Nai Baat:
2025-09-18@13:09:21 GMT

کرکٹ کی جیت

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

کرکٹ کی جیت

ایک وقت تھا کہ پاکستان میں عالمی کرکٹ کے د روازے مکمل بند ہو چکے تھے۔ کئی سال یہی صورتحال رہی۔ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ پاکستان میں حقیقی معنوں میں کرکٹ بحال ہوگی۔ پاکستانی فورسز نے ملک میں قیام امن کے لئے بے پناہ قربانیاں دی اور پھر اس کا ثمر کچھ اس طرح ملا کہ پاکستان میں عالمی کرکٹ مکمل طور پر بحال ہوگئی۔ دیگر ٹیموں نے پاکستان آنا شروع کیا جس میں سب سے پہلے سری لنکا نے ہمت کی اور پاکستان کا دورہ کر کے عالمی کرکٹ بحال کی اور سٹیڈیم کی رونقوں کو جلا بخشی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہی زمبابوے کی ٹیم نے دورہ کیا پھر ویسٹ انڈیز نے دورہ کیا۔ اس کے بعد سے کچھ کمی کوتاہی سی لگ رہی تھی۔ کرکٹ پاکستانیوں کے خون میں شامل ہے۔ یہ لوگ کرکٹ اپنے دل میں رکھتے ہیں اور عالمی ستاروں کو پاکستان میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی وجہ سے جب پی ایس ایل پاکستان میں آئی تو پاکستانیوں کی چمک دھمک اور جوش و جذبہ دیدنی تھا۔ اب کرکٹ بحال ہونے کے بعد وزیر داخلہ و چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے لگ بھگ گزشتہ سال ایک تاریخی اور مشکل فیصلہ لیا وہ یہ کہ پاکستان کے سٹیڈیمز کو بھی عالمی معیار کے مطابق اپ گریڈ کیا جائے گا۔ چیمپئنز ٹرافی سر پر تھی مگر پھر بھی چیئرمین محسن نقوی نے فیصلہ لیا کہ ایک سو اسی دنوں میں ہی سٹیڈیم کی اپ گریڈیشن مکمل ہوگی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ قذافی سٹیڈیم کا حلیہ اور نقشہ ہی بدل گیا۔ قذافی سٹیڈیم کی تعمیر نو اور تزئین و آرائش کے وزیراعظم شہباز شریف نے سٹیڈیم کا افتتاح کر دیا۔ افتتاحی تقریب میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے چیئرمین پی سی بی اور قومی ٹیم کے کھلاڑیوں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق،سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان،،وفاقی و صوبائی کابینہ کے اراکین سمیت سابق چیئرمینز پی سی بی،، غیر ملکی سفارتکاروں سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی،وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب اور چیئرمین پی سی بی نے قومی ٹیم کے کھلاڑیوں سے ملاقات بھی کی۔پی سی بی کے مطابق اپ گریڈیشن کے بعد قذافی سٹیڈیم میں 32 ہزار شائقین کے بیٹھنے کی گنجائش ہو گئی ہے، افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ قذافی سٹیدیم کی تعمیر نو بہت شاندار طریقے سے ہوئی، سب نے ایک ٹیم کے طور پر ریکارڈ 117دنوں میں منصوبہ مکمل کرکے ناممکن کو ممکن بنایا۔انہوں نے کہا کہ محسن نقوی کی عادت ہے کہ وہ اچھے کام کرتے ہیں ان کو لندن کی سیر کراتے ہیں، سٹیڈیم کی تعمیر کیلئے 2500 افراد نے کام کیا انہیں بھی لندن کی سیر کرائیں گے، شہباز سپیڈ ماضی، اب محسن سپیڈ چل رہی ہے۔۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے بھی سٹیڈیم کی تعمیر نو میں بھرپور مدد کی ہے، میں پنجاب حکومت کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں نے ڈی جی ایف ڈبلیو او کی بڑی تعریف سنی ہے،یہ بہت پروفیشنل سولجر ہیں،ایف ڈبلیو کو بھی بہت اچھے طریقے سے چلا رہے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ میں قومی کرکٹ ٹیم کے اپنے مایہ ناز کھلاڑیوں کو بھی دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شاباش اور مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے حالیہ مہینوں میں بہت اعلیٰ کرکٹ کھیلی اور پوری قوم کا دل جیتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ حکومت بھی ایک ٹیم ورک کے طور پر کام کر رہی ہے اور ملک میں معاشی استحکام اورٹھہراؤ آیا ہے، یہ سب مشترکہ ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ آسٹریلیا میں پرتھ کی وکٹ بڑی تیز ہے وہاں پر پاکستان کا میچ تھا اور ڈیننس للی عروج پر تھا، وہ گیند کرا رہا تھا، انتخاب عالم اور سلیم الطاف وکٹ پر تھے۔