اپنی کسی فوجی قوت کے بغیر غزہ کے بے گھر اور مجبور لوگوں کے لیے اپنی جیب ِ خاص سے یہ کام کرے گا، جس کی وضاحت بعد ازاں امریکی انتظامیہ کے ترجمانوں نے بھی کی ہے کہ غزہ کے لوگوں کو عارضی طور پر بے دخل کیا جائے گا، یعنی تعمیر نو کے بعد وہ اپنے نئے اور پہلے سے بہتر گھروں میں واپس سکونت پذیر ہوجائیں گے۔ مجھے تو اس بیان میں گبر جیسی کوئی خصلت نظر نہیں آرہی؟
وہ: اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔۔۔ غزہ کے مظلوم ولاچار انسانوں سے اتنی ہمدردی، اتنی محبت۔ اس وقت کہاں تھا ہمدردی کا یہ ڈھونگ جب امریکا جدید ترین اسلحہ، گولہ بارود اور میزائل فوجی طیاروں اور بحری جہازوں کے ذریعے ا پنی ناجائز اولاد اسرائیل کو روزانہ کی بنیاد پر پہنچا رہا تھا۔ اس وقت کہاں تھی یہ محبت جب امریکا نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف ہر قراردادِ مذمت یہ کہہ کر ویٹو کردی کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے، اور اپنے اس دفاع میں اسرائیل نے کم وبیش بیس ہزار دودھ پیتے معصوم بچوں کو بھی موت کی نیند سلادیا جو اس پر بندوقیں تانے کھڑے تھے۔ سابق امریکی صدر کے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کسی منافق کی طرح بغل میں چھری دبائے منہ میں رام رام کی مالا جپتے ہوئے جنگ بندی کی نام نہاد کوششوں کے لیے اسرائیل، مصر اور قطر وغیرہ کے دورے ایسے کررہے تھے کہ جیسے دنیا میں ان سے زیادہ غزہ کا کوئی غمخوار نہیں ہے۔
میں: میں تم سے سو فی صد متفق ہوں کہ غزہ کے اس انسانی المیے کااصل ذمے دار امریکا ہے لیکن تمہارا اس بارے میں کیا خیال ہے کہ غزہ کی تعمیر نو کا یہ اعلان سعودی عرب یا قطر جیسے ملکوں کو کرنا چاہیے تھا؟ ساتھ ہی پاکستان، ایران، ترکی اور ہر مسلم ملک اپنی استطاعت کے مطابق غزہ کی تعمیر نو کو اپنی ذمے داری سمجھتے ہوئے اس میں شامل ہوجاتا اور کہتا کہ جو کام چالیس پچاس سال یا شاید اس سے بھی زیادہ عرصے میں مکمل ہوگا اسے ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے صرف پانچ سال کے اندر مکمل کرکے دکھائیں گے۔ ابھی چند سال قبل قطر میں اربوں ڈالر کے اخراجات سے فٹ بال ورلڈ کپ منعقد ہوا تھا اور ۲۰۳۴ء یعنی تقریباً دس سال بعد سعودی عرب میں کھیلوں کا ایسا ہی میلہ لگایا جائے گا، سعودی شیخ یہ دعویٰ کرتے نظر آرہے ہیں کہ ہم قطر سے دگنی رقم خرچ کرکے دکھائیں گے۔ اگر سعودی عرب آج اپنے ملک میں فٹ بال ورلڈکپ کے انعقاد سے دستبرداری کا اعلان کردے اور اگلے دس سال میں اس کھیل تماشے اور لہوو لعب پر خرچ کی جانے والی تمام رقم غزہ وفلسطین کے مکینوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کیے بغیر خطے کی ازسرِنو تعمیر اور آبادکاری کے لیے مختص کردے
