دونوں ہی بھاری پتھر، میرا کوئی نہیں
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
امریکہ میں ہونے والے گزشتہ پانچ امریکی انتخابات میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے ووٹرز کا پسندیدہ امیدوار کوئی اور جبکہ عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان ووٹرز کا امیدوار کوئی اور ہوا کرتا تھا لیکن ٹرمپ کے مقابل کملا دیوی میدان میں آئی تو صورتحال بدل گئی۔ اس میں اہم کردار جنگ فلسطین کا بھی تھا جہاں اسرائیلی فوج نے بے تحاشا ظلم و ستم کیا۔ امریکہ اور یورپ نہایت خاموشی سے مسلمانوں کی بے بسی کا تماشا دیکھتے رہے جبکہ متعدد ممالک نے اس جارحیت میں اسرائیل کی دل کھول کر مدد کی۔ مسلمان ووٹرز اس نکتے پر اکٹھے ہوئے کہ وہ اس جارحیت کی پشت پناہی کرنے والی جماعت کے امیدوار کو کسی قیمت پر ووٹ نہیں دیں گے جبکہ بائیڈن حکومت پر الزام لگا کہ ان کے ایما پر پاکستان میں حکومت کو تبدیل کیا گیا۔ اس الزام میں کوئی حقیقت ہو یا نہ ہو اس سے جڑی حقیقت یہی ہے کہ یہ ایک اور نکتہ تھا جس پر پاکستانی مسلمان ووٹرز غور کرنے پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ ٹیم نے اپنی الیکشن مہم نہایت کامیابی سے چلائی۔ متمول کاروباری افراد ان کے ساتھ تھے، ایجنڈا دلکش تھا کہ کامیاب ہوئے تو عہدہ سنبھالنے کے روز اول ہی جنگ بندی کرائیں گے صرف یوکرین میں نہیں بلکہ فلسطین میں بھی اور اس کے ساتھ ساتھ غیر ضروری جنگوں کا خاتمہ بھی کیا جائے گا۔ یہ بات ادھوری تھی اور جان بوجھ کر کی گئی تھی یعنی گنجائش رکھی گئی کہ ہم جس جنگ کو ضروری سمجھیں گے، وہ شروع کر سکتے ہیں جبکہ جن جنگوں کو غیر ضروری سمجھیں گے صرف وہ بند کریں گے۔ یاد رہے ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطین میں صرف جنگ بند کرانے کی بات کی تھی۔ اس ایک نکتے پر وہ مسلمان ووٹرز کے ووٹ اینٹھنے میں کامیاب رہا۔ اس نے کہیں یہ نہیں کہا کہ فلسطینیوں کو ان کا حق دیا جائے گا یا فلسطین کو آزاد ریاست کا درجہ دیا جائیگا، جو ہونا تھا وہ ہو چکا اب سیاسی کھیل کا دوسرا رائونڈ شروع ہو چکا ہے لیکن اسے سمجھنے سے قبل ایک اور نکتے کو نظرانداز کرنا درست نہ ہو گا کہ اگر ٹرمپ آزادی فلسطین یا اسے تسلیم کرنے کی بات اپنے منتخب ہونے سے قبل بھولے سے کر دیتا تو بری طرح الیکشن ہار چکا ہوتا۔ یہودی لابی اسے کسی صورت نہ جیتنے دیتی بلکہ کچھ عجب نہ تھا اسے صدر جان ایف کینیڈی کے انجام سے ہمکنار کر دیا جاتا۔ اس حوالے سے ڈیپ سٹیٹ کی طرف سے ایک کوشش کا تذکرہ ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا۔ ایک مزید کوشش بھی ہو سکتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے عہدے کا چارج لینے کے چند ہفتوں بعد جو پینترا بدلا ہے کوئی اس کی توقع نہ کر رہا تھا اس کا غزہ کو خالی کرنے کا بیان اس کی اپنی سوچ ہے یا وہ ڈیپ سٹیٹ اور یہودی لابی کے سامنے سرنڈر کر چکا ہے۔ نیا سوال یہ ہے اور مزید چند روز میں اس حوالے سے تمام ابہام ختم ہو جائیں گے۔