ڈینس للی بلا کی سپیڈ سے ختم کرا رہا تھا جو انتخاب عالم کو مختلف جگہوں پر لگی۔ جب اوور ختم ہوا تو سلیم الطاف،انتخاب عالم کے پاس گئے اور شاباش دی آپ بڑا اچھا کھیل رہے ہیں جس پر انتخاب عالم نے کہا کہ شاباش چھوڑیں باہر جانے کا راستہ کون سا ہے۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں بھی مہنگائی اسی رفتار سے آگے بڑھ رہی تھی جیسے ڈینس للی کی گیند برق رفتاری سے چل رہی تھی،مہنگائی کا بوجھ تھا لیکن میرے ساتھی آ کر کہتے تھے ویلڈن آپ تگڑے رہیں تو مجھے بھی اس وقت سلیم الطاف اور انتخاب عالم کا مکالمہ یاد آ گیا جس پر شرکاء نے بھرپور قہقہے لگائے محمد شہباز شریف نے کہا کہ چیمپئنز ٹرافی میں عوام قومی ٹیم کی جیت کی منتظر ہے، قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کی مدد کریں گے، ہم اس دن کا بھی انتظار کررہے ہیں جب قومی ٹیم بھارت کو شکست دے گی۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بابر اعظم اور محمد رضوان سے بہت سی امیدیں ہیں، یہ ٹرافی اللہ تعالیٰ پاکستان کی جھولی میں ڈالے گا، آخرمیں انہوں نے محسن نقوی کے کام کو سراہتے ہوئے کہا کہ آپ نے اپنے اقدامات سے قوم کے دل جیت لیے ہیں۔چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے کہا کہ ہمارا ٹارگٹ تھا چیمپئنز ٹرافی سے قبل قذافی سٹیڈیم کو مکمل کریں گے،بہت سے مزدور ایسے تھے جو 3،3 ماہ سے گھر نہیں گئے۔، اس تقریب کے دلہا ڈی جی ایف ڈبلیو او ہیں جنہوں نے نا ممکن کو ممکن کر دکھایا۔ اس مشکل وقت میں بھی پاکستان آرمی مدد کو آئی ورنہ یہ منصوبہ نا ممکن تھا کہ اس کو اتنے قلیل عرصے میں مکمل کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پی سی بی کے لوگ دن رات اس پراجیکٹ کے ساتھ لگا رہے،یہ تقریباً نیا سٹیڈیم بن گیا ہے، جس طریقے سے کام کو ختم کرایا گیا اس میں نیسپاک کا بھی بہت اہم کردارہے،اس نے بہت زبردست اورعمدہ کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پنجاب حکومت کی مدد اورمعاونت نہ ہوتی یہاں اطراف میں کھنڈر نظر آرہا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ تیس سال کے بعد پاکستان میں ایک بڑ اٹورنامنٹ ہونے جارہا ہے ہم سب مل کر اس کو کامیاب کریں گے۔اس موقع پر وزیراعظم نے مختلف محکموں کے حکام میں تعریفی شیلڈز تقسیم کیں۔ افتتاح کے بعد قذافی سٹیڈیم میں آتشبازی اور لائٹس شو کاشاندار مظاہرہ کیا گیا، شائقین کرکٹ کے لیے ہر انکلوژر سے میچ دیکھنے کابہترین ویو ہے۔سٹیڈیم میں زیادہ روشن ایل ای ڈی لائٹس اور 2نئی بڑی سکرین نصب کی گئی ہیں، اس کے علاوہ انکلوژرز کے آگے جنگلے ختم اور آرام دہ نشستیں لگائی گئی ہیں۔ قارئین یہ وہ تاریخی لمحات تھے جس نے پاکستانیوں کے دل جیت لئے۔ایسے میں بھارتی پراپیگنڈا سب کے سامنے ہے۔ بھارتی لابنگ نے اس ٹرافی کو نیوٹرل وینیو پر لے جانے کی بھرپور لابنگ کی اور دن رات ایک ہی سازش میں وقت ضائع کیا۔ کبھی دبئی اور کبھی ٹرافی سائوتھ افریقا لے جانے کی باتیں کیں مگر کچھ بھی نہ ہو سکا اور آخر میں جیت کرکٹ کی ہی ہوئی۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: شہباز شریف نے کہا کہ اعظم شہباز شریف نے چیئرمین پی سی بی انہوں نے کہا کہ قذافی سٹیڈیم انتخاب عالم پاکستان میں کہ پاکستان محسن نقوی سٹیڈیم کی قومی ٹیم کی تعمیر ٹیم کے کے بعد

