Express News:
2025-11-05@02:37:53 GMT

ایک قابلِ فخر ادارے کا دورہ

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

ملک کے کچھ ادارے ایسے ہیں جو بلاشبہ پوری قوم کے لیے وقار اور افتخار کا موجب ہیں، انھیں دیکھ کر پریشانیاں دور ہوجاتی ہیں، دل کھِل اٹھتا ہے اور سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے۔

کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ اور پاکستان ملٹری اکیڈیمی کاکول پاکستان آرمی کے ایسے ہی قابلِ فخر ادارے ہیں جن کا پورے ایشیا میں کوئی مقابلہ نہیں۔ اسٹاف کالج کوئٹہ میں گیسٹ اسپیکر کے طور پر کئی بار جاچکا ہوں، وہ ادارہ اپنے ڈسپلن اور تربیت کے اعلیٰ معیار کی وجہ سے دنیا کے چند چوٹی کے اداروں میں شمار کیا جاتا ہے، چند سال پہلے مجھے وہاں فکرِ اقبال کے موضوع پر لیکچر کے لیے مدعو کیا گیا تھا، جب میں نے اسٹاف کالج کے کمانڈنٹ (لیفٹیننٹ جنرل رینک کے افسر جو بعد میں مزید اہم عہدوں پر بھی فائز رہے) سے پوچھا کہ آپ نے اس اہم موضوع پر لیکچر کے لیے کسی یونیورسٹی پروفیسرکے بجائے مجھے کیوں بلایا ہے تو انھوں نے کہا کہ ’’اس موضوع پر ماہرینِ تعلیم تو بات کرتے ہی رہتے ہیں۔

 ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ایک عملی آدمی (practitioner) کو فکرِ اقبال نے کیسے متاثر کیا ہے اور اُس نے کلامِ اقبال سے کس نوعیت کی راہنمائی حاصل کی ہے‘‘۔ میرا خیال تھا کہ ایک بار بلانے کے بعد بات ختم ہوجائے گی مگر اگلے سال پھر اسٹاف کالج سے کالیں آنا شروع ہوگئیں۔ غالباً تربیتی ادارے کے انسٹرکٹرز کو راقم کی گفتگو پسند آگئی تھی کہ مجھے کئی سال تک وہاں لیکچر کے لیے بلایا جاتا رہا۔ اس کے بعد پاکستان ملٹری اکیڈیمی کاکول سے بھی دعوت نامے آتے رہے اور میں وہاں لیکچر کے لیے جاتا رہا۔

پہلی بار اُس وقت گیا تھا جب جنرل ستی (آجکل فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین ہیں) پی ایم اے کے کمانڈنٹ تھے، اونچے لمبے، اسمارٹ اور خوبرو۔ اُن سے بعد میں بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ جنرل بخاری کے دور میں بھی دو بار جانے کا اتفاق ہوا، اس کے بعد بھی دعوت نامے آتے رہے مگر میں اپنی مصروفیت کی بنا پر نہ جاسکا۔ اب پھر پی ایم اے کے کمانڈنٹ میجر جنرل افتخار حسن چوہدری کی طرف سے دعوت نامہ آیا تو میں نے جانے کا ارادہ کرلیا۔ اِس بار مجھے پاکستان ملٹری اکیڈیمی کی جانب سے ’’فکرِ اقبالؒ کی روشنی میں لیڈر شپ کا جدید تصور‘‘ کے موضوع پر لیکچر کے لیے بلایا گیا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ ’’آپ واحد سویلین (جس کا تعلق عسکری اداروں سے نہیں رہا) ہیں جنھیں اِس ادارے میں فکرِ اقبال پر لیکچر کے لیے بلایا جارہا ہے‘‘۔

پی ایم اے کاکول ملک کے ان چند اداروں میں ہے جو پورے ملک کے لیے مسرت و افتخار کا باعث ہیں، کسی بھی ادارے کے ماحول اور کلچر پر ادارے کے سربراہ کی شخصیت اور سوچ کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ پاک آرمی کی سب سے بڑی تربیت گاہ کے سربراہ جنرل افتخار حسن سے مل کر دل مزید خوش ہوا کہ وہ ایک جید اقبال شناس نکلے، جنرل صاحب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کے ہر محافظ میں غیرت اور خودداری کے اوصاف پیدا کرنا ضروری ہے اور اس کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ اسے فکرِ اقبال سے روشناس کرایا جائے۔

