ویب ڈیسک: قدیم اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ پاکستان ریلوے اکیڈمی والٹن کو 100 سال ہونے کو ہیں، ہزاروں ملکی و غیر ملکی طالب علموں کو کانٹا بدلنے سے لیکر ریل گاڑی چلانے سمیت دیگر معاملات کی مکمل تربیت فراہم کرنے والا واحد ادارہ ہے جس کی تعلیمی سند کو اقوام متحدہ نے بھی قبول کیا۔

پاکستان ریلوے اکیڈمی والٹن سے تعلیم حاصل کرنے والے کسی بھی ملک میں اپنی تعلیمی قابلیت پر ملازمت حاصل کر سکتے ہیں۔

"شاہین، نسیم کو ٹیم سے باہر کرو" سابق کرکٹر کا مطالبہ

تفصیلات کے مطابق برصغیر پاک و ہند میں برطانوی دور حکومت میں ریلوے کے چار ہیڈ کوارٹر ہوا کرتے تھے جن میں سے ایک ممبئی، کلکتہ، چٹا کانگ اور لاہور جبکہ صرف دو اکیڈمی تھی ایک ممبئی اور دوسری لاہور میں جس کو پاکستان ریلویز اکیڈمی والٹن کہا جاتا ہے۔

والٹن ریلوے اکیڈمی کا قیام 1929 میں عمل میں آیا۔ اس سے پہلے لائل پور آج کے فیصل آباد میں 1925 میں ایک چھوٹا سا  ٹریننگ اسکول تھا۔ اس کے بعد پھر لاہور میں 1926 میں عمارت بننا شروع ہوئی اور 1929 میں پاکستان ریلوے اکیڈمی والٹن کی بنیاد پڑی۔

لیبیا کشتی حادثے میں 7 پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق

پاکستان ریلوے اکیڈمی والٹن میں آج بھی قدیم ترین ریلوے کا ٹریننگ سسٹم اور اس کے ساتھ جدید ترین یعنی قدیم اور جدید نظام کو ملا کر ریلوے کے ڈرائیور ٹیکنیشن انجینیئر چاہے ان کا تعلق سگنلز سے ہو یا ٹریفک سے ہو یا کسی بھی شعب سے یہاں پر ہر سال 1400 سے 1500 ملکی اور غیر ملکی طالب علم تربیت مکمل کرنے کے بعد اپنے اپنے ممالک میں جا کر ریلوے کے نظام کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں۔

پاکستان ریلوے اکیڈمی والٹن کو 1954 میں اقوام متحدہ نے سرٹیفکیشن کے لیے قبول کیا یعنی پاکستان ریلوے اکیڈمی والٹن سے تربیت یافتہ اور فارغ التحصیل طالب علموں کی سند کو پوری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے۔

پنجاب حکومت کا آرگنائزڈ کرائم کے خاتمے کیلئے بڑا فیصلہ

یہی وجہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد پہلے 50 کے قریب ممالک کے طالب علم یہاں آکر اپنی تعلیم اور تربیت کو مکمل کیا کرتے تھے جس میں بھوٹان، سری لنکا، نائجیریا، ایران، عراق، آذربائیجان اور بنگلا دیش سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔ 1929 میں جب یہاں پر باقاعدہ طور پر ٹریننگ کا آغاز کیا گیا تو 1908 کے بنے ہوئے بھاپ سے چلنے والے انجن کے ذریعے ٹریننگ دی جاتی تھی۔ یہ ٹریننگ کا عمل 1930 سے شروع ہو کر ڈیزل انجن کے آنے تک جاری رہا، پھر ڈیزل سے چلنے والے انجن آنے کے بعد الیکٹرانک انجن کے ذریعے ریلوے کے ڈرائیور ٹیکنیشن انجینیئرز کو باقاعدہ طور پر ٹریننگ دی جانے لگی یعنی جدید ترین ٹیکنالوجی اور قدیم ترین ٹیکنالوجی کا استعمال آج بھی والٹن ریلوے اکیڈمی میں جاری ہے۔

