Nai Baat:
2025-09-18@15:36:52 GMT

سوشل میڈیا کو سنجیدہ لینا چاہیے؟

اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT

سوشل میڈیا کو سنجیدہ لینا چاہیے؟

حکومت بھی صرف سوشل میڈیا کمپین کو سنجیدہ لیتی ہے۔ حیرت ہے کہ صف اول کے کالم نگار جن مسائل پر اپنے جملوں میں الفاظ کے پھول پروتے ہیں اور کبھی نشتر، سب کچھ دربار اقتدار میں پڑی کوڑے کی ٹوکری کی نذر ہو جاتا ہے۔ رپورٹر اپنی تحقیقی سٹوریز سے سیاہ ہو چکے اخباری کاغذوں میں پکوڑے کھانے پر مجبور ہیں اور اینکروں کے گلے بلند آہنگی سے پیلے و نیلے پڑ چکے ہیں مگر حکومت قومی اخبارات، نیوز چینلز اور تخلیقی ادب پر صرف ایک تبسم زیر لب پر اکتفا کرتی ہے مگر کسی اجنبی سوشل وال پر وائرل ہو چکی ایک ویڈیو کے سامنے اپنا تمام رعب، رعونت اور پالیسیاں منہ پر مل کر ایکشن لینے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

سوشل میڈیا صارفین کا معیار پسندیدگی یہ ہے کہ وجاہت مسعود، حسن نثار، یاسر پیرزادہ اور حامد میر اپنے فالورز کی تعداد کے حوالے سے مہک ملک جیسے خواجہ سرا، چاہت فتح علی خان جیسے مسخرے اور مولوی مدنی جیسے مخولئے کے سامنے مسکین نظر آتے ہیں۔

ٹک ٹاک سے جذباتی ہو چکی حکومت کو بادبانی کشتیوں کی طرح ہوا کے رخ پر نہیں، حقائق کے مطابق چلنا چاہیے۔ جتنا بڑا واقعہ ہو جائے وہ تب تک قانونی مراحل سے نا آشنا ہی رہتا ہے جب تک اسے ملین و بلین فالورز والے سوشل اکاؤنٹ ہولڈرز سر پر نہیں اٹھا لیتے۔ اونٹنی کی ٹانگیں کاٹنے والا لرزہ خیز عمل پانچ دن تک ٹاپ ٹرینڈ بنا رہا جب تک وزیر مشیر وہاں نہیں پہنچ گئے جب کہ ایل پی جی کی غیر قانونی ری فلنگ بیس افراد کی جانیں نگل کر بھی جاری ہے۔
بچہ پیدا ہوتا ہے تو اذان سے پہلے اس کی تصویر سوشل میڈیا پر اپلوڈ ہوتی ہے۔ امتحانی پرچے جیسی خفیہ دستاویز پیپر شروع ہونے سے پہلے ٹاپ سٹوری بن جاتی ہے۔ شدید بیمار شخص ابھی آئی سی یو میں ہوتا ہے اور اس کی تصویر وائرل ہو جاتی ہے کہ ایک شخص جو مرنے والا ہے۔

سوشل میڈیا کو بہت زیادہ سنجیدہ لے چکی حکومت مسائل میں دب چکے ان افراد کو بھی فوری ریلیف دے جو اپنے بھرم اور وائٹ کالر پر لگنے والے دھبے کی وجہ سے اپنے مسائل کا تماشا نہیں بناتے۔ چیخوں پر بجنے والی تالیوں کی گونج پر ایکشن لیتے ہوئے آہوں اور سسکیوں کی پکار پر کان دھرے جائیں۔
اسی لیے مین سٹریم میڈیا بھی اب سوشل میڈیا کا محتاج ہو کر رہ گیا ہے۔ جو واقعہ ٹاپ ٹرینڈ بنتا ہے اگلے روز وہی لیڈ نیوز ہوتا ہے۔ تحقیقی صحافت اب قصۂ پارینہ ہو چکی۔ زندہ لوگوں کی موت، جعلی تصویروں، بے وزن شاعری اور غلط معلومات کے باوجود سوشل میڈیا اہم ہو چکا ہے اور اتنا اہم ہو چکا ہے کہ اب سنجیدگی اور غیر سنجیدگی کے درمیان فقط لائیکس کی تعداد کا فاصلہ رہ گیا ہے۔ جس کو جتنے زیادہ کمنٹ ملتے ہیں وہی بڑا فنکار کہلاتا ہے۔

حکومت کو سوشل میڈیا سے معلومات لے کر احکامات ضرور جاری کرنے چاہئیں مگر سچ اور جھوٹ پرکھ لینے کے بعد۔ تصویر کا ایک رخ وہ تھا جس نے ایس ایچ او تھانہ نیو ملتان کو گرفتار کرا دیا اور دوسرا رخ دو دن بعد سامنے آیا کہ سکیورٹی حصار توڑ کر بین الاقوامی سطح کی نقل و حرکت کو خطرے میں ڈالنے والے کو کیسے پکڑا جاتا۔ بے روز گاری سے تنگ فارغ بیٹھے سوشل میڈیا استادوں کو پالیسیوں پر قابض ہونے سے دور رکھنے کے لیے حکومت کو بادبانی کشتی کی طرح ہوا کے رخ پر نہیں چلنا چاہیے بلکہ سوشل میڈیا کمپین کو پہلے دونوں رخ سے دیکھنا چاہیے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا

پڑھیں:

روایتی ووٹنگ نہیں، سوشل میڈیا پر ہوگا وزیر اعظم کا انتخاب، نیپال

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دنیا میں پہلی بار سوشل میڈیا کے ذریعے کسی وزیراعظم کا انتخاب ہوا ہے، اور یہ منفرد تجربہ جنوبی ایشیائی ملک نیپال میں سامنے آیا ہے۔

دنیا بھر میں حکمرانوں کا انتخاب عموماً پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈال کر یا پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ہوتا ہے، مگر نیپال میں سیاسی بحران اور عوامی مظاہروں کے بعد سابق چیف جسٹس سشیلا کارکی کو چیٹنگ ایپ ’’ڈسکارڈ‘‘ کے ذریعے عوامی ووٹنگ سے عبوری وزیراعظم منتخب کیا گیا۔ عوامی احتجاج اور حکومت کے مستعفی ہونے کے بعد جب اقتدار کا بحران پیدا ہوا تو نوجوان مظاہرین نے فیصلہ کیا کہ قیادت خود چنی جائے اور اس مقصد کے لیے ڈسکارڈ کو انتخابی پلیٹ فارم بنایا گیا۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق، نیپال میں نوجوانوں نے ’’یوتھ اگینسٹ کرپشن‘‘ کے نام سے ایک ڈسکارڈ سرور بنایا جس کے ارکان کی تعداد ایک لاکھ 30 ہزار سے زیادہ ہو گئی۔ یہ سرور احتجاجی تحریک کا کمانڈ سینٹر بن گیا، جہاں اعلانات، زمینی حقائق، ہیلپ لائنز، فیکٹ چیکنگ اور خبریں شیئر کی جاتی رہیں۔ جب وزیراعظم کے پی شرما اولی نے استعفیٰ دیا تو نوجوانوں نے 10 ستمبر کو آن لائن ووٹنگ کرائی۔ اس میں 7713 افراد نے ووٹ ڈالے جن میں سے 3833 ووٹ سشیلا کارکی کے حق میں پڑے، یوں وہ تقریباً 50 فیصد ووٹ کے ساتھ سب سے آگے نکلیں۔

ووٹنگ کے نتائج کے بعد سشیلا کارکی نے صدر رام چندر پاوڈیل اور آرمی چیف جنرل اشوک راج سگدی سے ملاقات کی اور بعد ازاں عبوری وزیراعظم کے طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ مارچ 2026 میں عام انتخابات کرائے جائیں گے اور 6 ماہ میں اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کر دیا جائے گا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی اولین ترجیح شفاف الیکشن اور عوامی اعتماد کی بحالی ہوگی۔

خیال رہے کہ ڈسکارڈ 2015 میں گیمرز کے لیے بنایا گیا پلیٹ فارم تھا، مگر آج یہ ایک بڑے سوشل میڈیا نیٹ ورک میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس کا استعمال خاص طور پر جنریشن زیڈ میں مقبول ہے کیونکہ یہ اشتہارات سے پاک فیڈ، ٹیکسٹ، آڈیو اور ویڈیو چیٹ کے فیچرز فراہم کرتا ہے۔ نیپال میں اس پلیٹ فارم کے ذریعے وزیراعظم کا انتخاب جمہوری تاریخ میں ایک نیا اور حیران کن باب ہے جو مستقبل میں عالمی سیاست کے لیے بھی مثال بن سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • والد کے آخری لمحات کا وی لاگ بنانے پر تنقید، بیٹیوں نے اپنے دفاع میں کیا حیران کن وجہ بتائی؟
  • سندھ حکومت جرائم کے خاتمے اورقیام امن میں سنجیدہ نہیں، کاشف شیخ
  • عائشہ عمر کا نازیبا ریئلٹی شو؛ پیمرا نے وضاحت جاری کردی
  • سکولز میں بچوں کے موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی کی قرارداد منظور
  • این سی سی آئی اے کی جیل میں تفتیش، سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے متعلق سوالات پر عمران خان مشتعل ہوگئے
  • این سی سی آئی اے کی عمران خان سے جیل میں تفتیش: سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے متعلق سوال پر جذباتی ردعمل
  • ہمارے احتجاج سے قاضی فائز عیسیٰ کو ایکسٹینشن نہیں ملی،علی امین گنڈاپور
  • نیپال: روایتی ووٹنگ نہیں، سوشل میڈیا پر ہوگا وزیر اعظم کا انتخاب
  • روایتی ووٹنگ نہیں، سوشل میڈیا پر ہوگا وزیر اعظم کا انتخاب، نیپال
  • عمرشاہ کی انتقال سے پہلے اپنے بھائی احمد کے ہمراہ چاچو سے فرمائش کی آخری ویڈیو وائرل