کسی بھی تعلیمی یا تربیتی ادارے کی برتری اس کی اینٹوں اور پتھروں سے بنی ہوئی عمارت کی وجہ سے نہیں ہوتی کہ بقولِ اقبالؒ سنگ وحشت سے جہان پیدا نہیں ہوتے۔ سنگ وخشت سے نہ جہان پیدا ہوتے ہیں اور نہ ہی ادارے قائم ہوتے ہیں، جو چیز اداروں کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کے سربراہ کا کردار، تربیت کے ساتھ اس کی وابستگی اور معلّمین اور انسٹرکٹرز کا معیار اور جذبہ ہے۔

 اس کے بعد تربیتی ادارے کا ڈسپلن اس کے معیار جانچنے کا سب سے اہم پیمانہ ہے۔ پاکستان ملٹری اکیڈیمی کی زیادہ تر عمارتیں اور Huts پرانی یعنی انگریز کے دور کی ہیں مگراسے ملک کا بہترین تربیتی ادارہ مانا جاتا ہے۔ اسے جو چیز دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کے سربراہ اور انسٹرکٹرز کا معیار ہے، فوج کے تربیتی اداروں میں تعیناتی کے لیے بہترین افسروں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ٹریننگ اکیڈیمی میں تعیناتی کو فوجی افسران اپنے لیے بہت بڑا اعزازسمجھتے ہیں کیونکہ عسکری ادارے تربیت کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہیں، تربیت ان کے لیے سزا نہیں بلکہ فخر اور اعزاز ہے۔ راقم سروس کے دوران پولیس ہی نہیں دوسری سروسز کے سینئر افسروں کو بھی اکثر کہا کرتا تھا کہ ٹریننگ کی اہمیت اور افادیت ہمیں عسکری اداروں سے سیکھنی چاہیے۔

ٹریننگ کیا ہوتی ہے اور یہ زیرِ تربیت افسر کو کس طرح تبدیل کردیتی ہے، یہ جاننا ہو تو پاکستان ملٹری اکیڈیمی جا کر دیکھیں۔ جب نوجوان افسر پی ایم اے کے گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہیں تو ان میں سے زیادہ تر دیہاتی پسِ منظر کی وجہ سے اردو بھی صحیح طریقے سے نہیں بول سکتے۔ اُس وقت وہ نہ تو سیدھا چل سکتے ہیں اور نہ ہی ربط کے ساتھ گفتگو کرسکتے ہیں، مگر پی ایم اے کی دو سالہ ٹریننگ کے دوران نہ صرف نوجوان افسروں کو سپرفِٹ بنادیا جاتا ہے بلکہ اُن کی تمام خوابیدہ صلاحیتوں کو بھی اجاگر کیا جاتا ہے۔

جب ایک نوجوان کیڈٹ ٹریننگ مکمل کرکے پی ایم اے سے نکلتا ہے تو وہ ایک مختلف انسان بن چکا ہوتا ہے، اس کی گفتگو اور چال ڈھال میں خوداعتمادی نظر آتی ہے، اُس میں قیادت کی صلاحیّتیں پیدا ہوچکی ہوتی ہیں، اس کا ڈر اور خوف اتر چکا ہوتا ہے اور وہ بے خوف ہوکر بڑے سے بڑا خطرہ مول لینے اور ملک اور قوم کے لیے جان قربان کرنے کے لیے بھی تیار ہوتا ہے۔ اچھے قائد کے لیے ابلاغ کی خوبیاں (communication skills) بہت ضروری ہیں، پی ایم اے میں اور بہت سی مہارتوں کے ساتھ ساتھ اس کی communication skills کو بھی نکھارا اور سنوارا جاتا ہے اور اس کا نظارہ ہر بار دیکھنے کو ملتا ہے، کیڈٹس کی خوداعتمادی اور ان کی متاثر کن گفتگو اور اعلیٰ معیار کے سوال سن کر بہت خوش ہوتی ہے۔