ٹرمپ نے فلسطینیوں کو غزہ سے باہر نکل جانے کا حکم دیا ہے جس کا تمام اسلامی ملکوں میں ردعمل دیکھنے میں آیا ہے لیکن بس اس قسم کا ردعمل ہے جو آزادی فلسطین کے حوالے سے ہم گزشتہ ستر برس سے دیکھ رہے ہیں۔ فرمان ٹرمپ ملاحظہ فرمائیے فلسطینیوں کو غزہ خالی کر دینا چاہئے کیونکہ اسرائیل کا رقبہ بہت کم ہے اتنے کم رقبے پر کوئی ملک کیسے قائم رہ سکتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے قریبی مسلمان ملکوں پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا ہے کہ غزہ سے نکلنے والے تمام فلسطینیوں کو یہ تمام ممالک اپنے اپنے یہاں قبول کریں۔ ان ممالک کو فلسطینیوں کی آبادکاری کیلئے امدادی فنڈز کا لالچ بھی دیا جائے گا جو منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے کے سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ گویا ایک نیا اصول بنایا جا رہا ہے کہ آبائی سرزمین کا جارح کی مرضی کے مطابق عوضانہ دے کر اس سے اس کا گھر خالی کرایا جا سکتا ہے۔ کہیں لکھ کر رکھ لیں، دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تمام تنظیمیں اور اقوام متحدہ یہ سب کچھ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھیں گی اور خاموش رہیں گی، دونوں کا طریق رہا ہے کہ جارح کا ہاتھ پکڑنے کی بجائے انہوں نے ہمیشہ اپنا دفاع کرنے والے کا ہاتھ باندھا اور جارح کو کھلی چھٹی دی کہ وہ جس قدر جارحیت کر سکتا ہے کرلے۔
غزہ کو خالی کرنے کے ٹرمپ کے اعلان سے ایک اور بات واضح ہوتی ہے کہ ٹرمپ کے بارے میں جو نئی کہانی تراشی جا رہی تھی اور نصف مسلمان دنیا اس پر سردھن رہی تھی وہ درست نہیں، وہ کہانی یہ تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک غیر روایتی سیاست دان ہیں، وہ کچھ نیا اور کچھ بہت اچھا کر دکھائیں گے بلکہ کوئی ایسا کارنامہ انجام دیں گے جو آج سے قبل کسی اور امریکی صدر کا مقدر نہیں بنا، ٹرمپ ایسا کچھ نہیں کرنے والے، امریکی پالیسیاں ایک شخص کے تبدیل ہونے سے یوٹرن نہیں لیتیں اور بالخصوص مسلمان ممالک ان کے بسنے والوں اور ان کے متنازع علاقوں کے بارے میں جو پالیسی بن چکی ہے اس سے کوئی آنے والا امریکی صدر یا حکومت سرمو انحراف نہیں کرے گی۔ وہ پالیسی یہ ہے کہ مسلمانوں کی طاقت کو ایک حد سے زیادہ آگے نہ بڑھنے دو، بڑھ رہی ہو تو اس پر بے دریغ ضرب لگائو، اس کیلئے بہانہ جو مرضی بنائو، وہ بہانہ کیمیائی ہتھیاروں کا ہو یا دہشت گردی کا بس بہانہ بنائو اور انہیں کچل دو، اس واردات میں اقوام متحدہ اور یورپ اس کے ہمنوا ہیں۔ مراد ان حکومتوں سے ہے، عوام تو ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، احتجاج کیلئے سڑکوں اور بازاروں کو بھر دیتے ہیں لیکن پرامن احتجاج ہوتے ہیں، ختم ہو جاتے ہیں، پرامن احتجاج سوڈان کو تقسیم ہونے سے نہیں بچا سکے۔ وہ الجزائر کی آزادی میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکے۔ وہ فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں دلا سکے، وہ کشمیر آزاد نہیں کرا سکے۔ ان احتجاجوں سے دنیا کی نظر میں یہ معاملات تازہ ضرور ہوئے ہیں لیکن جہاں مقابلہ بدنیتوں اور ظالموں سے ہو وہاں پرامن احتجاج ایک حد تک ہی اپنا اثر رکھتے ہیں۔ اس عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے کہ اگر حق داروں سے ان کا حق مکمل طور پر چھیننا ممکن نہ ہو تو اسے تقسیم کر دیا جائے، جس طرح دو بلیوں کی لڑائی میں بندر ان کی ایک روٹی تقسیم کرتا ہے، جب بھی کہیں تقسیم ہو گی وہ زمین جو وسائل سے مالامال ہوگی وہ غیر مسلموں کو دی جائے گی جبکہ خزانوں سے خالی کمزور خطہ اراضی مسلمانوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔
دنیا کو اب سمجھ میں آیا ہو گا کہ ٹرمپ نے یو ایس ایڈ کے تحت چلنے والے ان منصوبوں کی امداد کیوں بند کی جو دنیا کے 80 ملکوں میں چل رہے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ ان میں سے اگر نصف بھی ڈھنگ سے اور ایمانداری سے کام کر رہے ہیں تو وہ فلسطینیوں کی مدد کیلئے اپنے وسائل کے منہ نہ کھول دیں اور مسلمانوں کا بھلا نہ ہو جائے۔