بھکاری بچوں سے متعلق توہین عدالت کیس، چیئر پرسن چائلڈ پروٹیکشن بیورو کو نوٹس

والٹن ریلوے اکیڈمی کے ٹرینر ظفر کے مطابق بیرون ممالک سے آئے ہوئے طالب علموں سمیت اندرون ملک سے آئے طالب علموں کو بھی باقاعدہ طور پر فزیکل ٹریننگ دی جاتی ہے۔ ریلوے ٹریک پر گاڑی دوڑنے سے لے کر کانٹا تبدیل کرنے تک کے عمل کو سکھایا جاتا ہے اور کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ٹرین کو ایک پٹری سے دوسری پٹری پر کیسے شفٹ کیا جاتا ہے، یہ عمل بھی کر کے دکھایا جاتا ہے۔

پاکستان ریلوے والٹن اکیڈمی پاکستان کا واحد تربیتی ادارہ ہے جہاں پر ریلوے اپنے پورے نظام کو چلانے کے لیے تربیت فراہم کر رہا ہے اور 1929 سے لے کر آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ایک سیمولیٹر سسٹم بھی اس اکیڈمی کی زینت بنا ہوا ہے جو باقاعدہ ایک ٹرین ہی ہے جس میں تمام تر ٹیکنالوجی جدید ترین ہے۔ اس ٹرین کے ذریعے تربیت دی جاتی ہے، ٹرین کی رفتار سے لے کر ایمرجنسی بریک لگانے تک کے عمل اور کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں حادثے سے بچنے کے لیے اقدامات بھی کیے جاتے ہیں۔

پاکستان ریلوے اکیڈمی ایک عظیم شان درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ بھارت نے بھی اپنی ریلوے اکیڈمی کو جدید خطوط پر استوار کر لیا ہے۔ ڈرائیورز کے ریفریشر کورس ہوں یا پروموشن تمام ملازمین اور افسران کو کسی نہ کسی طریقے سے اسے اکیڈمی کا حصہ بننا پڑتا ہے، یہاں سے تربیت مکمل کرنے والوں کو باقاعدہ طور پر سند اور سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے جو اس بات کا احاطہ کرتا ہے کہ یہاں سے پڑھنے والا اس قابل ہے کہ وہ ریلوے کے کسی بھی شعبے میں ملازمت اختیار کر سکتا ہے۔

پاکستان ریلوے اکیڈمی میں 1930 سے لے کر آج تک کے جدید ترین سسٹم کو اپنایا گیا ہے اور آنے والے دنوں میں مزید جتنی بھی ٹیکنالوجیز آ رہی ہیں، اس کی اَپگریڈیشن کا سلسلہ بھی وقتاً فوقتاً جاری رہے گا۔

 
 

Ansa Awais Content Writer.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: لاہور لاہور لاہور ترین ٹیکنالوجی طالب علموں ریلوے کے سے لے کر جاتا ہے کسی بھی نے والے کے بعد

پڑھیں:

پاکستان میں 6 ہزارسے زیادہ ادویاتی پودے پائے جاتے ہیں، ماہرین

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 ستمبر2025ء) وفاقی اردو یونیورسٹی آف آرٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری نے کہا ہے کہ پاکستان میں6ہزارسے زیادہ ادویاتی پودے پائے جاتے ہیں جن کا روایتی استعمال صدیوں پر محیط ہے جبکہ یہ قدرتی وسائل ملک کی پائیدار ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روایتی جڑی بوٹیوں کے علم کا امتزاج نینو ٹیکنالوجی کے جدید سائنسی شعبے کے ساتھ ہی قدرتی ادویات کا مستقبل ہے۔

نینو ٹیکنالوجی ایک کثیرالجہتی میدان ہے جو حیاتیات، انجینئرنگ، فزکس اور کیمسٹری سمیت مختلف شعبوں کے انضمام پر مبنی ہے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار جامعہ کراچی کے بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی اور حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی میں قائم یونیسکو چیئر برائے میڈیسنل اینڈ بائیو آرگینک نیچرل پراڈکٹ کیمسٹری کے زیرِ اہتمام منگل کی شامادویاتی پودوں اور نینوٹیکنالوجیکے موضوع پر منعقدہ ایک خصوصی لیکچر کے دوران کیا۔

(جاری ہے)

