اسلام آباد:

آئندہ مالی سال 2025-26 کے وفاقی بجٹ میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو مضبوط و فعال بنانے کے لیے ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی درآمد پر ڈیوٹی و ٹیکسوں میں رعایات دیے جانے کا امکان ہے۔

اس کے علاوہ، مقامی ٹیکسٹائل و فیبرک انڈسٹری کو تحفظ دینے کے لیے پولیئسٹر یارن، بلیچ شدہ و غیر بلیچ شدہ گری فیبرکس اور ڈائی شدہ و پرنٹ شدہ فیبرکس کی درآمد پر عائد کسٹمز ڈیوٹی اور ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ کیے جانے کا امکان ہے۔

درآمد پر عائد کسٹمز ڈیوٹی کی شرح بتدریج 11 فیصد سے بڑھا کر 16 فیصد اور 16 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد جبکہ ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کی شرح 2 فیصد سے بڑھا کر 4 فیصد کیے جانے کا امکان ہے۔

ذرائع کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی جانب سے آئندہ مالی سال 2025-26 کے لیے موصول ہونے والی بجٹ تجاویز کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں مقامی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو مضبوط بنانے کے لیے اور پیداواری لاگت میں کمی لانے کے لیے ٹیکسٹائل چین میں استعمال ہونے والی بنیادی خام مال پولیئسٹر سپن یارن کی درآمد پر عائد دو فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی صفر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

ایکسپریس کو دستیاب بجٹ تجاویز کی کاپی میں کہا گیا ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر میں استعمال ہونے والی اس خام مال کی درآمد پر اس وقت 11 فیصد کسٹمز ڈیوٹی اور 2 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد ہے جس سے ٹیکسٹائل مینوفیکچررز اور برآمد کنندگان کے لیے عالمی منڈی میں رائج قیمتوں کا مقابلہ کرنے میں دشواری پیش آرہی ہے، حکومت اگر اس بنیادی خام مال کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح صفر کرتی ہے تو اس اقدام سے ٹیکسٹائل مصنوعات کی قیمتوں میں کمی واقع ہوگی اور عام آدمی کو سہولت ملے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ، پیداواری لاگت میں کمی واقع ہوگی اور ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ٹیکسٹائل مصنوعات کی عالمی منڈی میں رائج قیمتوں کا مقابلہ کرنے میں آسانی پیدا ہوگی اور دو فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بڑا ریلیف ملے گا۔ اس انڈسٹری سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابسطہ ہے اور اس اقدام سے نیٹنگ اینڈ ویونگ انڈسٹری پر بھی اضافی بوجھ کم ہوگا۔

دستاویز کے مطابق مقامی فیبرکس مینوفیکچرنگ کو تحفظ دینے اور انک ی حوصلہ افزائی کے لیے، بلیچ شدہ و غیر بلیچ شدہ گری فیبرکس کی درآمد پر عائد کسٹمز ڈیوٹی کی شرح 11 فیصد سے بڑھا کر 16 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اسی طرح ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کی شرح دو فیصد سے بڑھا کر چار فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

اس اقدام سے پاکستانی فیبرکس کے لیے عالمی منڈی میں قیمتوں کا مقابلہ کرنے میں آسانی پیدا ہوگی اور عام عوام کے لیے بھی اشیاء کی قیمتوں میں کمی واقع ہوگی۔

اسی طرح، مقامی سطع پر ڈائی شدہ و پرنٹڈ فیبرکس بنانے والی انڈسٹری کو تحفظ دینے کے لیے بھی آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ڈائی شدہ و پرنٹ شدہ فیبرکس کی درآمد پر عائد کسٹمز ڈیوٹی کی شرح 16 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور ان مصنوعات کی درآمد پر عائد 4 فیصد ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی بھی اگلے مالی سال کے بجٹ میں برقرار رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

اس بارے میں ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی طرف سے موصول ہونے والی بجٹ تجاویز کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھی چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز سے بجٹ تجاویز موصول ہو رہی ہیں جن کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور ان اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے جو قابل عمل تجاویز ہوں گی انہیں بجٹ میں شامل کیا جائے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: درآمد پر عائد کسٹمز ڈیوٹی کرنے کی تجویز دی گئی ہے ٹیکسٹائل مصنوعات کی خام مال کی درآمد پر کسٹمز ڈیوٹی کی شرح ٹیکسٹائل انڈسٹری کی درآمد پر عائد ریگولیٹری ڈیوٹی فیصد سے بڑھا کر آئندہ مالی سال انڈسٹری کو بجٹ تجاویز ہونے والی ہوگی اور کا امکان کے لیے

پڑھیں:

پاکستان میں شعبہ صحت کا بحران:ساڑھے 7 لاکھ افراد کیلیے صرف ایک ڈاکٹر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد:پاکستان میں صحتِ عامہ کی صورت حال بدستور تشویش ناک ہے، جہاں ہر 7لاکھ 50 ہزار شہریوں کے لیے محض ایک ڈاکٹر میسر ہے۔