ٹرمپ کو ووٹ دینے والے مسلمان آج ٹھیک اپنے فیصلے کے چند ماہ بعد سر پکڑے بیٹھے ہیںاور سوچ رہے ہیں کہ ان سے فیصلے میں کوئی غلطی تو نہیں ہو گئی، اس حوالے سے ایک جواب یہ ہے کہ کملا دیوی ہوتی یا ٹرمپ، مسلمانوں کیلئے دونوں ہی بھاری پتھر ثابت ہونا تھے، دونوں میں میرا کوئی نہیں۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: فلسطینیوں کو مسلمان ووٹرز ڈونلڈ ٹرمپ حوالے سے دیا جائے ٹرمپ کے جائے گا خالی کر نہیں کر کوئی ا کر دیا
پڑھیں:
جو کام حکومت نہ کر سکی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-8
آصف محمود
کسی کا بھٹو زندہ ہے، کسی کا ببر شیر دھاڑ رہا ہے، کوئی چشم تصور میں عشق عمران میں مارے جانے پر نازاں ہے، ایسے میں ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بنو قابل کی صورت امید کا دیا تھما رکھا ہے۔ کیا اس مبارک کام کی تعریف میں صرف اس لیے بخل سے کام لیا جائے کہ یہ جماعت اسلامی والے کر رہے ہیں اور جماعتیوں کے بارے میں کلمہ خیر کہنا سکہ رائج الوقت نہیں ہے؟ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر تو حیرت ہوتی ہے۔ ان کو اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو وہ نوجوانوں سے اس درجے میں لاتعلق کیوں ہیں۔ اب آ کر مریم نواز صاحبہ نے بطور وزیر اعلیٰ نئی نسل سے کچھ رابطے بڑھائے ہیں اور انہیں اپنا مخاطب بنایا ہے ورنہ مسلم لیگ تو یوں لگتا تھا کہ اب بس بزرگوں کی جماعت ہے اور چراغ سحر ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی یہی حال ہے۔ بلاول زرداری نوجوان قیادت ضرور ہیں لیکن وہ آج تک نوجوانوں کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی بیانیے میں ایسا کچھ بھی نہیں جس میں نئی نسل کے لیے کوئی کشش ہو۔ دائو پیچ کی سیاست کی ہنر کاری سے کسی بھی جماعت کے لوگ توڑ کر پیپلز پارٹی میں ضررو شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس سے پارٹی میں کوئی رومان قائم نہیں کیا جا سکتا اور رومان کے بغیر سیاسی جماعت کی حیثیت ہجوم سے زیادہ نہیں ہوتی۔ نئی نسل کو صرف تحریک انصاف نے اپنا مخاطب بنایا ہے۔ اس نے جوانوں کو نفرت کرنا سکھایا ہے۔ ان میں رد عمل، اشتعال اور ہیجان بھر دیا ہے۔ ان کو کوئی درست فکری سمت دینے کے بجائے ان کی محرومیوں کو مائنڈ گیم کا ایندھن بناتے
ہوئے انہیں زہر کی دلدل میں پھینک دیا ہے۔ اس کی عملی شکل سوشل میڈیا پر دیکھ لیجیے۔ نوجوان تعمیری گفتگو کی طرف کم ہی راغب ہوتے ہیں۔ ہیجان، نفرت، گالم گلوچ، اندھی عقیدت، پاپولزم، کیسے کیسے عارضے قومی وجود سے لپٹ چکے ہیں۔ دو فقروں کے بعد یہ باشعور مخلوق ہانپنے لگتی ہے اور پھر چھلانگ لگا کر نتیجے پر پہنچتی ہے اور نتیجہ کیا ہے: باقی سب چور ہیں، ایک اکیلا کپتان دیانت دار ہے اور وہ پاکستانی سیاست کا آخری ایماندار ہے اوپر سے ہنڈ سم سا بھی ہے تو بس اس کے بعد قیامت ہے۔ عمران ہی سب کچھ ہے، گندم کی فصل بھی اگر وقت پر تیار ہو جائے تو یہ عمران خان کے ویژن کا کمال ہے اور جون میں سورج کی تپش اگر تکلیف دے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی سب چور ہیں۔ نوجوان ہی تحریک انصاف ہی قوت ہیں اوور ان ہ کا فکری استحصال کر کے اس کی رونقیں قائم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے لیے تحریک انصاف نے کیا کام کیا؟ مرکز میں بھی اس کی حکومت رہی اور خیبر پختون خوا صوبے میں تو تسلسل سے اس کی حکومت رہی، اس سارے دورانیے میں تحریک انصاف کی حکومت نے نوجوانوں کے لیے کیا کیا؟ چنانچہ آج بھی نوجوانوں کا ابرار الحق صاحب کے ساتھ مل کر بس کپتان خاں دے جلسے اچ نچنے نوں جی کردا۔ اس کے علاوہ کوئی سرگرمی انہیں دی جائے تو ان کا دل کرے کہ وہ کچھ اور بھی کریں۔ نوجوانوں کو مائنڈ گیم کی مہارت سے الگوردم کے کمالات سے اور عشروں تک کی سرپرستانہ مارکیٹنگ کے طفیل کھائی کی سمت دھکیل دیا گیا ہے۔ وہ جلسوں کا ایندھن بھی بنتے ہیں۔ احتجاجوں میں قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور پھر جیلوں میں جا پہنچتے ہیں تو قیادت ان کی خیر خبر لینے بھی نہیں آتی۔ جوانوں کو مسلسل ریاست کی انتظامی قوت سے الجھائے رکھا گیا، لیکن یہ اہتمام کیا گیا کہ یہ نوجوان دوسروں کے گھرانے کے ہوں۔ قیادت کے اپنے بچے کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوئے۔ مائنڈ گیم کی مہارت غریب کے بچوں پر استعمال کی گئی، اپنے بچوں پر نہیں۔ اپنی طرف تو مزے ہی مزے ہیں۔ نئی کابینہ ہی کو دیکھ لیجیے، عمر ایوب خان کا چچازاد بھائی بھی وزیر بنا لیا گیا ہے، اسد قیصر کے چھوٹے بھائی جان بھی وزیر بنا دیے گئے ہیں۔ شہرام ترکئی کے بھائی جان کو بھی وزارت دے دی گئی ہے۔ نوجوان اگر تحریک انصاف کے ساتھ تھے تو تحریک انصاف کو ان کے ساتھ خیر خواہی دکھانی چاہے تھی۔ ان کے لیے کوئی منصوبہ لانا چاہیے تھا۔ انہیں معاشرے کا مفید شہری بننے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ نہیںہو سکا۔ ایک زمانے میں ایک ٹائیگر فورس بنی تھی، آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ سماج کی بہتری کے لیے اس فورس کی کارکردگی کیا رہی اور یہ فورس اس وقت موجود بھی ہے یا نہیں۔ ایسے عالم میں، ایک جماعت اسلامی ہے جس نے نوجوانوں کو با مقصد سرگرمی کی طرف راغب کیا ہے۔ بنو قابل پروگرام کی تفصیلات قابل تحسین ہیں۔ یہ کام حکومتوں کے کرنے کا تھا جو جماعت اسلامی کر رہی ہے۔ آنے والے دور کے تقاضوں سے نوجوانوں کو ہم آہنگ کرنا حکومتوں اور وزارت تعلیم وغیرہ کے کرنے کا کام تھا، یہ ان کو دیکھنا چاہیے تھا کہ وقت کے تقاضے کیا ہیں اور نصاب میں کیا کیا تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ حکومتوں کی مگر یہ ترجیحات ہی نہیں۔ ایسے میں الخدمت فائونڈیشن کا بنو قابل پروگرام ایک خوشگوار جھونکا ہے۔ جن نوجوانوں کو آئی ٹی کے کورسز کروائے جا رہے ہیں ان سب کا تعلق جماعت سے نہیں ہے۔ نہ ہی ان سے کوئی پوچھتا ہے کہ تمہارا تعلق کس جماعت سے ہے۔ 60 ہزار سے زیادہ نوجوان ان پروگرامز کو مکمل کر چکے ہیں۔ ان کی ایک ہی شناخت ہے کہ یہ پاکستانی ہیں۔ پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائی ٹیسٹ میں آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ویب ڈیولپمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، ای کامرس ڈیولپمنٹ، سائبر سیکورٹی جیسے کئی پروگرامز کامیابی سے چل رہے ہیں۔ جن کی عملی افادیت ہے اور وہ نوجوانوں کو حصول روزگار میں مدد دے سکتے ہیں۔ الخدمت فائونڈیشن، نے ہمیشہ حیران کیا ہے۔ اس نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جو اس پر واجب بھی نہیں تھے۔ جماعت اسلامی سے کسی کو سو اختلافات ہوں لیکن الخدمت دیار عشق کی کوہ کنی کا نام ہے۔ یہ اس ملک میں مسیحائی کا ہراول دستہ ہے۔ الخدمت فائونڈیشن اور جماعت اسلامی کا شکریہ اس سماج پر واجب ہے۔ (بشکریہ: 92 نیوز)