پڑھیں:

بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

کرکٹ کی تاریخ میں ایک نہایت منفرد اور افسوسناک لمحہ اس وقت سامنے آیا جب ایشیا کپ کے ایک میچ کے بعد بھارتی کھلاڑیوں نے روایت سے ہٹ کر پاکستانی کھلاڑیوں سے مصافحہ کرنے سے گریز کیا۔ یہ واقعہ اس کھیل کی اصل روح پر ایک کاری ضرب ہے ، کیونکہ کرکٹ کو ہمیشہ "جنٹل مینز گیم” کہا جاتا رہا ہے ، جہاں نہ صرف کھیل کے اصول بلکہ باہمی احترام اور تعلقات کی نزاکت بھی اہم سمجھی جاتی ہے ۔ لیکن بھارت کے کھلاڑیوں کا یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتہا پسندی کی لہر نے وہاں کھیل کے میدانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ یہ محض ایک لمحاتی رویہ نہیں تھا بلکہ ایک سوچ اور بیانیہ کی عکاسی تھی جسے بھارتی میڈیا اور سیاستدان بڑی شدت کے ساتھ پروان چڑھا رہے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ ہمیشہ سے محض کھیل نہیں بلکہ ایک بڑے اعصابی معرکے کے طور پر دیکھی جاتی ہے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کا جوش و خروش اپنی جگہ، لیکن کھیل کے بعد کھلاڑیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ اور خوشگوار ملاقات ہمیشہ ہی ایک مثبت پیغام دیتی رہی ہے ۔ چاہے ماضی میں کتنے ہی کشیدہ حالات کیوں نہ رہے ہوں، کرکٹ نے دونوں ملکوں کے عوام کو قریب لانے کا ایک ذریعہ فراہم کیا ہے ۔ لیکن حالیہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں کھیل کی روایات بھی نفرت کی سیاست کے سامنے دم توڑ رہی ہیں۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے پہلے ہی بھارتی میڈیا نے ایک عجیب ہنگامہ برپا کیا۔ "گودی میڈیا”کہلانے والے بھارتی چینلز نے یہ بحث چھیڑ دی کہ بھارت کو پاکستان سے کھیلنا ہی کیوں چاہیے ؟ گویا کھیل کی دنیا میں بھی تعلقات کو دشمنی اور سیاست کی عینک سے دیکھنے کی عادت بن گئی ہے ۔ بھارتی میڈیا کا یہ کردار نہ صرف کھیل کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ بھارتی عوام کے ذہنوں میں بھی نفرت اور دوریاں بڑھا رہا ہے ۔ کرکٹ جیسے کھیل کو جنگ کا متبادل بنانے کی کوشش دراصل ایک خطرناک رجحان ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ کھیل ایک ایسا ذریعہ ہے جو دشمنی کے بادل چھانٹ کر امن کا پیغام دیتا ہے ، جب کہ جنگ تباہی اور بربادی لاتی ہے ۔ کھیل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کو قریب سے جان سکیں، تعلقات میں نرمی پیدا ہو اور اعتماد کی فضا قائم ہو۔ لیکن بھارت کی موجودہ انتہا پسندانہ روش نے اس فرق کو مٹا کر کھیل کو بھی نفرت کا اکھاڑا بنانے کی کوشش کی ہے ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کی تاریخ شاندار لمحوں سے بھری ہوئی ہے ۔ 1987ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان آئی تو جنرل ضیاء الحق نے "کرکٹ ڈپلومیسی” کے تحت راجیو گاندھی سے ملاقات کی، جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں وقتی بہتری پیدا کی۔ اسی طرح 2004ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو لاہور، کراچی اور راولپنڈی کے عوام نے بھارتی کھلاڑیوں کو بے مثال محبت دی۔ حتیٰ کہ شائقین نے بھارتی کھلاڑیوں کے لیے تالیاں بجائیں، ان کی کارکردگی کو سراہا اور دنیا کو دکھایا کہ کھیل کس طرح دشمنیوں کو مٹا سکتا ہے ۔ لیکن آج کا بھارت اپنی اسی تاریخ کو بھلا بیٹھا ہے اور کھیل کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا رہا ہے ۔