تو گبر اور اس کے تمام ہالی موالی اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبا لیں گے۔ اور کہیں گے کہ انہیں نیند سے کس نے جگا دیا، یہ سب تو بڑے مزے سے سورہے تھے، کسی نے ان کے کانوں میں سورِ اسرافیل تو نہیں پھونک دی۔ ذرا دیکھو بھائی ان مسلمانوں کے آرام میں کس نے خلل ڈال دیا، کہیں ایسا تو نہیں کہ گبر کا خوف ان کے دلوں سے ختم ہوگیا ہے۔ نہیں ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ آئو ہم سب گبر کا حق ِ نمک ادا کریں اور بآوازِ بلند کہیں۔ سو جائو، ورنہ ’’ گبر‘‘ آجائے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ا جائے گا کے لیے ا رہے ہیں ہیں کہ غزہ کے
پڑھیں:
دونون ہاتھوں کے انگوٹھوں سے محروم چینی نوجوان کی صلاحیتوں کی دھوم
ہاتھوں کے انگوٹھوں کے بغیر پیدا ہونے والے 26 سالہ شخص نے بغیر انگوٹھوں کے اپنی ماہرانہ صلاحیتیں دکھا کر سوشل میڈیا پر ہنگامہ کھڑا کر دیا۔
چین کے 26 سالہ قیاو آلبرز وہ نوجوان ہیں جو پیدائش سے اپنے ہاتھوں کے دونوں انگوٹھوں کے بغیر ہیں مگر یہی کمی ان کی زندگی کی کمزوری نہیں بلکہ طاقت بن گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتے ہوئے ان کے چند ویڈیوز اور کلپس نے لاکھوں ناظرین کا دھیان کھینچا اور لوگوں کو حیران کر دیا کہ وہ روزمرہ کے پیچیدہ کام کس جدت اور صبر کے ساتھ انجام دے لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بصارت سے محروم افراد کیسے تعلیم حاصل کرتے ہیں؟
قیاو چین میں پیدا ہوئے اور 4 ماہ کی عمر میں اپنانے کے بعد نیدرلینڈز لے جایا گئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بچپن میں ان کی یہ صورتحال ان کے لیے عدم تحفظ کا باعث بنی مگر بعد ازاں یورپ بھر میں سفر نے ان کی خود اعتمادی بڑھائی اور انہوں نے اسے اپنی شناخت اور قوت میں بدل دیا۔ پیشے کے طور پر وہ انگریزی کے ٹیوٹر بھی ہیں اور ساتھ ہی سوشل میڈیا پر کنٹینٹ بنانا شروع کیا جس سے ان کی مقبولیت بڑھی۔
سوشل میڈیا پر وائرل کلپس اور منفرد ہنرسوشل میڈیا پر قیاو کے کچھ کلپس نے خاص شہرت پائی، جن میں سے ایک کلپ کو 67 لاکھ سے زائد افراد نے دیکھا۔ وہ بغیر پروستھیٹکس یا کسی خاص اوزار کے، اپنے ہاتھوں کی 8 انگلیوں کے ساتھ کئی مشکل کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے دکھائے گئے فنون میں شامل ہیں، ایک گلدان کو ہاتھ میں گھما کر قابو میں رکھنا، صرف درمیانی انگلیوں سے بوتل کھولنا اور پھر اسی ہاتھ سے بوتل پی کر رکھ لینا، اور پرس کی طرح کی چیزوں میں پورا ہاتھ داخل کر کے انہیں نکالنے کے منفرد انداز دکھانا۔
View this post on Instagram
A post shared by Qiaodi Aalbers (@aalbersqiaodi)
اس کے علاوہ وہ اس طرح کی حرکتیں بھی کرتے ہیں جو عام آدھموں کے لیے ناممکن سمجھی جاتی ہیں، مثلاً ہاتھ کو پورے طور پر پرنگلز کین میں داخل کرنا، جو دیکھنے والوں کو حیران کر دیتا ہے۔
حسِ مزاح اور خود اعتمادیقیاو اپنے اندازِ گفتگو میں خوش مزاج ہیں اور اکثر اپنے حالات کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کرتے ہیں۔ وہ اس طرح کے لطیفے اور تبصرے کرتے ہیں جن سے ناظرین مسکراتے اور تعریف کرتے ہیں، جیسے خود کے منفرد انداز کو پسند کرنا اور معاشرتی ردعمل کو ہلکے انداز میں سنبھالنا۔
