Jasarat News:
2025-09-18@15:36:50 GMT

کراچی کا فنڈ کہاں لگ رہا ہے

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

کراچی کا فنڈ کہاں لگ رہا ہے

کراچی کے ساحل پر کئی بستیاں آباد ہیں ان ہی میں سے ایک ریڑھی گوٹھ ہے۔ یہ پاکستان کی قدیم بستیوں میں سے ایک ہے لیکن کراچی کے پسماندہ علاقوں میں سے ہے حالانکہ یہ کراچی صرف 35 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ کراچی سے اس قدر قریب ہونے کے باوجود یہ انتہائی پسماندہ ہے۔ اتنی کے یہاں کے باسی پہلے ہی سے پتھر کے زمانے میں رہتے محسوس ہوتے ہیں۔ مٹی کے کابک نما گھروں میں رہنے والے ساحل کی کالی مٹی کے بارے میں بتاتے ہیں کہ آج سے کوئی 50 سال پہلے یہاں کی مٹی سفید ہوا کرتی تھی اور پانی اتنا صاف کہ ہم اس سے اپنے بال اور جسم صاف کیا کرتے تھے لیکن اب یہ کالی مٹی ہاتھ پیر پر لگ جائے تو ان کی کالک صاف ہوتے کئی دن لگ جاتے ہیں۔

گزشتہ کئی عشروں سے پورے کراچی کا سیوریج کا پانی سمندر میں بہایا جاتا ہے پھر فیکٹریوں کا کیمیکل ملا پانی بھی اس میں ڈالا جاتا ہے جس کے باعث یہاں مچھلیوں کی نادر اقسام ناپید ہوگئی ہیں۔ جو مچھلیاں ملتی ہیں وہ بھی پکانے میں ذائقہ دار نہیں ہوتیں۔ مچھیرے سمندر میں میلوں دور جا کر مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اندازے کی غلطی سے خود بھارتی پولیس کا شکار بن جاتے ہیں جو انہیں گرفتار کرکے طویل عرصے کے لیے جیلوں میں ڈال دیتے ہیں۔ یہاں کی تنگ و تاریک اور غلیظ گلی کوچے منشیات فروشوں کی آماجگاہ ہیں جہاں وہ بچوں اور نوجوانوں کو منشیات کا عادی بنا رہے ہیں۔ غربت اور تعلیم کی کمی انہیں باآسانی اس کا عادی بنا دیتی ہے، یہاں نہ کوئی پارک ہے اور نہ بچوں کے لیے کھیل کود کے لیے کوئی سہولت ہے۔ یہی پسماندہ ریڑھی گوٹھ ہے جہاں پچھلے دنوں اربوں روپے کی مالیت کا پانی کی چوری کا نیٹ ورک پکڑا گیا۔ طاقتور مافیا نے آر او پلانٹ کی آڑ میں پانی چوری کا نیٹ ورک قائم کیا ہوا تھا۔ ظاہر ہے بااثر لوگوں کی مدد کے بغیر اس کا قیام کسی طرح ممکن نہ تھا۔

کراچی کے شہری پانی کی کمی کا شکار ہیں۔ ایک عرصے سے یہ کاروبار کیا جارہا ہے شہر کو مہیا کیا جانے والا آدھے سے زیادہ پانی چوری کیا جاتا ہے یہ مرکزی پائپ لائنوں سے چوری کیا جاتا ہے جو ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ شہریوں کے حصے کا پانی چوری کرکے انہی کو مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی زیر زمین پانی سے بھی آر او پلانٹ لگا کر منافع بخش کاروبار کیا جارہا ہے۔