اصل مسئلہ بھارت کی اندرونی سیاست میں پنہاں ہے ۔ بھارتی حکمران جماعت نے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لیے پاکستان دشمنی کو ایک بیانیہ بنا لیا ہے ۔ انتخابی مہمات ہوں یا روزمرہ کی سیاست، پاکستان کے خلاف زہر اگلنا بھارتی رہنماؤں کے لیے ایک آسان ہتھیار ہے ۔ اس بیانیے کو بھارتی میڈیا نے مزید ہوا دی ہے ۔ ہر میچ کو ایک جنگ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ہر پاکستانی کھلاڑی کو ایک دشمن کے طور پر دکھایا جاتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام کے ذہنوں میں یہ نفرت اس حد تک رچ بس گئی ہے کہ کھیل کے بعد ایک مصافحہ بھی انہیں گوارا نہیں ہوتا۔یہ رویہ صرف پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ہی نقصان نہیں پہنچا رہا بلکہ بھارت کے اپنے کھیل کی ساکھ کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں کھیل کو امن اور دوستی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ، لیکن بھارتی کھلاڑیوں کا یہ طرزِ عمل دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ بھارت کھیل کو بھی اپنی انتہا پسندی کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر اس سے بھارت کی شبیہ متاثر ہو رہی ہے ، کیونکہ کرکٹ کے شائقین دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، وہ کھیل کے اندر دوستی اور عزت کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔
پاکستانی کھلاڑیوں نے ہمیشہ اپنی طرف سے کھیل کی اقدار کا احترام کیا ہے ۔ چاہے جیت ہو یا ہار، انہوں نے بھارتی کھلاڑیوں کے ساتھ مثبت رویہ اپنایا۔ لیکن بھارت کی جانب سے یہ سرد مہری اور غیر روایتی رویہ اس بات کا اظہار ہے کہ کھیل کو نفرت سے آلودہ کر دیا گیا ہے ۔ اس کا نقصان صرف پاکستان کو نہیں بلکہ خود بھارت کو بھی ہوگا، کیونکہ جب کھیل سے رواداری ختم ہو جاتی ہے تو اس کے بعد کھیل کا اصل حسن باقی نہیں رہتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے ؟ سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ کھیل کے میدانوں کو سیاست اور نفرت سے پاک رکھا جائے ۔ کرکٹ بورڈز کو چاہیے کہ وہ کھلاڑیوں کو کھیل کی اصل روح یعنی باہمی احترام اور رواداری کی تربیت دیں۔ بین الاقوامی ادارے مثلاً آئی سی سی اور اے سی سی اپنی ذمہ داری ادا کریں اور کھیل میں غیر اخلاقی رویوں کے خلاف سخت اقدامات کریں۔ میڈیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کھیل کو سیاست کا میدان نہ بنایا جائے بلکہ اسے امن اور بھائی چارے کا ذریعہ بننے دیا جائے ۔ پاکستان اپنی کرکٹ ڈپلومیسی کو مزید فعال کرے اور دنیا کو یہ باور کرائے کہ کھیل کو سیاست سے بالاتر سمجھنا چاہیے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کو یہ شعور دینا ہوگا کہ کھیل دشمنی نہیں بلکہ تعلقات بہتر بنانے کا ذریعہ ہے ۔آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ کھیل دلوں کو جوڑتا ہے ، جب کہ جنگ دلوں کو توڑتی ہے ۔ اگر بھارت واقعی ایک بڑی قوم بننا چاہتا ہے تو اسے کھیل کے میدانوں میں بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کے ساتھ کھیلنا کوئی کمزوری نہیں بلکہ ایک موقع ہے کہ دونوں قومیں قریب آئیں اور نفرت کی دیواریں توڑیں۔ کرکٹ کو نفرت کا نہیں بلکہ محبت اور امن کا ذریعہ بنانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • آئی سی سی  کرکٹ کو کرکٹ رہنے دے؛محسن نقوی
  • ایشیا کپ: یو اے ای کا پاکستان کیخلاف ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ
  • ایشیا کپ: پی سی بی اور آئی سی سی میں ڈیڈ لاک ختم، قومی ٹیم اسٹیڈیم روانہ
  • کرکٹ: مصافحہ نہ کرنے کا تنازعے پر پاکستانی موقف کی جیت؟
  • پی سی بی ایشیا کپ میں شرکت کا فیصلہ آج کرے گا
  • ایشیا کپ  کھیلنا ہے یا نہیں؛ پی سی بی آج فیصلہ کرےگا
  • بھارتی کرکٹ ٹیم یا بی جے پی کا اشتہاری بورڈ
  • ایشیا کپ، اگلے چند گھنٹوں میں پی سی بی اپنا مؤقف دے گا
  • بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی
  • آئی سی سی اور بھارت کا دوغلا پن