میرا لیکچر ایک گھنٹہ اور دس منٹ تک چلا، جس میں لیڈر شپ کے بارے میںمفکرپاکستان کے تصورات کا مختصراً احاطہ کیا گیا۔ اُس کے بعدآدھا گھنٹہ سوال وجواب کا سلسلہ جاری رہا۔خوشی کی بات یہ ہے کہ ماضی کے برعکس اس بار دونوں جانب سے ستّر فیصد گفتگو اپنی قومی زبان میں ہوئی۔ آخر میں جنرل صاحب نے میری گفتگو کا تجزیہ کیا اور اس وسیع موضوع کو بڑے احسن طریقے سے سمیٹا۔ یہ نشست زیرِ تربیت افسران کے لیے یقیناً مفید ثابت ہوئی ہوگی۔

اس کے بعد ہم چائے کی میز پر آگئے جہاں فیکلٹی ممبران کے ساتھ بھی ملاقات ہوئی اور ہلکی پھلکی گپ شپ ہوتی رہی، لنچ کے بعد میں پی ایم اے سے رخصت ہوگیا۔ پولیس سروس کے ایک بے حد نیک نام افسر ناصر محمود ستی آجکل ڈی آئی جی ہزارہ ہیں۔ انھیں میرے دورے کے بارے میں معلوم ہوا تو انھوں نے کہا کہ واپسی پر چائے ان کے پاس پی کر جاؤں۔ چنانچہ میں اٹھارہ سال بعد پھر اسی دفتر گیا جہاں میں خود بھی ڈی آئی جی ہزارہ کی حیثیت سے بیٹھا کرتا تھا، وہیں ایبٹ آباد کے باضمیر صحافی روزنامہ آج کے ڈپٹی ایڈیٹر اور اپنے مخلص دوست سردار فیصل سے بھی ملاقات ہوئی اور پرانی یادیں تازہ ہوئیں۔

وہاں بھی اور واپس آکر بھی پولیس افسروں سے ملاقات ہوئی اور ٹریننگ پر تبادلۂ خیال ہوتا رہا۔ تمام سینئر اور ریٹائرڈ افسروں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ سول سروسز میں عسکری اداروں کی نسبت ٹریننگ کا معیار انتہائی پست ہے۔ اس لیے کہ سول سروسز میں ٹریننگ کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔ حکومت جس افسر سے ناراض ہوجائے یا جس کو سینئر افسروں نے سزا دینی ہو اسے تربیتی ادارے میں تعینات کردیا یا پھینک دیا جاتا ہے۔ آرمی میں ٹریننگ کو Pride جب کہ سول میں اسے سزا یا فٹیگ سمجھا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب زیرِ تربیت سول افسران تربیتی اداروں سے نکلتے ہیں تو وہ ویسے کے ویسے (جیسے تھے) ہی رہتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تربیتی ادارے کے سربراہ پی ایم اے اس کے بعد ہوتے ہیں کے ساتھ جاتا ہے ہے اور

پڑھیں:

روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے،حیدرآباد چیمبر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-2-16
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر ) حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد سلیم میمن نے وزیرِاعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی جانب سے صنعت و زراعت کے شعبوں کے لیے ’’روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج‘‘ کے اعلان کو قابلِ تحسین اور خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام ملک کی صنعتی بحالی کی سمت ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ صنعتوں کی حقیقی بقا، روزگار کے تحفظ اور پاکستان میں کاسٹ آف پروڈکشن کو یقینی بنانے کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بنیادی سطح پر کمی ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے صنعتی و زرعی صارفین کے لیے اضافی بجلی کے استعمال پر 22.98 روپے فی یونٹ کا رعایتی نرخ ایک اچھا آغاز ہے، مگر ان ریٹوں پر بھی صنعتی طبقہ اپنی لاگتِ پیداوار کو کم نہیں کر پا رہا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگی بجلی کی اصل وجوہات ’’کپیسٹی چارجز‘‘ اور سابق معاہدے ہیں، جب تک ان پر نظرِثانی نہیں کی جاتی، بجلی کی حقیقی لاگت کم نہیں ہو سکتی اور کاروبار کرنا دن بہ دن مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔صدر چیمبر سلیم میمن نے کہا کہ کاسٹ آف پروڈکشن مسلسل بڑھنے سے نہ صرف ملکی صنعت متاثر ہو رہی ہے بلکہ برآمدی مسابقت بھی کم ہو رہی ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی صارفین کے لیے بجلی اور گیس دونوں کے نرخ کم از کم ممکنہ سطح تک لائے اور ان تجاویز پر عمل کرے جو حیدرآباد چیمبر اور دیگر کاروباری تنظیموں نے پہلے بھی حکومت کو پیش کی تھیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک کپیسٹی چارجز اور غیر ضروری معاہداتی بوجھ ختم نہیں کیے جاتے، بجلی سستی نہیں ہو سکتی۔ اس صورتحال میں پاکستان میں کاروبار چلانا دن بدن ناممکن ہوتا جا رہا ہے، لہٰذا حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر صنعتی شعبے کے لیے ریلیف فراہم کرنا چاہیے تاکہ روزگار کے مواقع برقرار رہیں اور چھوٹی و درمیانی صنعتیں بند ہونے سے بچ سکیں۔صدر حیدرآباد چیمبر نے مزید کہا کہ حکومت اگر صنعتی علاقوں میں (جہاں بجلی چوری کا تناسب انتہائی کم ہے) سب سے پہلے رعایتی نرخوں کا نفاذ کرے، تو یہ زیادہ مؤثر ثابت ہوگا۔ اس سے نہ صرف بجلی کی طلب بڑھے گی بلکہ وہ صارفین جو متبادل ذرائعِ توانائی کی طرف جا رہے ہیں، دوبارہ قومی گرڈ سے منسلک ہو جائیں گے۔ اس طرح حکومت کا ریونیو بھی بڑھے گا اور اضافی 7000 میگاواٹ پیداواری گنجائش کو بہتر طریقے سے استعمال میں لایا جا سکے گا۔انہوں نے باورکروایا کہ اگر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہ کی گئی تو کاروباری طبقہ مجبورا سستے متبادل توانائی ذرائع کی طرف منتقل ہوتا جائے گا، جس سے حکومت کے لیے کپیسٹی چارجز کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت ان پالیسیوں پر عمل کرے جو ماضی میں کیے گئے غیر متوازن معاہدوں کی اصلاح کی طرف جائیں تاکہ توانائی کا شعبہ ایک پائیدار صنعتی ماڈل میں تبدیل ہو سکے۔انہوں نے وزیرِاعظم پاکستان، وفاقی وزیرِتوانائی اور اقتصادی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا یہ اقدام یقیناً ایک مثبت آغاز ہے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • پاکستان انجینئرنگ کونسل کا گریجویٹ انجینئرز کے لیے خصوصی ٹریننگ پروگرام کا آغاز
  • عورتوں کو بس بچے پیدا کرنے والی شے سمجھا جاتا ہے؛ ثانیہ سعید
  • عالمی معاشی ادارے پاکستان کی بڑھتی معیشت کی تعریف کررہے ہیں،وزیرخزانہ محمد اورنگزیب
  • ملک میں اے آئی اور ایڈوانس اسکلز ڈویلپمنٹ ٹریننگ کیلئے نیوٹک اور نیٹسول میں معاہدہ
  • پاکستان میں ٹیپ بال کرکٹ کے فروغ کے لیے تیمور مرزا کا نجی ادارے کیساتھ بڑا معاہدہ طے
  • پاکستان قابل اعتماد عالمی شراکت دار کے طور پر آبھر : خواجہ آصف : بھارت سازشوں میں مصروف : عطاء تارڑ 
  • کراچی، رواں سال ٹریفک حادثات میں ہلاکتوں کا سیلاب، ریسکیو ادارے نے اعدادوشمار جاری کر دیے
  • کیا حکومت نے یوم اقبال پر عام تعطیل کا اعلان کردیا؟
  • روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے،حیدرآباد چیمبر
  • تم پر آٹھویں دہائی کی لعنت ہو، انصاراللہ یمن کا نیتن یاہو کے بیان پر سخت ردِعمل