اسرائیل سے تعلقات بحالی کا منصوبہ خطرے میں
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ڈونلڈ ٹرمپ اور بنجمن نیتن یاہو کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین اور فلسطینی سرزمین کے حقیقی باسیوں کو نظرانداز کر کے سعودی عرب سے تعلقات بحال کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں لیکن ریاض اور عرب ممالک کی جانب سے شدید ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سیاست آگے نہیں بڑھے گی۔ ٹرمپ کی شدت پسندانہ پالیسیاں اور اسرائیل کی غیر مشروط حمایت نہ صرف نیتن یاہو کے موقف میں شدت پسندی کا باعث بنی ہے بلکہ عرب ممالک بھی زیادہ شدید اور مضبوط موقف اپنانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ آج نہ صرف سعودی عرب بلکہ دیگر عرب ممالک بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ خودمختار فلسطینی ریاست کی تشکیل کے بغیر امن ممکن نہیں ہو گا۔ ایسے حالات میں امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے دباو اور دھمکیوں کے ذریعے ابراہیم معاہدے کو آگے بڑھانے کی کوششوں نے خطے کے ممالک کو مخالف بنا دیا ہے اور تعلقات بحالی کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ چکا ہے۔ تحریر: رسول قبادی
سعودی عرب، اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اور امریکی صدر ڈٰونلڈ ٹرمپ کے درمیان اسرائیل سے تعلقات کی بحالی اور مسئلہ فلسطین کے بارے میں نوک جھونک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سعودی عرب کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے ہوئے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ ہر گز خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی اجازت نہیں دے گا اور حتی اس نے سعودی حکام کو یہ مشورہ بھی دے ڈالا ہے کہ فلسطینیوں کو سعودی عرب میں بسا دیا جائے۔ بنجمن نیتن یاہو کا یہ بیان ان گہرے اختلافات کو ظاہر کرتا ہے جو عرب ممالک سے اسرائیل کے تعلقات کی بحالی میں درپیش ہیں۔ مزید برآں اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی حکمران ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آ جانے کے بعد شدت پسندی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
یہ مسئلہ کچھ دن پہلے سے شروع ہوا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ چند دنوں میں وائٹ ہاوس میں نیتن یاہو کی میزبانی کی ہے اور ایسی باتیں کی ہیں جن سے اختلافات کی شدت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ امریکی صدر نے یہ دعوی کرتے ہوئے کہ سعودی عرب نے اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی جو خودمختار فلسطینی ریاست کی تشکیل پر مبنی ہو، اس تنازع کو مزید شدید کر دیا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب نے ایک سرکاری بیانیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فلسطین سے متعلق اس کا موقف تزلزل پذیر نہیں ہے اور قدس شریف کی مرکزیت میں خودمختار فلسطینی ریاست کی تشکیل کے بغیر اسرائیل سے کوئی بھی معاہدہ انجام دینا ممکن نہیں ہو گا۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اسرائیلی چینل 14 کو انٹرویو دیتے ہوئے خودمختار فلسطینی ریاست کی تشکیل سے واضح مخالفت کا اعلان کیا تھا۔
بنجمن نیتن یاہو نے کہا: "ممکن نہیں کہ تل ابیب خودمختار فلسطینی ریاست کی تشکیل کی اجازت دے۔ سعودی عرب کا رقبہ بہت زیادہ ہے اور وہ وہاں فلسطینی ریاست تشکیل دے سکتا ہے۔" اسی طرح نیتن یاہو نے 7 اکتوبر 2023ء کے دن انجام پانے والے طوفان الاقصی آپریشن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست کی تشکیل ناممکن ہے۔ یہ موقف عرب ممالک کے اس مطالبے سے واضح تضاد رکھتا ہے جس میں بارہا تاکید کی گئی ہے کہ مسئلہ فلسطین کا واحد راہ حل خودمختیار فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو سے ملاقات میں دعوی کیا ہے کہ سعودی عرب نے اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کے لیے خودمختار فلسطینی ریاست کے تشکیل کی کوئی شرط پیش نہیں کی ہے۔ جبکہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بارہا اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ خودمختار فلسطینی ریاست کی تشکیل کے بغیر مسئلہ فلسطین حل نہیں ہو سکتا۔
سعودی عرب کی جانب سے فلسطین کی حمایت پر زور دیے جانے کے باوجود نیتن یاہو کی کوشش ہے کہ وہ یہ شرط قبول کیے بغیر تعلقات میں بحالی کا عمل آگے چلائے۔ نیتن یاہو نے ٹرمپ سے ملاقات میں کہا ہے: "اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان دوستی نہ صرف ممکن ہے بلکہ مجھے پورا یقین ہے کہ ایسا ہو جائے گا۔" اسی طرح صیہونی وزیراعظم نے یہ دعوی بھی کیا کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی گذشتہ مدت صدارت میں چھ ماہ سے زیادہ باقی رہتے تو سعودی عرب سے تعلقات بحال ہو جانے تھے۔ لیکن صیہونی اور امریکی حکمرانوں کا یہ رویہ نہ صرف سعودی عرب سے تعلقات بہتر بنانے میں مددگار ثابت نہ ہوا بلکہ تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ سعودی عرب نے نیتن یاہو کے موقف کے خلاف ایک سرکاری بیانیہ جاری کیا ہے جس میں فلسطینی ریاست کی تشکیل پر زور دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس کے بغیر کوئی معاہدہ تشکیل نہیں پائے گا۔