یہ حیران کن انکشاف وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ سالانہ اقتصادی سروے برائے مالی سال 2024-25 میں کیا گیا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ صحت پر حکومتی توجہ نہایت محدود اور وسائل غیر تسلی بخش ہیں۔

سروے رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں صحت کے شعبے پر رواں مالی سال کے دوران مجموعی طور پر 925 ارب روپے خرچ کیے گئے، جو جی ڈی پی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتے۔ ماہرین صحت کے مطابق یہ شرح نہ صرف عالمی معیار سے بہت کم ہے بلکہ ملک کی بڑھتی آبادی، موسمیاتی اثرات اور وبائی خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اخراجات انتہائی ناکافی قرار دیے جا رہے ہیں۔

پاکستان کی 24 کروڑ سے زائد آبادی کے مقابلے میں صرف 3 لاکھ 19 ہزار رجسٹرڈ ڈاکٹرز دستیاب ہیں۔ اگرچہ گزشتہ ایک سال میں ڈاکٹروں کی تعداد میں 20 ہزار سے زائد کا اضافہ ہوا، مگر یہ اضافہ بھی آبادی کے تناسب سے نہایت کم ہے۔ رپورٹ کے مطابق دانتوں کے امراض کے لیے مختص ماہرین یعنی ڈینٹسٹ کی مجموعی تعداد 39 ہزار 88 ہے، جو ملک کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔

دیگر طبی عملے کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ نرسز کی کل تعداد ایک لاکھ 38 ہزار، دائیوں کی تعداد 46 ہزار 801 اور لیڈی ہیلتھ ورکرز صرف 29 ہزار ہیں۔ دیہی علاقوں خاص طور پر سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں بھی اس عملے کی شدید قلت محسوس کی جا رہی ہے، جس کے باعث زچگی، بچوں کی پیدائش اور عام بیماریوں کا بروقت علاج مشکل ہو چکا ہے۔

طبی انفرا اسٹرکچر کے حوالے سے بھی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔ ملک میں اسپتالوں کی تعداد صرف 1696 ہے جب کہ بنیادی ہیلتھ یونٹس 5434 بتائے گئے ہیں۔ دور دراز علاقوں میں ان سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث لاکھوں افراد کو علاج کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے، جہاں نہ صرف اخراجات زیادہ ہیں بلکہ رسائی بھی ایک مسئلہ ہے۔

ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں بچوں کی شرح اموات اب بھی بلند سطح پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر 1000 بچوں میں سے 50 شیرخوار سالانہ طور پر جان کی بازی ہار جاتے ہیں، جو عالمی سطح پر انتہائی تشویش ناک شرح سمجھی جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں خوراک کی کمی، ناقص ویکسینیشن نظام اور بروقت طبی امداد کی عدم دستیابی شامل ہیں۔

اگرچہ رپورٹ میں اوسط عمر میں بہتری کا عندیہ دیا گیا ہے ، جو اب 67 سال 6 ماہ تک پہنچ چکی ہے ، لیکن ماہرین صحت کے مطابق یہ بہتری صرف شہری علاقوں تک محدود ہے، جب کہ دیہی علاقوں میں صورت حال اب بھی بدتر ہے۔ صحت کے شعبے میں پائیدار اصلاحات، فنڈز کا شفاف استعمال اور طبی عملے کی بھرتی جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔

اقتصادی سروے کے ان اعداد و شمار نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں صحت کا شعبہ مسلسل نظراندازکیا جا رہا ہے۔ اگر حکومت اور پالیسی سازوں نے سنجیدہ اور بروقت اقدامات نہ کیے تو ملک کو مستقبل میں مزید بڑے صحت کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں ساڑھے 7 لاکھ شہریوں کیلیے صرف ایک ڈاکٹردستیاب ہے
  • بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو 50 ارب روپے کا ریلیف ملنے کا امکان ہے، مہتاب حیدر
  • پاکستان میں شعبہ صحت کا بحران:ساڑھے 7 لاکھ افراد کیلیے صرف ایک ڈاکٹر
  • نیا بجٹ، نئے ٹیکس: کئی شعبوں پر چھوٹ ختم ! نئے ٹیکسز کن شعبوں پر لگیں گے؟
  • نیا بجٹ، نئے ٹیکس:  کئی شعبوں پر چھوٹ ختم  ! نئے ٹیکسز کن شعبوں پر لگیں گے؟
  • بجٹ میں بڑی کمپنیوں کیلئے سپرٹیکس میں کمی کی تیاریاں
  • آئندہ بجٹ میں بڑی کمپنیوں کیلئے سپرٹیکس میں کمی کی تیاریاں
  • چیئرمین ایکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ ڈاکٹر گوہر اعجاز نے بجٹ تجاویز پیش کردیں
  • چین کا اہم اقدام؛ بھارتی معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی
  • وزیراعظم کا عید کی مبارک باد کیلیے صدر مملکت کو فون