کراچی کا فنڈ کہاں لگ رہا ہے
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
کراچی کے ساحل پر کئی بستیاں آباد ہیں ان ہی میں سے ایک ریڑھی گوٹھ ہے۔ یہ پاکستان کی قدیم بستیوں میں سے ایک ہے لیکن کراچی کے پسماندہ علاقوں میں سے ہے حالانکہ یہ کراچی صرف 35 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ کراچی سے اس قدر قریب ہونے کے باوجود یہ انتہائی پسماندہ ہے۔ اتنی کے یہاں کے باسی پہلے ہی سے پتھر کے زمانے میں رہتے محسوس ہوتے ہیں۔ مٹی کے کابک نما گھروں میں رہنے والے ساحل کی کالی مٹی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ آج سے کوئی 50 سال پہلے یہاں کی مٹی سفید ہوا کرتی تھی اور پانی اتنا صاف کہ ہم اس سے اپنے بال اور جسم صاف کیا کرتے تھے لیکن اب یہ کالی مٹی ہاتھ پیر پر لگ جائے تو ان کی کالک صاف ہوتے کئی دن لگ جاتے ہیں۔
گزشتہ کئی عشروں سے پورے کراچی کا سیوریج کا پانی سمندر میں بہایا جاتا ہے پھر فیکٹریوں کا کیمیکل ملا پانی بھی اس میں ڈالا جاتا ہے جس کے باعث یہاں مچھلیوں کی نادر اقسام ناپید ہوگئی ہیں۔ جو مچھلیاں ملتی ہیں وہ بھی پکانے میں ذائقہ دار نہیں ہوتیں۔ مچھیرے سمندر میں میلوں دور جا کر مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اندازے کی غلطی سے خود بھارتی پولیس کا شکار بن جاتے ہیں جو انہیں گرفتار کرکے طویل عرصے کے لیے جیلوں میں ڈال دیتے ہیں۔ یہاں کی تنگ و تاریک اور غلیظ گلی کوچے منشیات فروشوں کی آماجگاہ ہیں جہاں وہ بچوں اور نوجوانوں کو منشیات کا عادی بنا رہے ہیں۔ غربت اور تعلیم کی کمی انہیں باآسانی اس کا عادی بنا دیتی ہے، یہاں نہ کوئی پارک ہے اور نہ بچوں کے لیے کھیل کود کے لیے کوئی سہولت ہے۔ یہی پسماندہ ریڑھی گوٹھ ہے جہاں پچھلے دنوں اربوں روپے کی مالیت کا پانی کی چوری کا نیٹ ورک پکڑا گیا۔ طاقتور مافیا نے آر او پلانٹ کی آڑ میں پانی چوری کا نیٹ ورک قائم کیا ہوا تھا۔ ظاہر ہے بااثر لوگوں کی مدد کے بغیر اس کا قیام کسی طرح ممکن نہ تھا۔
کراچی کے شہری پانی کی کمی کا شکار ہیں۔ ایک عرصے سے یہ کاروبار کیا جارہا ہے شہر کو مہیا کیا جانے والا آدھے سے زیادہ پانی چوری کیا جاتا ہے یہ مرکزی پائپ لائنوں سے چوری کیا جاتا ہے جو ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ شہریوں کے حصے کا پانی چوری کرکے انہی کو مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی زیر زمین پانی سے بھی آر او پلانٹ لگا کر منافع بخش کاروبار کیا جارہا ہے۔
کراچی کے شہریوں کا حال بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے۔ کرپشن کے ذریعے حکومتی سطح پر اس کے وسائل کو لوٹا جارہا ہے، تعلیمی نسل کشی کی جارہی ہے۔ جعلی اور متنازع مردم شماری کے ذریعے حق مارا جارہا ہے۔ بجلی کے زائد بلوں کے ذریعے شہریوںکو تکلیف میں مبتلا کرکے لوٹا جارہا ہے، غلط نتائج اور کوٹا سسٹم کے ذریعے کراچی کے ذہین نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک کیا جارہا ہے۔
ٹرانسپورٹ، کچرے، خستہ حال سڑکیں کراچی کو بدصورت بنارہی ہیں، دوسرے شہروں سے آنے والوں کو کہیں بھی جھونپڑے بنا کر رہنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ سپر ہائی وے سے کراچی میں داخلے کے ساتھ ہی میلوں غیر قانونی کچی بستیاں بنوادی گئی ہیں جو کراچی کے چہرے کو اور بدصورت بنارہی ہیں، قبضہ گروپ جس قدر کراچی میں سرگرم ہیں پورے ملک میں کہیں نہیں ہوں گے۔ کراچی پر قابض میئر پیپلز پارٹی کے ہیں جو 16 سال سے سندھ پر حکومت کررہی ہے، انہیں کراچی کے مسائل کا نہ احساس ہے اور نہ ہی انہیں حل کرنا چاہتے ہیں۔ کراچی کے وہ ٹائونز جہاں جماعت اسلامی کے کونسلر ہیں۔ انہیں ترقیاتی فنڈ کی ادائیگی نہیں کی جارہی۔ دراصل وہ ان ٹائونز میں ترقیاتی کام دیکھ کر بوکھلا گئے اور اس کا حل انہوں نے فنڈ بند کرکے نکالا ہے۔ سوچیں کراچی کی قدیم ترین بستی ریڑھی گوٹھ کے مکین پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہیں جبکہ کراچی کا پانی چوری کرنے والے پانی بیچ بیچ کر ارب پتی بن گئے ہیں۔ سندھ حکومت کراچی پر اربوں کے فنڈ لگانے کا فخریہ اعلان کرتی ہے لیکن وہ کہاں لگائے گئے ہیں اس بارے میں کچھ نہیں بتاتی۔ اور نہ ہی نظر آتا۔ دوسری طرف جماعت اسلامی کے منتخب ٹائونز میں روز کسی ترقیاتی کاموں کا افتتاح ہورہا ہوتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پانی چوری کراچی کے جارہا ہے کے ذریعے کا پانی جاتا ہے
پڑھیں:
ایک قوم بن کر بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہے،شاہدخاقان عباسی