بنجمن نیتن یاہو نے نہ صرف سعودی عرب کے خلاف موقف اختیار کیا ہے بلکہ قطر کو بھی دھمکی دی ہے کہ وہ اسرائیل سے تعلقات بحال کرے ورنہ اس کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔ نیتن یاہو نے چینل 14 کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "قطر کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ نئے مشرق وسطی میں کس محاذ پر ہو گا۔" اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل عرب ممالک پر دباو ڈال کر انہیں اپنے ساتھ تعلقات بحال کرنے پر مجبور کرنے کے درپے ہے۔ مسئلہ فلسطین سے متعلق عرب ممالک اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان اختلافات قاہرہ میں عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کے حالیہ اجلاس میں بھی عیاں تھے۔ اس اجلاس میں مصر، اردن، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ شریک تھے اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینیوں کی جبری جلاوطنی کسی قیمت پر قبول نہیں کی جائے گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور بنجمن نیتن یاہو کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین اور فلسطینی سرزمین کے حقیقی باسیوں کو نظرانداز کر کے سعودی عرب سے تعلقات بحال کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں لیکن ریاض اور عرب ممالک کی جانب سے شدید ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سیاست آگے نہیں بڑھے گی۔ ٹرمپ کی شدت پسندانہ پالیسیاں اور اسرائیل کی غیر مشروط حمایت نہ صرف نیتن یاہو کے موقف میں شدت پسندی کا باعث بنی ہے بلکہ عرب ممالک بھی زیادہ شدید اور مضبوط موقف اپنانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ آج نہ صرف سعودی عرب بلکہ دیگر عرب ممالک بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ خودمختار فلسطینی ریاست کی تشکیل کے بغیر امن ممکن نہیں ہو گا۔ ایسے حالات میں امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے دباو اور دھمکیوں کے ذریعے ابراہیم معاہدے کو آگے بڑھانے کی کوششوں نے خطے کے ممالک کو مخالف بنا دیا ہے اور تعلقات بحالی کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ چکا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سعودی عرب سے تعلقات اسرائیل سے تعلقات تعلقات بحال کرنے بنجمن نیتن یاہو سے تعلقات بحال اور اسرائیل کی عرب ممالک بھی اس بات پر زور مسئلہ فلسطین نیتن یاہو نے نیتن یاہو کے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نہیں ہو گا ممکن نہیں بحالی کا ہے کہ وہ کیا ہے گیا ہے ہیں کہ ہے اور
پڑھیں:
فرانس کا فلسطین کو باضابطہ ریاست تسلیم کرنے کا عندیہ، اسرائیل کو تشویش لاحق
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا ہے کہ فرانس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران فلسطین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر باضابطہ طور پر تسلیم کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں:غزہ میں جنگ کی وجہ سے شدید ماحولیاتی تباہی، جنگ کے مضر اثرات نسلوں تک پھیلنے کا خدشہ
صدر میکرون نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا:
’مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور پائیدار امن کے لیے فرانس کی تاریخی وابستگی کے تحت، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ فرانس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا‘۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب یورپ اور دنیا بھر میں اسرائیل کے غزہ پر حملے، انسانی بحران اور بھوک کی شدت پر شدید ردعمل پایا جا رہا ہے۔
فرانس اس اقدام کا اعلان کرنے والا یورپ کا سب سے بڑا اور بااثر ملک بن گیا ہے، جب کہ اس سے قبل ناروے، اسپین اور آئرلینڈ بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔
فلسطینی قیادت کا خیر مقدمفلسطینی صدر محمود عباس کو لکھے گئے خط میں میکرون نے اس فیصلے کی وضاحت کی، جس پر عباس کے نائب حسین الشیخ نے فرانس کے اقدام کو بین الاقوامی قانون اور فلسطینیوں کے حقِ خودارادیت کے لیے اہم قدم قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا اور اسرائیل نے جنگ بندی مذاکرات سے ٹیمیں واپس بلائیں، حماس نے مؤقف کو ناقابل فہم قرار دے دیا
حماس نے بھی اس فیصلے کو مثبت قدم قرار دیتے ہوئے دنیا بھر کے ممالک، خصوصاً یورپی اقوام، سے اپیل کی کہ وہ بھی فرانس کی پیروی کریں۔
اسرائیل کا سخت ردعملدوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر نے اس فیصلے پر شدید تنقید کی اور کہا کہ یہ اقدام دہشتگردی کے لیے انعام ہے اور ایک اور ایرانی ایجنٹ ریاست قائم کرنے کا خطرہ پیدا کرتا ہے۔
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے اسے ’دہشتگردی کے سامنے جھکنے‘ کے مترادف قرار دیا۔
عالمی منظرنامہاقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے کم از کم 142 ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں یا اس کا ارادہ رکھتے ہیں، مگر امریکہ، برطانیہ اور جرمنی جیسے بااثر مغربی ممالک نے اب تک اسے تسلیم نہیں کیا۔
فرانس کی طرف سے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 59,587 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، اور امداد کی شدید پابندیوں کی وجہ سے قحط جیسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔
پس منظرفلسطینی رہنما یاسر عرفات نے 1988 میں یکطرفہ طور پر فلسطینی ریاست کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد الجزائر سب سے پہلا ملک تھا جس نے اس ریاست کو تسلیم کیا۔ تب سے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا کے درجنوں ممالک اس فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔
تاہم فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ میں کئی رکاوٹیں اب بھی موجود ہیں، جن میں اسرائیلی قبضہ، غیر قانونی یہودی آبادکاریوں کی توسیع اور مشرقی یروشلم کی حیثیت جیسے تنازعات شامل ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل حماس غزہ فرانس فلسطین یاسر عرفات