یہ بھی پڑھیں: ہاتھوں سے محروم بلوچستان کے ادیب جنہوں نے پاؤں سے 19 کتابیں لکھیں
وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو ان پر ہمدردی کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اپنی زندگی بخوبی گزار رہے ہیں اور اپنی کمزوری کو طاقت میں بدل چکے ہیں۔
View this post on Instagram
A post shared by Qiaodi Aalbers (@aalbersqiaodi)
قیاو کی ذاتی زندگی میں ان کی گرل فرینڈ بھی اکثر ویڈیوز میں ان کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ ایک کلپ میں انہوں نے اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ مزاحیہ انداز میں کہا کہ لوگوں کو ان پر ترس کھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ ہتھکڑیوں سے بھی نکل سکتے ہیں اور ساتھ ہی مذاق میں یہ بھی کہا کہ انہیں مینیکیور پر 20 فیصد رعایت مل جاتی ہے۔ ان کے یہ جملے ناظرین کے لیے مزید دل چسپی اور مسکراہٹ کا باعث بنے۔
ناظرین کا ردعمل اور مباحثہان کے کلپس پر تبصرے حمایت اور تعجب کے امتزاج سے بھرے ہوتے ہیں؛ کسی نے ان کی پرنگلز کین میں مہارت پر حسد کا اظہار کیا تو کسی نے ان کی باہمی ہم آہنگی اور نرمی کی تعریف کی۔
View this post on Instagram
A post shared by Qiaodi Aalbers (@aalbersqiaodi)
بعض ناظرین نے عملی سوالات بھی کیے، جیسے کہ گٹار کس طرح بجاتے ہیں، جس کا جواب یہ رہا کہ وہ عام طور پر گٹار نہیں بجاتے۔ مجموعی طور پر آن لائن کمیونٹی نے ان کے حوصلے اور خود اعتمادی کی ستائش کی ہے۔
مشکلات اور حقیقتیںتاہم ان کے لیے زندگی ہمیشہ آسان نہیں رہی۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ معمولی کاموں میں واقعی مشکلات پیش آتی ہیں، مثال کے طور پر تحفے کے رِبن کو کھولنا ایک محنت طلب عمل دکھایا گیا۔ نئے لوگوں سے ملتے وقت بعض اوقات اضطراب محسوس ہوتا ہے کیونکہ انہیں نہیں معلوم کہ لوگ ان کے بارے میں کیسے ردعمل دیں گے۔ مگر انہی تجربات نے ان میں صبر اور ایڈجسٹمنٹ کی صلاحیت پیدا کی ہے۔
View this post on Instagram
A post shared by Qiaodi Aalbers (@aalbersqiaodi)
قیاو آلبرز کی کہانی ایک ایسا پیغام دیتی ہے جو معاشرے کے بہت سے تصورات کو چیلنج کرتی ہے، جسمانی کمی کو کمزوری نہیں سمجھا جانا چاہئے بلکہ انسان کی جدت، محنت اور خود اعتمادی اسے طاقت میں بدل دیتی ہے۔
سوشل میڈیا نے نہ صرف ان کے ہنر کو نمائش دی بلکہ ایک بڑا سماجی ڈائیلاگ بھی جنم دیا کہ معذوری کی تعریف اور سماجی شمولیت کو کیسے بہتر کیا جائے۔ قیاو خود واضح کر چکے ہیں کہ اگر انہیں اچانک تمام انگلیاں مل بھی جائیں تو وہ اپنی موجودہ صورت حال کو برقرار رکھیں گے کیونکہ انہوں نے 26 سال اسی زندگی کو اپنایا ہے اور اس میں اپنی پہچان قائم کی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
Qiao Aalbers we news انگوٹھے چینی نوجوان قیاو آلبرز ہاتھ