کراچی: سابق وزیراعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان میں اصلاحات اور نئے صوبوں کی ضرورت ہے لیکن اس معاملے پر بات چیت نہیں ہوسکتی۔
سابق وزیراعظم اور عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی کراچی پریس کلب میں میٹ دی پریس سے خطاب کے دوران کہا کہ ہر مشکل دور میں کراچی پریس کلب ہی وہ جگہ ہے جہاں اپوزیشن کو اپنا مؤقف بیان کرنے کا موقع دیا جاتا ہے، امید ہے کراچی پریس کلب اپنی ان منفرد روایات کو جاری رکھے گا۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہیں، بھارت نے جو اس وقت اقدامات کیے ہیں اور پانی کی معطلی کا جو فیصلہ ہے اس کو کسی کی اجازت نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایک قوم بن کر بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنا ہے، اس ملک کی سیاسی جماعتیں اور نظام جب تک آئین کے تحت نہیں چلے گا اس وقت بہتری نہیں آئے گی۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ حکومت اگر کینال بنانا چاہتی ہے تو اس مسئلے کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اٹھانا چاہیے تھا، سندھ آج سراپا احتجاج ہے ایک ایسا صوبہ جہاں کراچی واقع ہے یہاں سڑکوں پر احتجاج جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس احتجاج کا اثر ملک پر پڑے گا، ابھی تک اس کینال پر کوئی حکومتی رکن قومی اسمبلی پر بات نہیں کرسکا۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آئین میں ہر طرح کی ترامیم کی جاتی ہیں، ان کے اثرات کئی نسلوں تک ہوتے ہیں، جمہوری ممالک میں قانون میڈیا کی آزادی کے لیے بنتے ہیں، آج وہ وقت نہیں جو قانون کا سہارا لے کر میڈیا پر پابندی لگائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کا نوجوان کیوں ہتھیار اٹھاتا ہے، قانون کی بالادستی کے ذریعے پریشانیوں کو ختم کرسکتے ہیں، سیاست میں انتشار ہے، پاکستان میں نئے صوبوں اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی 70 فیصد آبادی کو پانی میسر نہیں، دنیا کا کوئی ملک دکھائیں جہاں پانی ٹینکر سے جاتا ہو، اشرافیہ عوام کی بنیادی سہولت پر قابض ہے، حکومت کی اتنی بھی رٹ نہیں کہ پانی پہنچا سکے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ٹینکروں سے پانی کی ترسیل کا مقصد ہے کہ مطلوبہ مقدار میں پانی دستیاب ہے لیکن کراچی کے باسیوں کو پانی کی سہولت سے محروم رکھا جا رہا ہے، میرا گھر پہاڑ پر ہے وہاں بھی پانی لائنوں سے ملتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی پاکستان کی شہ رگ ہے، یہ نہیں چلےگا تو پاکستان نہیں چلےگا جو حالات کراچی کے ہوں گے وہی حالات پورے پاکستان کے ہوں گے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ یہ ممکن نہیں کراچی کو پیچھے رکھ کر پاکستان ترقی کرے، کراچی ترقی کرے گا تو پاکستان ترقی کرے گا، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سندھ میں حکومت ہے، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی خیبر پختونخواہ میں حکومت ہے اور وفاق میں سب اتحادی ہیں لیکن مسائل حل نہیں ہو رہے ہیں، نوجوان ملک چھوڑنے کی باتیں کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تمام جماعتوں کے پاس حکومت ہے، ہم روایتی سیاست کا حصہ رہے ہیں، اس ملک کی سیاسی جماعتیں اور نظام جب تک آئین کے تحت نہیں چلے گا اس وقت تک بہتری نہیں آئے گی۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ آج ہمیں دیکھنا ہوگا کہ بلوچستان میں لوگ ہتھیار کیوں اٹھا رہے ہیں، اس مسئلے کا حل بات کرکے ہی ملے گا ان کے تحفظات سنیں جائیں، بلوچستان کے نمائندگان وہ ہوں جو عوام کا ووٹ لے کر آئیں۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو آج بے پناہ اصلاحات کی ضرورت ہے، آج ایسی صورت حال ہے کہ اصلاحات پر بات بھی نہیں کی جاتی، آج نئے صوبوں کی ضرورت ہے لیکن اس معاملے پر بات چیت نہیں ہوسکتی۔
انہوں نے کہا کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کی حمایت نہ مخالفت کی سیاست کرتے ہیں ہم آئین و قانون کے تحت سیاست کرتے ہیں، ہماری پارٹی کام کر رہی ہے آہستہ آہستہ لوگ ہمارے ساتھ جڑ جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس ملک میں سیاسی انتشار ہو، قانون کی حکمرانی نہ ہو وہاں نہ سرمایہ آئے گا اور نہ معیشت بہتر ہوگی، ملک میں دو کروڑ 70 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہونا سب سے اہم مسئلہ ہے، ان اہم معاملات پر توجہ دے کر فوری حل کرنے کی ضرورت ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ آبادی بڑھنے کے باوجود پاکستان میں خط غربت بڑھ کر 42.4 فیصد پر آگئی ہے۔