کراچی کے شہریوں کا حال بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے۔ کرپشن کے ذریعے حکومتی سطح پر اس کے وسائل کو لوٹا جارہا ہے، تعلیمی نسل کشی کی جارہی ہے۔ جعلی اور متنازع مردم شماری کے ذریعے حق مارا جارہا ہے۔ بجلی کے زائد بلوں کے ذریعے شہریوںکو تکلیف میں مبتلا کرکے لوٹا جارہا ہے، غلط نتائج اور کوٹا سسٹم کے ذریعے کراچی کے ذہین نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک کیا جارہا ہے۔

ٹرانسپورٹ، کچرے، خستہ حال سڑکیں کراچی کو بدصورت بنارہی ہیں، دوسرے شہروں سے آنے والوں کو کہیں بھی جھونپڑے بنا کر رہنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ سپر ہائی وے سے کراچی میں داخلے کے ساتھ ہی میلوں غیر قانونی کچی بستیاں بنوادی گئی ہیں جو کراچی کے چہرے کو اور بدصورت بنارہی ہیں، قبضہ گروپ جس قدر کراچی میں سرگرم ہیں پورے ملک میں کہیں نہیں ہوں گے۔ کراچی پر قابض میئر پیپلز پارٹی کے ہیں جو 16 سال سے سندھ پر حکومت کررہی ہے، انہیں کراچی کے مسائل کا نہ احساس ہے اور نہ ہی انہیں حل کرنا چاہتے ہیں۔ کراچی کے وہ ٹائونز جہاں جماعت اسلامی کے کونسلر ہیں۔ انہیں ترقیاتی فنڈ کی ادائیگی نہیں کی جارہی۔ دراصل وہ ان ٹائونز میں ترقیاتی کام دیکھ کر بوکھلا گئے اور اس کا حل انہوں نے فنڈ بند کرکے نکالا ہے۔ سوچیں کراچی کی قدیم ترین بستی ریڑھی گوٹھ کے مکین پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہیں جبکہ کراچی کا پانی چوری کرنے والے پانی بیچ بیچ کر ارب پتی بن گئے ہیں۔ سندھ حکومت کراچی پر اربوں کے فنڈ لگانے کا فخریہ اعلان کرتی ہے لیکن وہ کہاں لگائے گئے ہیں اس بارے میں کچھ نہیں بتاتی۔ اور نہ ہی نظر آتا۔ دوسری طرف جماعت اسلامی کے منتخب ٹائونز میں روز کسی ترقیاتی کاموں کا افتتاح ہورہا ہوتا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پانی چوری کراچی کے جارہا ہے کے ذریعے کا پانی جاتا ہے

پڑھیں:

3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لاہور:3 برس میں تقریباً 30 لاکھ پاکستانی ملک کو خیرباد کہہ گئے، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری نے ملک کے نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔ بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاو ¿نٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔

پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاو ¿نٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔ باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔

بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔ خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • ایشیا ء کپ: سپر فور مرحلے میں پاکستان کا بھارت سے مقابلہ کب اور کہاں ہوگا؟
  • بارش اور کرپٹ سسٹم
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • کراچی؛ اسٹیل مل سے لوہا، تانبا و قیمتی سامان چوری کرنے والا ملزم گرفتار
  • کراچی، ریڈ لائن منصوبے میں غیر معمولی تاخیر، شہری اذیت کا شکار
  • شوبز انڈسٹری بدل گئی ہے، اب ڈرامے بنا کر خود کو لانچ کیا جارہا ہے، غزالہ جاوید کا انکشاف
  • حب کینال کی تباہی کے بعد کراچی پانی کے شدید بحران کا شکار ہے، حلیم عادل شیخ
  • کراچی، حب پمپنگ اسٹیشن پر بجلی کا بریک ڈاؤن کے سبب پانی کی فراہمی معطل
  • کراچی: حب پمپنگ اسٹیشن پر بجلی کا بریک ڈاؤن، ضلع غربی کو پانی کی فراہمی معطل
  • کراچی؛ پانی کی لائن ٹوٹنے سے یونیورسٹی روڈ دریا کا منظر پیش کرنے لگی