لیکچر میں طلبا، محققین اور اساتذہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ آئی سی سی بی ایس کے ڈائریکٹر اور یونیسکو چیئر ہولڈر پروفیسر ڈاکٹر محمد رضا شاہ نے تقریب کے آغاز میں تعارفی کلمات پیش کیے۔پروفیسر ضابطہ خان شنواری نے کہا کہ دنیا میں محفوظ، مثر اور قدرتی علاج کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اور جدید سائنسی تحقیق کی بدولت روایتی علم اور حیاتیاتی تنوع کے درمیان خلا پر ہو رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس یہ موقع ہے کہ جڑی بوٹیوں کو نینو ٹیکنالوجی کے ساتھ ملا کر معاشی اور صحت کے شعبوں میں مثبت نتائج حاصل کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہربل میڈیسن کی عالمی مارکیٹ کا حجم2030تک532ارب امریکی ڈالر تک پہنچنے کا تخمینہ ہے جبکہ دنیا بھر میں80فیصد آبادی جڑی بوٹیوں کو استعمال کرتی ہے اور ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح95فیصد تک ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ادویاتی پودوں پر تحقیق کے میدان میں صنعت بڑے پیمانے پر پیداوار کے لیے ٹیکنالوجی فراہم کر سکتی ہے جبکہ جامعات کا کردار قیمتی حیاتیاتی مرکبات کی شناخت اور استخراج پر مرکوز ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہربل کلینیکل ٹرائل انسٹیٹیوٹ کا قیام پاکستان میں جڑی بوٹیوں پر مبنی ادویات کو فروغ دینے کے مشن کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جڑی بوٹیوں پر مبنی کلینیکل ٹرائلز صحت کے شعبے میں ترقی اور شواہد پر مبنی طریقہ علاج کے فروغ کے لیے نہایت اہم ہیں۔ قرشی اور اردو یونیورسٹی کلینک کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اسے فلاح و بہبود کا ایک نیا ماڈل قرار دیا۔ کینسر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ دنیا بھر میں اموات کی ایک بڑی وجہ ہے جس کے باعث2015میں 88لاکھ افراد جاں بحق ہوئے، پاکستان میں2020میں صرف بریسٹ کینسر کی178,388نئے کیس رپورٹ ہوئے جبکہ تقریبا40,000خواتین ہر سال اس بیماری سے جاں بحق ہو جاتی ہیں یعنی اوسطا ہر24گھنٹوں میں109خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر آٹھویں خاتون بریسٹ کینسر کا شکار ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ تحقیقی برادری کو چاہیے کہ وہ باہمی تعاون کے ذریعے جامع صحت اور علمی معیار کی ثقافت کو فروغ دے، اور ملک میں تشخیصی و تحقیقی صلاحیتوں کو آگے بڑھائے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان ریلوے نے 3 ٹرینیں منسوخ کر دیں، مسافر پریشانی کا شکار
  • علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی کی ملتان میں استاد العلماء علامہ سید محمد تقی نقوی سے اہم ملاقات
  • پاکستان اور عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے درمیان معاہدہ طے
  • پاکستان میں 6 ہزارسے زیادہ ادویاتی پودے پائے جاتے ہیں، ماہرین
  • پائیکرافٹ کو ہٹانے کے سوا راستہ نہیں، پی سی بی کا سخت مؤقف کیساتھ آئی سی سی کو دوبارہ خط، آج فیصلہ متوقع
  • پاکستان کی بنیاد جمہوریت‘ ترقی اور استحکام کا یہی راستہ: حافظ عبدالکریم
  • عمران خان کا ٹوئٹر اکاونٹ بھارت سے آپریٹ ہو رہا ہے، وزیر ریلوے حنیف عباسی کا دعوی
  •  اسرائیل کی مذمت کافی نہیں، دنیا کو اب اسرائیل کا راستہ روکنا ہوگا: نائب وزیراعظم
  • اینڈی پائی کرافٹ معاملہ، پی سی بی مؤقف پر قائم، درمیانی راستہ نکالنے کی کوششیں
  • گلبرگ ٹائون :اساتذہ کی ٹریننگ اور طلبہ کیلیے پی بی ایل پروگرام کا آغاز